• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم اسلام آباد کے رہنے والے گزشتہ ایک ہفتے سے نیا پاکستان دیکھ رہے ہیں، مادر پدر آزاد پاکستان اور انقلاب زدہ پاکستان اس نئے پاکستان کی قیادت دو لوگوں کے پاس ہے، جن میں سے آزاد پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی فکر کا شاخسانہ ہے اور انقلابی پاکستان عوامی تحریک کے قائد مولانا طاہرالقادری کی سوچ کا مظہر ہے، نئے پاکستان کی تحریک، لانگ مارچ سے شروع ہوئی پھر دھرنے سے ہوتی ہوئی سول نافرمانی کے مرحلے میں گئی اور ’’ریڈ زون‘‘ کی پامالی کے بعد پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے ڈی چوک میں اوندھے منہ پڑی ہے، کالم کی آخری سطریں لکھنے تک وزیراعظم ہائوس میں گھسنے کی کال دینے کے لئے ریفری انگلی اٹھانے ہی والا تھا کہ آئی ایس پی آر نے ریفری ہی کو بلو کارڈ دکھا دیا اور آئی جی پولیس اسلام آباد کے تبادلے نے ماحول میں اور بھی تشویش کی لہر پیدا کردی۔ نئے پاکستان کے قائدین کی زبان کسی طور بھی پارلیمانی نہیں ہے، بے غیرت، بے شرم، ڈاکو، لٹیرا قسم کے جملے اور اصطلاحیں عام استعمال ہورہی ہیں۔
عمران خان کا دل تو یہ بھی چاہ رہا ہے کہ وہ وزیراعظم کو گریبان سے پکڑ کے باہر پھینک دیں، ان کے نزدیک ساری اسمبلی جعلی ہے، 342 کے اس ایوان میں تحریک انصاف کی شیخ رشید اور 10 خواتین کی خصوصی نشستوں سمیت 35 سیٹیں ہیں گویا 342 کی جعلی اسمبلی میں تھوڑی جعل سازی عمران خان کی بھی شامل ہے۔ عمران خان جب یہ فرماتے ہیں کہ ساری اسمبلی جعلی ہے تو وہ صرف ممبران اسمبلی کی شان میں گستاخانہ کلمات نہیں کہہ رہے بلکہ پوری پاکستانی قوم کی توہین کررہے ہیں، اس توہین کا حق انہیں کس نے دیا وہ اگر ٹیکس اور بجلی گیس کے بل جمع نہ کرانے کی کال دے رہے ہیں تو یہ حکومت کے خلاف نہیں ریاست کے خلاف بغاوت ہے حیرت اس بات پر ہے کہ ساری جمہوری قوتیں پارلیمان میں جمہوریت کی بقاء کے لئے حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں اور ایک ایسا شخص جس کا پاکستان کی کسی بھی اسمبلی نہ صوبائی نہ قومی میں کوئی ممبر ہے نہ نمائندگی تو وہ صاحب بھی پارلیمنٹ کے سامنے مجمع لگائے فرمارہے ہیں کہ جو کوئی قومی اسمبلی سے باہر نکلے استعفیٰ دے کر یہاں سے گزرے وگرنہ اسے طاہرالقادری کی لاش پر سے گزر نا پڑے گا۔
یہ کس قسم کا جمہوری کلچر ہے، رکاوٹیں ہٹاتے حفاظتی خار دار تاریں کاٹتے اس انداز میں ڈی چوک کی طرح بڑھا گیا کہ جیسے وہ نیا پاکستان بنانے کی آڑ میں قائداعظم کا پاکستان فتح کرنا چاہتے ہیں کیا وہ دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہمارا ایٹمی پروگرام جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ مضبوط ہاتھوں میں ہے، خدانحواستہ اب وہ ہاتھ مضبوط نہیں رہے لہٰذا اسے سمیٹ دیا جائے، لپیٹ دیا جائے CAP کردیا جائے۔ افواج پاکستان تخریب کاروں کی بیج کنی میں مصروف ہے لاکھوں IDPs کھلے آسمان تلے پڑے ہیں انہیں کرائے کے گھر نہیں مل رہے واپس جانے سے وہ عاجز ہیں خیبرپختونخواکی حکومت نے IDPs سے اسکول خالی کرالئے ہیں، چھٹیاں ختم ہوگئی ہیں صوبہ عجیب انتظامی الجھن میں الجھا ہوا ہے اور صوبے کا وزیراعلیٰ اسلام آباد کے دھرنوں میں ہے ملکی معیشت بربادی کی طرف جارہی ہے۔
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ڈالر میں خاطر خواہ اضافہ ہوچکا ہے اربوں کھربوں کا مالی نقصان ہوچکا ہے، اسلام آباد کی شہری زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے دو ہزار کنٹینر سارے شہر کو گھیرے ہوئے ہیں اشیائے خورد و نوش ناپید ہوچکی ہیں تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں سرکاری دفاتر ویران ہیں کوئی بتلائے یہ نئے پاکستان کی بات کرنے والے قائداعظم کے پاکستان کو کیوں برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں گزشتہ سوموار کو علامہ طاہرالقادری نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں ایک ماڈریٹ انسان ہوں میں خود بہت بڑا لینن ہوں‘‘ ہماری کیا مجال کہ ہم اعتراض کریں ہم تو ایک عرصے سے لکھتے آرہے ہیں کہ مولانا جو دکھائی دیتے ہیں ایسے ہیں ہی نہیں، اور لینن کے بارے میں قوم جانتی ہے کہ وہ کون تھا اسلام آباد میں ہر لمحے صورت حال تبدیل ہورہی ہے بالکل اسی طرح جس طرح عمران خان کے مطالبے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
ادھر خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں گزشتہ منگل کو وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی گئی ہے، جس پر 46 ممبران اسمبلی کے دستخط ہیں خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں 90 جنرل سیٹیں ہیں 22 خواتین کی اور 3 اقلیتوں کی کل 124 ہیں سادہ اکثریت سے حکومت بنانے کے لئے 63 ممبران کی ضرورت ہے، موجودہ اسمبلی میں تحریک انصاف کی 55 نشستیں ہیں جماعت اسلامی کی 8 اس طرح جماعت اسلامی کے اشتراک سے خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے لیکن موجودہ حالات اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے غیر ذمہ دارانہ روئیے سے جماعت اسلامی کو بھی تحریک انصاف سے تحفظات پیدا ہوچکے ہیں ایسے میں اگر صوبے میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو نئے پاکستان کے دعویدار کیا منہ لے کر پلٹیں گے، وہ تو وفاقی اسمبلی کے خلاف نکلے تھے، پھر جس طرح تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی کے پاس اپنے ممبران قومی اسمبلی کے استعفے پہنچ چکے ہیں وہ انہیں اسپیکر اسمبلی کے پاس جمع بھی کرادیتے ہیں تو پھر تحریک انصاف کہاں کھڑی دکھائی دے گی نئے پاکستان کا خواب لے کر اٹھنے والی تحریک انصاف قائداعظم کے پاکستان کی اسمبلی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گی۔
ابھی کچھ نہیں بگڑا عمران خان کو تدبر سے کام لے کر مذاکرات کی میز پر آکر آئینی اور قانونی مطالبات منوالیتے چاہئیں بار بار اس طرح کے مواقع نہیں ملا کرتے وگرنہ جس صبر اور تدبر کا مظاہرہ حکومت نے کیا اور دھرنا بازوں کو ایک لاش بھی نہیں ملی، اگر عمران خان اسی طرح ضد پر اڑے رہے تو ان کے ہاتھ تو ویسے بھی کچھ نہیں آنا ہم نے اپنے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ عمران خان سیاست ہار گئے پھر خبر آئے گی کہ عمران خان الیکشن ہار گئے۔
تازہ ترین