• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاست کے بارے میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ یہ ممکنات کا فن کہلاتی ہے۔ بالکل اسی طرح ایک اور قول راسخ ہے کہ جنگوں کے بعد بھی فیصلے مذاکرات کی میز پر ہوتے ہیں۔ پاکستان کے عوام گزشتہ 1ماہ سے ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ پاکستان کی دو سیاسی جماعتیں موزے تنگ کی پیروی کرتے ہوئے لاہور سے اسلام آباد کی جانب مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد آپہنچیں ۔ اس میں بڑی رکاوٹوں کا سامنا رہا جسے سیاسی مصالحت کاروں نے ختم کروا کر ایک اچھی روایت کو جنم دیا۔ پھر یہ کارواں وفاقی دارالحکومت کے اس علاقے میں جا پہنچا جسے ریڈ زون کہاجاتا ہے۔ اس موقعے پر حکومت وقت کی تعریف اور تنقید دونوں کا موقع سیاسی مبصرین کو میسر آچکا ہے۔ تعریف ا س لئے کہ حکومت نے ان دونوں پرجوش مارچ کے شرکاء کا مقابلہ ریاستی طاقت سے نہیں بلکہ انتظامی تدبر سے کیا۔ موجودہ حکومت تنقید کی مستحق اس لئے ٹھہری کہ اس نے سیاسی محاذ پر سنجیدہ مذاکرات کے لئے کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جمہوریت میں جب کوئی ڈیڈ لاک آتا ہے تو اس کے فیصلے یا تو شاہی محل میں ہوتے ہیں یا پھر قصر صدارت میں ، لیکن اس بحران میں پاکستان کا ایوان صدر ایک خاموش تماشائی سے زیادہ کچھ ثابت نہ ہوا اور بالآخر افواج پاکستان کو مداخلت کرنا پڑی اور فوجی ترجمان نے سماجی تعلقات کی ویب سائٹ پر اہل سیاست کو یہ پیغام دیا کہ وہ تدبر اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بامقصد مذاکرات سے اپنے معاملات طے کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ دیارِ غیر سے بھی اسی قسم کے پیغامات حکومت اور سیاسی جماعتوں کو بھیجے گئے جس کے بعد بالآخر برف نے پگھلنا شروع کیا اور پرجوش مارچ کرنے والوں کے سربراہوں نے مذاکرات کے لئے نیم آمادگی کا اظہار کیا۔ دیر آید درست آید کے مترادف یہ بریک تھرو ہوا لیکن اگر یہ سب کچھ ایوانِ صدر کے توسط سے ہوجاتا تو جمہوریت کی لاج باقی رہ جاتی ۔جس طرح یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ گورنر سندھ اور گورنر پنجاب بھی سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھتے تھے لیکن اس بحران میں ان کا کردار قابل تعریف تھا۔ بالکل اسی طرح صوبہ سندھ جو تنازعات کا صوبہ ہے، اس میں سندھ کے گورنر کا کردار یقینا ان سے پہلے آنے والے گورنر سے مختلف تھا او ریقینا ان کے آنے والے گورنرز کے لئے بھی یہ کردار ایک اچھی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر ایوان صدر میں کوئی ایسی قدآور شخصیت موجود ہوتی جس پر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد ہوتا تو یہ بحران اس جمہوری ادارے میں حل ہوسکتا تھا نہ کہ فوج جو ایک انتظامی ادارہ ہے، اسے مداخلت کرنا پڑتی۔
بہرحال،نظام میں اصلاحات ، حکومت کی تبدیلی اور وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ پنجاب کے استعفے کا مطالبہ لئے شرکاء ریڈ زون میں موجود ہیں اور یہ اعصاب شکن جنگ بدستور جاری ہے۔ گو کہ مذاکرات کی راہ نظر آرہی ہے، تو امید ہے کہ تمام فریق کسی ایسے معاہدے پر پہنچ جائیں گے جس میں فائدہ صرف اور صرف پاکستان اور جمہوریت کا ہوگا۔ ایسا ممکن ہے کہ یہ تمام جماعتیں انتظامی معاملات اور انتخابی نظام میں اصلاحات پر متفق ہیں۔ اس پر کوئی متفقہ قانون سازی کا پیکیج لانے میں ہوسکتا ہے کہ کامیاب ہوجائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس امر پر بھی توجہ دیں کہ اسمبلیوں کی مدت دستورِ پاکستان میں پانچ سال متعین ہے اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں شاید اتنا تحمل نہیں ہے کہ وہ پانچ برس تک انتظار کریں۔ لہٰذا اسمبلیوں کی مدت کو پانچ سے گھٹا کر چار برس کیاجاسکتا ہے اورا س قسم کے سیاسی، انتظامی اور آئینی بحران سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ ایوان صدر کو مزید نمائندہ بنایاجائے گا۔ اس کا مقصد قطعاً یہ نہیں کہ صدرِ پاکستان کو 58-2bیا اس کی طرز کا کوئی اختیار تفویض کردیا جائے بلکہ ان کے الیکٹرال کالج کو وسعت دے کر ضلع کونسل تک پھیلایاجائے۔ اس کے ذریعے سے نہ صرف جمہوریت کی بنیاد مقامی حکومتوں کے نظام کو تحفظ مل جائے گا اور اس کی عدم موجودگی میں صدر کا انتخاب ناممکن ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسی شخصیت کا انتخاب شاید آسان ہوجائے جس پر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اورعوام اعتماد کرسکیں۔
نگراں حکومتوں کے قیام، اعلیٰ عدالتوں میں ججز کے تقرر، الیکشن کمیشن کے ممبران کا تقرر اور چیف الیکشن کمشنر کے انتخاب کے سلسلے میں بھی مروجہ قانون میں موجود سقم کو ختم کرکے ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں غیر جانبدار شخص کے ساتھ ساتھ تکنیکی اعتبار سے بھی اس کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے کیونکہ یہ منصب تقاضا کرتے ہیں کہ ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کیا جائے جو فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ کیونکہ وہی ادارے اپنی حیثیت کو منواتے ہیں جن میں فیصلہ کرنے اور اس پر عملدرآمد کرانے کی صلاحیت ہو۔ بالکل اسی طرح بیوروکریسی میں بھی اس کلئے کو منطبق کیاجائے کہ کسی بھی افسر خواہ وہ سیکریٹری کی سطح کا ہو یا سیکشن آفیسر کی سطح کا، اس کا تقرر انتظامیہ کرسکے لیکن اس کو ہٹانے کے لئے ایسا نظام وضع کیاجائے جسمیں کوئی سیاسی چپقلش کارفرما نہ ہو۔ وقت آگیا ہے کہ گزشتہ 20روز سے جاری رسہ کشی شاید اپنے اختتام کی طرف جارہی ہے۔اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس عوامی طاقت کے ذریعے جو دبائو حکومت پرآیا ہے، اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاست پاکستان اس کے جمہوری پارلیمانی طرز حکومت کو مضبوط اور دوام بخشنے کے لئے تمام وہ اصلاحات عملی طو ر پر لائی جائیں جن کے ذریعے سے اس قسم کے بحران اوّل تو پیدا نہ ہوں اور اگر ہوجائیں تو نظام اور دستورِ پاکستان اس کا قابل عمل حل تجویز کرتا ہو۔ جمہوری قوتیں فیصلہ سازی نہیں کر پا رہی تھیں جس کے باعث اقتدار سنبھالا گیا۔ اس کا راستہ اگر روکنا ہے تو سیاست دانوں کو وہی کردار ادا کرنا ہوگا جو اس بحران کے دوران ایم کیوا یم کے قائد الطاف حسین ، پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ سمیت دیگر سیاسی اکابرین نے ادا کیا۔ یہ روش برقرا ررہی تو پاکستان اس بحران سے نکل جائے گا اور بالآخر جیت جمہوری اداروں اور نظام کی ہوگی اور اس بحران سے نکلنا اس حقیقت کی علامت ہوگی کہ ہمارا جمہوری نظام اب بحرانوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کرچکا ہے اور یہ ایک بہتر مستقبل کی نوید ہوگی۔
تازہ ترین