• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت بلوچستان میں اپنی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور افغان ’’این ایس ڈی ‘‘ کے ذریعے دہشت گردی کو ہوا دینے کے لئے جو مذموم کوششیں کر رہا ہے اس کے ٹھوس شواہد بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کل بھوشن یادیو اور دوسرے ایجنٹوں کی وقتاً فوقتاً گرفتاریوں کی صورت میں ساری دنیا کی نظروں کے سامنے ہیں۔ اگر شک و شبہے کی کوئی گنجائش رہ گئی تھی تو وہ خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والےمظالم پر پردہ ڈالنے کے لئے بلوچستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی کا واویلا مچا کر دور کردی ہے۔ ان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ اٹھانے پر وہاں کے ایک علیحدگی پسند لیڈر نےان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ مسٹر مودی کی اس ہرزہ سرائی کے خلاف شدید احتجاج اور پاکستان سے اپنی لازوال وابستگی کے اظہار کے لئے جمعرات کو پورے بلوچستان کے محب وطن عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ کوئٹہ، قلات، خضدار، مستونگ، تربت، پنجگور، نصیر آباد، جعفر آباد، تمبو، چمن، ڈیرہ بگٹی، ڈھاڈر، بولان، مچھ، دالبندین، سبی اور نوشکی سمیت صوبے کے طول وعرض میں مودی کے پاکستان دشمن بیان کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں، مظاہرے کئے گئے اور دھرنے دیئے گئے۔ بھارتی پرچم اور مودی کے پتلے نذر آتش کئے گئے، علیحدگی کی حمایت کرنے والے بیرون ملک مقیم پاکستان دشمن عناصر کے خلاف ’’مودی کا جو یار ہے غدار ہے‘‘ اور ’’بلوچستان میں بھارتی مداخلت نامنظور‘‘ کے نعرے لگائے گئے۔ کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے بغیرعوام کا یہ فوری اور فطری ردعمل ایک طرح کا ریفرنڈم تھا جس میں بلوچستان کے عوام نے صوبے میں بھارتی مداخلت اور نریندری مودی کے بے سروپا دعوے کو یکسر مسترد کردیا۔ سبی میں نکالی جانے والی ریلی میں ہندو برادری نے بھی بھرپور شرکت کی۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناءاللہ زہری نے اس موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان مٹھی بھر لوگوں کی مذمت کی جوچند ٹکوں کے لئے بھارت کو سلام کر رہے ہیں اور کہا کہ ایسا کر کے وہ بھارتی ایجنٹ ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر کا جس پر بھارت نے وحشیانہ طاقت کے بل پر قبضہ کر رکھا ہے، بلوچستان سے کوئی موازنہ ہی نہیں، ہمارے آباواجداد نے اپنی مرضی سے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا اور بلوچستان تاقیامت پاکستان کا حصہ رہے گا۔ بلوچستان میں اتنے بڑے پیمانے پر پاکستان سے وابستگی کے اس والہانہ اظہار کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ صوبے میں قوم پرست سیاسی پارٹیاں وقتاً فوقتاً عوام کو درپیش مسائل و مشکلات کا شدومد سے اظہار کرتی رہتی ہیں مگر وہ پاکستان کے اندر حقوق اور ساحل و وسائل پر اختیارات چاہتی ہیں۔ علیحدگی نہیں چاہتیں۔ البتہ کچھ اقلیتی گروپ علیحدگی کے حق میں مزاحمتی تحریک چلا رہے ہیں جنہیں اکثریت کی مخالفت اور دبائو کا سامنا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے لیڈر یہاں رہ کر اپنے پیروکاروں کی قیادت کرنے کی بجائے ملک چھوڑ کر باہر چلے گئے ہیں بھارت ان کی فنڈنگ کر رہا ہے وہ عوام کا سامنا نہیں کر سکتے اس لئے واپس بھی نہیں آ رہے وفاقی اور صوبائی حکومتیں انہیں واپس لانے کی کوشش کر رہی ہیں تا کہ وہ قومی دھارے میں شامل ہو کر ملک اور اپنے صوبے کی خدمت کریں اس مسئلے پر بالواسطہ اور بلاواسطہ بات چیت ہوتی رہتی ہے یہ خالصتاً پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے کوئی عالمی فورم اسے تنازع تسلیم نہیں کرتا اس کے بر خلاف مقبوضہ جموں و کشمیر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ایک متنازع ریاست ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام نے آزادانہ رائے شماری کے ذریعے خود کرنا ہے۔ کئی ممتاز بھارتی سیاستدان اور میڈیا بھارتی حکومت کو کشمیری عوام پر ظلم وزیادتی کا قصوروار ٹھہرا رہا ہے سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے تو صاف کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے بحران کا ذمہ دار پاکستان نہیں بھارت ہے انتہاپسند بھارتی حکومت کو چاہئے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھے اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سوچ ترک کر کے کشمیری عوام کا حق خودارادیت تسلیم کرے تا کہ برصغیر میں پائیدار امن کی راہ ہموار کر سکے۔

.
تازہ ترین