• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنی تمام تر کمی اور کوتاہی کے باوجود پاکستان ایک جمہوریہ ہے ۔ اس میں انتخابات ہوتے ہیں، ووٹ کے ذریعے حکومتیں آتی جاتی ہیں(اگرچہ یہاں ہمیشہ سے ایسے نہیں تھا لیکن اب یہ سلسلہ مستحکم ہوتا دکھائی دیتا ہے) اور یہاں اظہار کی بھی آزادی پائی جاتی ہے ۔ لیکن یہ واحد جمہوریہ ہے جہاں کچھ مشروبات پر سرکاری پابندی اور اُن کا استعمال مجرمانہ سرگرمی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس پابندی نے پاکستان کو دیگر جمہوری ممالک کے خانے سے الگ کررکھا ہے ۔
اخلاقیات اور عقائد کے نگہبان کہتے ہیں کہ مے نوشی تمام خرابیوںکی جڑ ہے ۔ اسے ام الخبائث بھی کہا گیا ہے ، اور سچی بات یہ ہے کہ وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ تاہم اگر ہم اس دلیل کو آگے بڑھائیں تو پھر اس ام الخبائث پر پابندی کی وجہ سے پاکستان کو دیگر ممالک کی نسبت بہت اعلیٰ درجے کی جمہوریہ ہونا چاہئے تھا۔ ہمیں سویڈن، ناروے، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ وغیرہ سے بہت آگے ہونا چاہئے تھا۔ ہماری سیاست بدعنوانی، دھوکہ دہی اورمنافقت سے پاک ہوتی، ہمارے رہنمامجسم نیکی اور پارسائی ہوتے، انہیں کبھی غصہ آتا نہ اشتعال، اور نہ ہی فاسد خیالات ان کے دل سے گزر کر افعال میں ڈھلتے۔ ان کی زبان معتدل ہوتی، لیکن جب بولنے پر آتے، فصاحت و بلاغت کے دریا بہادیتے۔ اگر ایسا ہوتا تودنیا کے دیگر حصوںسے پی ایچ ڈی اسکالرز یہاں آکر ہماری جمہوریت ، چلیں بے کیف اور بوریت سے لبریز سہی، کا مطالعہ کرتے ، ہمارے رہنمائوں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے اور پھر واپس اپنی اپنی ریاستوں میں جا کر اپنے اہل ِوطن کو ہماری بہترین مثال سے قائل کرتے کہ خاص مشروب ا ور ایسے مقامات جہاں یہ پیش کیا جاتا ہے، پر مکمل پابندی کی وجہ سے وہ قوم اُن تمام مسائل سے پاک ہے جنھوں نے مغربی معاشروں کو گھیر رکھا ہے ۔
لیکن ٹھہریں، یہاں ایک مسئلہ ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ مشروب خاص سے احتراز کرنے والے اپنے مقاصد کی خاطر پارسا بھی بن جائیں، لیکن اُنھوں نے دیگر دنیا کی اصلاح کرنے کا بھی بیڑا اٹھایا ہوگا۔ ایک مثال ڈونلڈ ٹرمپ بھی ہیں۔ وہ الکوحل سے پرہیز کرتے ہیں۔ اُن کا پسندیدہ کھانا فاسٹ فوڈ ہے اور وہ اس کے ساتھ سافٹ ڈرنکس لیتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ موسیقی کا ذوق بھی نہیں رکھتے ۔ سافٹ ڈرنکس اور فاسٹ فوڈ روح کی گہرائیوں تک رسائی نہیں رکھتے، ان کے استعمال سے آپ پریشان اور غصے سے بھرے ہوئے رہتے ہیں۔ تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے بے ساختہ مزاج کو کنٹرول نہیں کرپاتے، جو منہ میں آئے کہہ ڈالتے ہیں۔
اٹل بہاری واجپائی شام کو ایک یا دوقسم کے ڈرنکس پسند کرتے تھے ۔ وہ غیر شادی شدہ تھے ، لیکن خیر اُن کی ایک دوست تھی جو جیون بھر اُن کے ساتھ رہی، لیکن وہ منظر عام پر، میڈیا کی نظروں میں، نہیں آئی۔ وہ بھی بی جے پی کے اسی نظریے کے پرچارک تھے جو نریندر مودی کا ہے ، لیکن بطورانسان ان دونوں میں بہت فرق ہے ۔ کوئی بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ ایک سیاسی جماعت، بی جے پی کو دائیں بازو کی ایک انتہا پسند جماعت بنا دیا جائے گا، لیکن نریندر مودی نے کرشمہ کردکھایا۔ نریندر مودی مشروب نہیں پیتے اور وہ ’’کنوارے ‘‘ ہیں، نہ اُن کی کوئی بیوی ہے اور نہ گرل فرینڈ۔ وہ جسمانی طور پر صحت مند اور ہندو توا کے نظریات سے لبریز ہیں۔
ہم بھی اپنے ہاں پائے جانے والے مختلف اقسام کے انتہا پسندوں کوجانتے ہیں کہ وہ گن پوائنٹ پراس معاشرے میں عدم برداشت کا زہر بھرنا چاہتے ہیں۔ انڈیا پر بھی ایک اور قسم کے انتہا پسند حکومت کررہے ہیں۔ دونوں انتہا پسند مختلف قسم کے معبدوں میں عبادت کرتے ہیں، مختلف مذہب، عقائد اور نظریات رکھتے ہیں، لیکن ان کی سوچ اور مقصد ایک ہی ہے ۔ یہ دونوں نفرت ، تشدد اور انتہائی نظریات کاپرچار کررہے ہیں۔ وہ دوسروں پر اپنے نظریات مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ داعش کی اسلامی خلافت بھی مے نوشی کی سخت مخالف ہے ۔ اس کی خلافت کے دائرے میں مے نوشی کی سزا سرکے پیچھے نہایت صفائی سے گولی اتارنا ہے۔ نریندر مودی ، جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، نہیں پیتے، طالبان نہیں پیتے، ہٹلر پینے سے نفرت کرتا تھا۔ اُس کی میز پر کبھی مشروب خاص دکھائی نہ دیا، ملاقات کے لئے آنے والے غیر ملکی مہمانوں کے لئے بھی نہیں۔ اب ٹرمپ بھی نہیں پیتے۔ نفرت ، تشدد اور انتہا پسندی کے مختلف دھڑے ایک مماثلت رکھتے ہیں۔۔۔ وہ خاص مشروب سے نفرت کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وائن کا دیوتا، Dionysus، نفرت اور عصبیت کی شدت کو کم کردیتا ہے ۔
یہاں کچھ استثنات کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگا۔ا سٹالن پینے کے لئے پانی کااستعمال ناروا سمجھتے تھے ۔ حتیٰ کہ دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران بھی وہ اور اُن کے اہم ترین جنرل ماسکو کے باہرمضافاتی علاقوں میں بنے ہوئے عارضی گھر میں قیام کرتے اوررات بھر کیف و نشاط کی محفلیں سجاتے ۔ وہ خود بھی پیتے لیکن وہ دیکھنا پسند کرتے کہ اُس کے افسران کس طرح مدہوش ہوچکے ہیں۔ جب وہ گلاس اٹھاتے تو سوال ہی پیدا نہیںہوتا تھا کہ دیگر شرکا اُن کے ساتھ گلاس اپنے ہونٹوں کے ساتھ نہ لگائیں۔ اسٹالن کے ’’دربار‘‘ میں ایسی گستاخی نہیں کی جا سکتی تھی۔ ہٹلر اورا سٹالن کا فرق ملاحظہ فرمائیں۔ ویسے تو دونوں ہی سخت گیر آمر تھے ، لیکن ایک بلا کا نوش، دوسرا پرہیزگار۔پرہیزگار ہٹلر نے اپنا ملک تباہ کردیالیکن اسٹالن نے ایک کامیاب سیاست دان کی طرح اپنے ملک کو ایک سپرپاور بنایا اور کمیونزم کو مشرقی یورپ تک پھیلا دیا۔ چنانچہ مسابقت کرنے پر آئیں تو پینے والوں کی جیت دکھائی دیتی ہے ۔
تاہم پاکستان میں پینے کی بات کرنا خسارے کا سودا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو محمد علی جناح کے بعد سب سے ذہین رہنما تھے ، اور وہ باقاعدگی سے پیتے تھے ۔ شام کے بعد وہ پئے بغیر رہ ہی نہیں سکتے تھے ۔ وہ ہر حوالے سے پینے کا سلیقہ رکھتے ۔ اُن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اگر وہ رات بھر بھی پیتے رہتے تو بھی صبح کو تازہ دم ہی دکھائی دیتے ۔ ایسی خوبی فطرت کسی کسی کو عطاکرتی ہے ۔ عام انسان رات کو تھوڑی سی زیادہ پی لیں تو صبح کو نظر ہی نہیں آتے ۔ تاہم اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود بھٹو افسوس ناک انجام سے دوچار ہوئے ۔ شریف برادران انتہا درجے کے پرہیزگار ہیں۔ وہ مے نوشی اور دیگر امور سے پرہیز کرتے ہیں۔ اور وہ پاکستانی سیاست میں سب سے طویل اننگز کھیل رہے ہیں۔ اُن کا کوئی حریف دوردور تک دکھائی نہیں دیتا۔ مشرف آئے اور چلے گئے ، لیکن شریف برادران اقتدار پر موجود۔ ہمارے ہاں یحییٰ اور بھٹو پیتے تھے ، موجودہ حکمران شریف النفس ہیں۔ اب موازنہ کیا کیا جائے؟ جو پیتے تھے اُنھوں نے مے کشی کو بدنام کیا، اور جو نہیں پیتے ، اُنھوں نے پرہیزگاری کو۔
بہرحال دلیل یہ ہے کہ پابندی نے پاکستانی جمہوریت کو ن سے چار چاند لگادئیے ہیں؟اس وقت بدعنوانی کے ماہرین دکھائی دیتے ہیںجو پرہیزگاری میں اپنی مثال آپ ہیں۔ کیا ہماری نیک و کار پارلیمنٹ سماجی معاملات پر بہترقانون سازی کررہی ہے ؟جنرل ضیا دور کی آٹھویں ترمیم کے تحت بننے والے حدود آرڈیننس پینے، مشروب رکھنے اور دنیاکے قدیم ترین پیشے سے استفادہ کرنے سے سختی سے روکتے ہیں۔ تاہم ان پابندیوں نے ہمیں کوئی بہت اچھا معاشرہ نہیں بنادیا ہے ، بس اس کے نرخ غیر ضروری حدتک بڑھ گئے ہیں اور ہم منافقت کی دوڑ میں پوری دنیا کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔


.
تازہ ترین