• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی لیجنڈ فنکارہ جن کا پیدائشی نام پتلی بائی تھانے جب دنیائے فن میں قدم رکھا تو انہیں شمیم آرا کانام دے دیا گیا اور اسی نام سے پہلے انہوں نے متعدد فلموں میں اپنی ور سٹائل کردار نگاری سے سلور اسکرین کو ایک نیا احساس دیابلکہ بعد ازاں بحیثیت ہدایتکارہ بھی فلم بینوںاور ناقدین کو اپنا گرویدہ کر لیا۔ عملی طور پر شمیم آرا نے فلمی صنعت سے کم و بیش اٹھارہ برس پہلے ہی کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ کنارہ کشی کے بعد ان کے شب و روز انتہائی کسمپرسی اور مفلسی کی حالت میں گزرے۔ حتی کہ ان کے ہاتھوں سے بنائے ہوئے سپر اسٹارز بھی ان سے میل جول ترک کر گئے جبکہ دوران علالت سرکاری سرپرستی اور دلجوئی بھی نہیںہو سکی۔یوں توشمیم آرا کی طویل ترین اور ناقابل فراموش فنکارانہ خدمات پر کئی سو صفحات پر مشتمل کتاب لکھی جا سکتی ہے لیکن میں آج ان کی تعریفوں کے پل باندھنے کی بجائے ان کی زندگی کے چند تلخ حقائق بیان کرنا چاہتا ہوں جن کا میں عینی شاہد ہوں۔میں نے بطور شوبز رپورٹر ایک قومی اخبار میں طویل عرصے تک رپورٹنگ کی اور اپنے پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے سلسلے میں محترمہ شیم آرااور ان کے شوہر دبیر الحسن سے متعدد ملاقاتیں بھی ہوئیں۔مجھے ان کے گھر سے کھائی ہوئی چینی والی روٹیاںاور آم آج بھی یاد ہیں ۔مجھے یاد ہے کہ ان کی علالت سے پہلے میر ی آخری ملاقات گلبرک میں واقع گھر کے ایک چھوٹے سے گیسٹ روم میں ہوئی میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ اپنا گھر چھوڑ کر کسی کے گیسٹ روم میں کیوں رہ رہی ہیں۔ ان کو فالج کا اٹیک ہو چکا تھا اوروہ کسی حد تک بہتر نظر آ رہی تھیں۔ اپنی علالت کے باعث وہ زیادہ بات چیت نہیں کر سکتی تھیںلیکن انہوں نے دھیمی آواز میں بتایا کہ انہوں نے اپنا گھر کسی اسکول کو کرایہ پر دیا تھا لیکن اسکول والوں نے دھوکہ دہی کرتے ہوئے جعلی کاغذات بنا کر گھر پر قبضہ کر لیا ہے۔ میں نے استفسار کیا کہ یہ کیونکر ممکن ہوا۔ انہوں نے جواب دیا کہ اسکول والوں نے میرے گھر کی لیز کے حوالے سے کاغذات پر دستخط کروائے اور ایڈوانس بھی دیا بعد میں مجھے نہیں معلوم کیسے انہوں نے ملکیتی دستاویزات تیار کروائیں انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ہم نے یہ گھر مجھ سے خریدا ہے اور بیعانے کی مد میں ایڈوانس بھی دے دیا ہے اور بقیہ رقم دے کر رجسٹری کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔اسکول والوں کایہ موقف میرے سامنے تب آیا جب میںنے ان کی شکایت تھانے میں کی۔ انہوں نے جعلی کاغذات پر حکم امتناعی بھی حاصل کر لیادر حقیقت میری بیماری کی وجہ بھی یہی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے ہمسائے میںاس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی رہتے ہیں آپ نے یہ واقعہ ان سے بیان کیوں نہیں کیا؟ آپ پاکستان کی لیجنڈ فنکارہ ہیںآپ اپنی بات ہر سطح پر پہنچا سکتی ہیں۔اس پر محترمہ شمیم آرا نے بتایا کہ میں تمام دروازے کھٹکھٹا چکی ہوںکوئی بھی میری مدد کرنے کو تیار نہیں یہ بتاتے ہوئے ان کی آنکھیں آبدیدہ ہو گئیں۔ میں نے ان کے گھر کے حوالے سے مختلف لوگوں سے معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کی تو مجھے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے ان کے گھر پر قبضہ کر لیاہے وہ بہت با اثر لوگ ہیں ۔ کچھ عرصہ کے بعد میڈم کی طبیعت مزید بگڑ گئی اور وہ اپنے بیٹے سلمان کریم کے پاس برطانیہ چلی گئیں۔ جہاں پر ان کی طبیعت دن بدن خراب ہوتی گئی حتی کہ وہ قومامیں چلی گئیں۔ وقت گزرتا رہا اور2013ء میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو وزیراعظم کے منصب پر یوسف رضا گیلانی صاحب فائز ہوئے۔ ان کی وزارت عظمی کے کچھ عرصے بعد شہنشاہ غزل مہدی حسن شدید علیل ہوئے تو ان کی عیادت کے لئے یوسف رضا گیلانی بھی آئے جہاں پر ایک صحافی نے ان کو بتایا کہ میڈم شمیم آرابھی شدید علیل ہیں اوروہ ان دنوں برطانیہ میں ہیں جس پر وزیراعظم گیلانی نے اعلان کیا کہ وفاقی حکومت شمیم آراکے علاج کے تمام اخراجات برداشت کرے گی۔ کچھ عرصہ بعد مجھے میرے دوست اکرم چوہدری کافون آیا کہ میرے گھر آ کر ملیں میںان کے گھر پہنچ گیا انہوں نے مجھے یو کے میں فون کال ملا کر اپنا فون پکڑا دیا ۔آگے سے ایک شخص بولا کہ میرا نام سلمان کریم ہے اور میں شمیم آرا کا بیٹا ہوں۔ آپ جرنلسٹ ہیں اگر آپ میری آواز ارباب اقتدار تک پہنچا سکیں تو میری درخواست ہے کہ ہمیں حکومت کی کسی قسم کی کوئی مالی امداد نہیں چاہیے اگر حکومت وقت ہماری کوئی مدد کرنا چاہتی ہے تو میری والدہ نے بطور ڈائریکٹر ایک ٹی وی سیریل ’’پرواز‘‘ کے نام سے بنائی ہے اور اس کی بیشتر شوٹنگ یو کے میںکی گئی ہے ۔میر ی خواہش ہے کہ اگر ہماری یہ سیریل پاکستان ٹیلی ویژن خرید لے تو اس طرح نہ صرف ہماری مدد ہو جائے گی بلکہ پی ٹی وی کے ناظرین کو ایک معیاری ٹی وی ڈرامہ بھی دیکھنے کو مل جائے گا۔سلمان کریم نے یہ بھی بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ میری والدہ کی بحیثیت ہدایتکارہ آخری پروڈکشن ہو۔میں نے ان سے وعدہ کر لیا ۔میں فوراً اپنے اخبار کے آفس پہنچا اور اپنے ایڈیٹر امتنان شاہد سے اس مسئلےپر بات کی۔ انہوں نے مدد کاوعدہ کیا ۔اسی رات کے کسی پہر میں ایڈیٹر کا فون آیا انہوں نے بتایاکہ میری وفاقی سیکرٹری انفارمیشن سے بات ہو گئی ہے آپ ان سے رابطہ کر لیں میں اگلے دن صبح اسلام آباد پہنچ گیا۔ جہاں میری ملاقات تیمور عظمت صاحب سے ان کے آفس میںہوئی انہوں نے میرے سامنے اس وقت کے ایم ڈی یوسف بیگ مرزاکو فون کر دیا مجھے ان سے فوری طورپر ملنے کوکہا لیکن جب میںان سے ملا تو انہوں نے کہاکہ اگر آپ کے پاس ڈرامہ کے کچھ پرومو اور اقساط ہیں تو مجھے ابھی دے دیں میں اپنی کمیٹی کو بھجوا دیتا ہوں کیونکہ پرویو کمیٹی کی پروول کے بعد ہی ہم پرائیویٹ پروڈکشنز لیتے ہیں ۔میں ان کے جواب میں مسکرا دیا اوربولا کہ اس کا مطلب آپ کی طرف سے نہ ہی ہے۔میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ میری صحافتی ذمہ داریوںمیں ٹی وی کی سرگرمیوں کی رپورٹنگ کرنا بھی شامل ہے اور مجھے معلوم ہے کہ کس کے کیا اختیارات ہیں۔پروویو کمیٹی کو ڈرامہ بھجوانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ یہ کام نہیں کرنا چاہتے انہوں نے کہا ایسا نہیں ہے میں سسٹم کے ساتھ کام کرتا ہوں۔میں نے ان کو بتایا کہ میں انگلی پر گنا سکتا ہوں کہ کتنے ڈرامے پروویوکمیٹی سے مسترد کیے جاتے ہیں ۔انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ ایک ہفتے کا ٹائم دیں میں آپ کو مثبت جواب دوں گا میںان سے ملنے کے بعد لاہور واپس آ گیا اور آ کر ساری بات اپنے ایڈیٹر کو بتائی انہوں نے مشورہ دیا کہ تم ایک ہفتہ انتظار کر کے دوبارہ ان سے ملنا ۔ایک ہفتے کے بعد میں دوبارہ ایم ڈی پی ٹی وی سے ملنے گیا تو انہوں نے بتایا کہ کمیٹی نے آپ کا ڈرامہ مسترد کر دیا ہے اوروجہ بتائی ہے کہ یہ دو تین سال پہلے شوٹ کیا گیا ہے لہٰذا اب یہ نہیں چل سکتا میں نے مسکراتے ہوئے ان کا جواب سنا اورکہا ایم ڈی صاحب مجھے پتہ ہے کہ آپ کے ڈائریکٹر مارکیٹنگ کس کس پروڈکشن ہائوس کے ساتھ کام کرتے ہیں ۔ آپ جو کہہ رہے ہیں درست ہوگا لیکن شمیم آرا پاکستان کی ممتاز فنکارہ ہیںاور وہ ان دنوں شدید علیل ہیں ممکن ہے کہ آئندہ وہ کبھی کسی فلم یہ ڈرامہ کی پروڈکشن نہ کر سکیں میں آپ سے التماس کرتاہوں کہ آپ شمیم آرا کی بنائی ہوئی یہ ٹی وی ڈرامہ سیریل ایک یاد گار کے طور پر خرید لیں جس سے ان کی مدد بھی ہوجائے گی میں نے انہیں یاد دلایاکہ جناب ایم ڈی صاحب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے شمیم آراکی علالت پر آنے والے تمام اخراجات برداشت کرنے کا حکومتی اعلان کیا تھا لیکن انہوں نے خیرات قبول کرنے کی بجائے اپنا بنایا ہوا ڈرامہ پی ٹی وی کو بیچ کر اپنے علاج و معالجے کا انتظام کرنے کو ترجیح دی میں ایم ڈی پی ٹی وی سے ہونے والی گفتگو سے اندازہ کرچکا تھا کہ یہاں پر ایک مستحق اور عظیم فنکارہ کی داد رسی نہیں ہوگی۔ یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے حکمران اوراعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین ہمارے ملک کے لیجنڈ فنکاروں کے ساتھ ہمیشہ سے ناروا سلوک کرتے ہیں زندگی میں دوران علالت ان کا کوئی پر سان حال نہیں ہوتا اور دنیا سے رخصت ہونے کے بعد چند تعزیتی جملوں پر مبنی بیانات دے کر جان چھڑالیتے ہیں۔


.
تازہ ترین