• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’واشنگٹن پوسٹ ‘‘ اور ’’نیویارک ٹائمز‘‘ امریکہ کے کثیر الا شاعت اور مستند ترین اخبارات ہیں۔ اخبارات بالعموم خبروں کو مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں مگر27دسمبر2011ء کو پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک رپورٹ جو دونوں اخبارات میں شائع ہوئی اس کی سرخی ایک جیسی تھی ۔اس انوکھی خبر کی ہیڈنگ کے الفاظ کچھ یوں تھے:’’امیروں کی حکومت،امیروں کے ذریعے،امیروں کے لیئے‘‘ان الفاظ میں جمہوریت کے اس تصور کا مذاق اُڑایا گیا جس میں کہا جاتا ہے کہ ’’عوام کی حکومت،عوام کے ذریعے،عوام کیلئے‘‘آخر ایسی کیا وجہ تھی کہ امریکہ کے موقرترین اخبارات کو جمہوریت کی متفق علیہ تعریف میں تحریف کرنا پڑی؟دراصل امریکہ کے ایک تحقیقاتی ادارے Centre for responsive politics نے رپورٹ جاری کی ہے کہ سکہ رائج الوقت جمہوریت طبقہ ء امراء کے گھر کی باندی بن کر رہ گئی ہے۔ خبر کے مندرجات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ معاشی بحران کے باجود منتخب عوامی نمائندوں کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ 435رکنی ایوان نمائندگان اور 100رکنی سینیٹ کے نصف سے زائد ارکان کے بنک اکائونٹس میں اب بھی دس لاکھ ڈالر سے زائد کا بیلنس موجود ہے۔ کانگرس کے 535 میں سے 317ارکان کا شمار لکھ پتی امریکیوں میں ہوتا ہے۔ عام امریکی شہریوں کے اثاثہ جات گھٹ رہے ہیں جبکہ قانون سازوں کی دولت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 1984ء میں عام امریکی کے اوسط اثاثہ جات 20600ڈالر تھے جو کم ہو کر 20000ڈالر رہ گئے ہیں جبکہ اس دوران ارکان کانگریس کے اوسط اثاثہ جات دو لاکھ اسی ہزار ڈالر سے بڑھ کر سات لاکھ پچیس ہزار ڈالر ہو گئے۔ 25سال قبل ہر پانچواں قانون ساز ایسا تھا جس کے پاس ماسوائے گھر کے کوئی پراپرٹی نہ تھی مگر اب 12میں سے ایک رکن کانگریس اس فہرست میں شمار ہوتا ہے۔ جب اس رپورٹ کی تیاری کے دوران ارکان کانگریس سے سوال کیا گیا کہ اقتصادی بحران کے دوران ان کے جاننے والوں میں سے کسی کو گھر بیچنا پڑا یا نوکری سے محروم ہونا پڑا تو صرف 18ارکان نے ہاں میں جواب دیا۔ 12ارکان نے کہا،ہمارے جاننے والوں میں تو نہیں البتہ ہمارے جاننے والوں کے جاننے والوں میں ہو سکتا ہے کسی کو یہ دن دیکھنا پڑاہو۔ اس رپورٹ سے معلوم ہوا کہ دس ارکان کانگریس کے پاس فی کس 100ملین ڈالر سے بھی زائد کے اثاثہ جات ہیں۔ اس چشم کشا رپورٹ میں معلوم ہوا کہ امریکی جمہوریت سرمایہ داروں کے ہاتھوں یرغمال ہے چونکہ سینیٹ کا الیکشن جیتنے کے لئے اوسطاً 10ملین ڈالر جبکہ ایوان نمائندگان کا رکن منتخب ہونے کے لئے اوسطاً1.4ملین ڈالر درکار ہوتے ہیں اس لئے سرمایہ داروں سے ہاتھ ملائے بغیر کوئی شخص کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ری پبلکن پارٹی ہو یا ڈیموکریٹس ،ٹکٹ بھی اسے ہی ملتا ہے جو زیادہ سے زیادہ فنڈز جمع کرتا ہے۔2008ء میں اوباما نے جان مکین کے مقابلے میں تین گنا زائد فنڈ جمع کر کے پارٹی کی طرف سے نامزدگی حاصل کی تھی۔ صدارتی انتخابات میں بھی لابنگ فرمیں اور بڑے بڑے سرمایہ دار اپنے امیدواروں پر پیسہ لگاتے ہیں اور پھر اپنی مرضی کی قانون سازی کراتے ہیں۔ اوباما کے گزشتہ صدارتی انتخاب میں پبلسٹی مہم پر 7بلین ڈالر خرچ کئے گئے۔
جمہوریت صرف امریکہ میں ہی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بلکہ کم و بیش ہر ملک میں یہی صورتحال ہے۔ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت جہاں جموریت کے اوصاف بیان کرتے ہوئے میں نے بھی اپنے گزشتہ کالم میں یہ کہا تھا کہ ایک چائے بیچنے والے کا بیٹا وزیراعظم بن گیا،وہاں بھی سیاست پیسے والوں کا مشغلہ بن چکی ہے۔ حالیہ الیکشن کے دوران نریندر مودی کو غریب عوام کے نمائندے کے طور پر پیش کرنے کے لئے بی جے پی نے انتخابی مہم پر 5000کروڑ روپے خرچ کیئے۔ ٹائم میگزین کے مطابق یہ امریکہ کے بعد دنیا کے مہنگے ترین انتخابات تھے جن میں مختلف امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم پر 5بلین ڈالر کے اخراجات کیئے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے لوک سبھا کی نشست پر الیکشن لڑنے والے امیدواروں کے لئے انتخابی اخراجات کی حد 70لاکھ روپے مقرر ہے مگر معروف اخبار ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ہر امیدوار اوسطاً 20کروڑ روپے خرچ کر کے پارلیمنٹ میں پہنچتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہی صورتحال ہے،یا تو سرمایہ دار دھن دولت کے بل بوتے پر خود الیکشن لڑتے ہیں یا پھر پتھارے دار بن کر متوسط طبقے کے کسی فرد پر سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ جب یہ لوگ اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں تو نہ صرف انتخابی اخراجات منافع سمیت وصول کرتے ہیں بلکہ اگلے الیکشن کے لئے بھی پیسہ جمع کرتے ہیں۔ پوری دنیا میں کارپوریٹ ڈیموکریسی ہے لیکن مغربی جمہوریت اور ترقی پذیر ممالک میں نافذ بد ترین جمہوریت میں فرق یہ ہے کہ وہاں جمہوریت کے ہینڈ پمپ پر ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داری کے باوجود سب کو اپنی تشنگی دور کرنے کا موقع ملتا ہے جبکہ یہاں بھارت جیسی سب سے بڑی جمہوریت میں بھی اس کے ثمرات برہمنوں اور سیاسی پنڈتوں تک محدود ہیں۔ میرے گزشتہ کالم پر معروف دانشور سلمان عابد سمیت بہت سے دوستوں نے توجہ دلائی ہے کہ محض انتخابات کا تسلسل کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک جمہوری عمل کو احتساب اور کارکردگی سے مشروط نہ کیا جائے۔ بعض قارئین نے یہ بھی کہا کہ جس طرز حکومت کے بارے میں اقبال نے کہا کہ اس میں افراد کو گنا جاتا ہے تولہ نہیں جاتا ،آپ اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ شاعری کی حد تک یہ بات بہت وزن رکھتی ہے لیکن خود علامہ اقبال کے پاس بھی کوئی ایسا پیمانہ نہیں تھا اور نہ ابھی تک کوئی ایسا ترازو ایجاد کیا جا سکا ہے جس سے افراد کا وزن کیا جا سکے۔ جمہوریت کوئی مثالی طرز حکومت نہیں اور ہمارے ہاں تو جمہوریت کی بدترین شکل رائج ہے تو پھر اس کی تائید و حمایت کیوں کی جائے؟ اگر سر ونسٹن چرچل کے الفاظ مستعار لوں تو جمہوریت بدترین نظام حکومت ہے لیکن اب تک تو جو نظام آزمائے جا چکے ہیں ،ان سب میں سے بہتر ہے۔ جارج برنارڈ شاہ نے کہا تھا جمہوریت ایک ایسا طرز حکومت ہے جس کے تحت ہمیں ویسے ہی حکمران ملتے ہیں جس کے ہم مستحق ہوتے ہیں اگر انقلاب کے خواب کی تعبیر درکار ہے یا تبدیلی کی تمنا ہے تو اس کا آغاز خود اپنے آپ سے کرنا ہوگا۔ سیاستدانوں کے احتساب کے لئے تو ہر طرف کٹہرے ہیں،کہیں ریاستی قوانین کے تحت مقدمے ،کہیں میڈیا کی عدالتیں تو کہیں عوام کی عدالت جہاں سب کو کڑی سزا ملتی ہے۔ مسلم لیگ (ق) ہو،پیپلز پارٹی یا پھر اے این پی سب نے گزشتہ الیکشن میں اپنے کئے کی سزا پائی۔ احتساب کا رُخ اب کٹھ پتلیوں کی درپرہ ڈوریں ہلانے والوں کی طرف ہونا چاہئے ۔۔ جمہوریت کی کارکردگی اور احتساب کا مرحلہ بھی آئے گامگر فی الحال تو ہمیں صرف تسلسل اور استحکام کی ضرورت ہے،جمہوریت کے ہینڈ پمپ سے کس کی تشنگی دور ہوتی ہے اور کون پیاسا رہ جاتا ہے ،اس سوال کی نوبت تو تب آئے گی جب اس ہینڈ پمپ سے صاف پانی آنے لگے گا۔ امریکی سیاستدان اور دانشور الفریڈ ای سمتھ سے کسی نے پوچھا جمہوریت کی بیماریوں کا علاج کیا ہے۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا،مزید جمہوریت۔ ہمارے ہاں بھی جمہوریت کی تمام ترخامیوں کا حل مزید جمہوریت ہی ہے۔
تازہ ترین