• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وارث شاہ نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’ہیر‘‘ 1766میں مکمل کی ۔ اپنی شعری تخلیق کے آخر میں انہوں نے اس وقت کے پنجاب میں پھیلی ہوئی طوائف الملوکی کا انتہائی دردمندی سے اظہار کرتے ہوئے لکھا:
جدوں دیس تے جٹ سردار ہوئے
گھرو گھری جاں نویں سرکار ہوئی
(جب ملک پر جاٹوں کی سرداری ہوگئی، اور گھر گھر میں نئی حکومت بن گئی‘‘
یہ وہ زمانہ تھا جب پنجاب میں مغلیہ سلطنت ختم ہو رہی تھی، سکھ مت ابھررہا تھا اور سکھ جٹ سرداروں نے پنجاب کو چھوٹی چھوٹی راجدھانیوں میں تقسیم کرلیا تھا جن کو مثلیں کہا جاتا تھا۔ سکھ مثلیں زیادہ تر وسطی اور مشرقی پنجاب تک محدود تھیں۔ پھر پنجاب میں مضبوط حکومت تب قائم ہوئی جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 1799میں لاہور پر قبضہ کرکے ایک مضبوط سلطنت کی بنیاد رکھی۔ یہ سلطنت رنجیت سنگھ کی زندگی ختم ہونے کے ساتھ 1739میں ختم ہو گئی۔ پھر دس سال تک دوبارہ طوائف الملوکی کا دوردورہ رہا جو انگریزوں نے 1849میں پنجاب کو فتح کرنے کے بعد ختم کیا۔
متذکرہ وسطی پنجاب سے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ یہ علاقہ زمانہ قدیم سے مختلف تحریکوں کا گڑھ رہا ہے۔ یہ تحریکیں کامیاب نہ بھی ہوں تو بھی یہ مستقبل میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں کی پیش رو ہوتی ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستانی عوامی تحریک کا اسلام آباد میں دیا جانے والا دھرنا کامیاب نہ ہو لیکن تاریخ کو سامنے رکھ کر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے اور پاکستان کی حکمرانی کے اندازبنیادی طور پر تبدیل ہوں گے۔
ویسے تو متحدہ پنجاب میں جلیانوالہ باغ کا واقعہ بھی اسی علاقے (امرتسر ) میں ہواتھا لیکن موجودہ پاکستان میں یہی علاقہ بنیادی تبدیلیوں کی آماجگاہ رہا ہے۔ جنرل ایوب خان کے خلاف طالب علم تحریک اسی علاقے سے شروع ہوئی تھی جب راولپنڈی میں طلباء کو شہید کردیا گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی کی بھی سب سے پہلے اسی علاقے سے جیت ہوئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے روٹی کپڑا مکان اور ہندوستان کے خلاف نعروں نے اسی علاقے کے عوام کو مسحور کیا تھا۔ 1970کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے خانیوال سے لے کر راولپنڈی تک اپنے مخالفین کا صفایا کردیا تھا۔ عملی طور پر ذوالفقار علی بھٹو وسطی پنجاب کا لیڈر تھا کیونکہ اس کا ہندوستان کے ساتھ سخت رویہ اسی علاقے کے لوگوں کے جذبات کا عکاس تھا۔1977 میں بھٹو کے خلاف ردانقلاب کے عمل میں بھی اس علاقے نے اہم کردارادا کیا اگرچہ پاکستان قومی اتحاد کی تحریک زیادہ وسیع ترتھی اور اس کے رہنماؤں میں بھی دوسرے علاقوں کے نامور لوگ شامل تھے۔ ماضی قریب میں بڑی تحریک آزاد عدلیہ کی بحالی کے لئے اٹھی تھی جس کا مرکز یہی علاقہ تھا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس علاقے سے اصلاحی اور انارکسٹ تحریکیں کیوں جنم لیتی ہیں یا لے رہی ہیں۔ اس کی شاید سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس علاقے میں روایتی جاگیرداری کنٹرول نہیں رہاہے۔ زیادہ ترآبادی چھوٹے کسانوں اور درمیانے طبقات پر مشتمل رہی ہے ۔ یہ آبادی مقامی طور پر بلا کسی روک ٹوک کے سیاسی عمل میں شامل ہوسکتی ہے۔ گلوبلائزیشن اور شہروں کی طرف نقل مکانی نے ایک بہت بڑا نچلا درمیانہ طبقہ پیدا کیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پنجاب کے ستر فیصد علاقے میں کسی نہ کسی طرح عوام کو شہری سہولتیں میسر ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وسطی پنجاب کے ستر فیصد علاقے پرانے دیہی نظام کی بجائے شہری طرز زندگی اپنائے ہوئے ہیں۔
وسطی پنجاب میں یہ تبدیلی بہت تیزی سے آئی ہے۔ پچھلے چالیس سالوں میں پرانا دیہی نظام ختم ہو گیا ہے ۔ ہل، بیل، اور تانگے کی جگہ ٹریکٹروں اور موٹرگاڑیوں نے لی ہے۔ اس سے بالکل نئے طبقات پیدا ہوچکے ہیں جن کے زندگی کے تقاضے بدل چکے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ریاست اور اس کے مختلف ادارے طرز کہن کے اسیر ہیں۔ پولیس کو ہی لے لیجئے،اس میں نچلی سطح پر زیادہ بھرتی پس ماندہ دیہی علاقوں سے ہوتی ہے۔ یہ پولیس بدلتے ہوئے معاشرے کے ساتھ چل نہیں سکتی۔ یہی حال ملکی انتظامیہ کے دوسرے حصوں کا ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ سیاسی بحران عوام کی نئی امنگوں کا اظہار ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک عوام کی خواہشوں کی عکاس ہیں لیکن ان دونوں پارٹیوں کے اقدامات انارکسٹ رجحانات کے حامل ہیں۔ انارکسٹ کا ڈکشنری میں مطلب ہے کہ ہر وہ شخص یا تحریک انارکسٹ ہے جو موجود ہ نظام کا تختہ تو الٹنا چاہے لیکن کسی متبادل نظام کے نفاذ کا نقشہ پیش نہ کرے۔ ویسے بڑے بڑے انارکسٹوں کی تحریکیںخود تو کچھ حاصل نہیں کرسکیں لیکن دوسری بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ضرور ثابت ہوئی ہیں۔ دھرنا دینے والی دونوں پارٹیوں کی رہنمائی روایتی اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے جس کا مقصد ہر قیمت پر طاقت کا حصول ہے۔
پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کا کوئی مثبت نتیجہ نکلتا نظر نہیں آرہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی تمام پارلیمانی پارٹیاں ان کے مطالبات کو غیر آئینی اور غیر قانونی تصور کرتی ہیں ۔ ملک کی اہم پیشہ ور تنظیمیں بھی ان کے خلاف صف آراء ہوگئی ہیں۔ وکلاء کی ہڑتال اور صحافیوں کے مظاہرے ان دونوں پارٹیوں کے لائحہ عمل کی سخت مخالفت کی آئینہ دارہیں۔ اس پہلو سے دھرنہ دینے والے تنہائی کا شکارہو چکے ہیں کیونکہ عوامی تاثر یہ ہے کہ یہ فوج کو دعوت دے رہے ہیں۔ دانشورحلقوں میں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ لنگڑی لوڑی جمہوریت ڈکٹیٹر شپ سے بہترہوتی ہے۔
جمہوری عمل کے بحران کا شکار ہونے کی سب سے بڑی وجہ حکمراں پارٹی کا انداز حکمرانی بھی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے جمہوریت کے بنیادی ادارے یعنی پارلیمنٹ سے بے اعتنائی کا سلوک کیا۔ انہوں نے صرف نوکر شاہی کی مدد سے حکومت کو چلایا۔ نواز شریف کا عوام کے ساتھ رابطہ بھی نہ ہونے کے برابر رہا وہ پورے چودہ مہینے مختلف میگا پروجیکٹوں کے فیتے کاٹنے کے علاوہ عوامی سطح پر غیر فعال رہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے اپنے خاندان اور قریبی حلقوں کو ہی اہم ذمہ داریاں سونپیں ۔ان سے جائز طور پران کے خلاف اقرباء پروری کا الزام لگا۔
قطع نظر حکومتی کمزوریوں کے اس وقت سب سے زیادہ ذمہ داری بالغ سیاسی پارٹیوں کی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کا فرض ہے کہ وہ ہر قیمت پر موجودہ جمہوری نظام کو پٹری سے اترنے نہ دیں۔ فوج کا یہ فرض ہے کہ وہ منتخب جمہوری حکومت کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مارشل لانافذ نہ کرے۔ بلکہ امن و امان قائم رکھنے کے لئے حکومت کی ہر طرح سے مدد کرے۔ اسے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اگر اس نے انارکسٹوں کی پیدا کی ہوئی بد امنی کا فائدہ اٹھایا تو آخر کار پوری ریاست انارکی کا شکارہو جائے گی۔ شاید ایسا فوراً نہ ہو لیکن چند سال میں ایسی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے کہ ریاست کاوجود واقعی خطرے میں پڑ جائے۔
تازہ ترین