• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قطع نظر اس بات کے کہ دھرنوں کی نوبت کیوں آئی، کون حق پر ہے اور کس کا رویہ غلط ۔ اب ملک و قوم کا مفاد اسی میں ہے کہ تمام مسائل کو مل بیٹھ کر باہمی بات چیت سے حل کیا جائے کہ جمہوریت میں تمام راستے ’’مکالمہ‘‘ کی طرف ہی جاتے ہیں۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کہا کرتے تھے کہ جب ہم نے انگریز حکومت سے آزادی کے حصول کے لئے مذاکرات کئے تو اپنوں سے بات چیت میں کیا حرج ہے اور یہ درست بھی ہے کہ پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کو اس وقت کی حکومت نے آہنی ہاتھ سے کچلنے کی کوشش کی۔ 9؍ اپریل 1977ء کو قومی اتحاد کی جانب سے اسمبلیوں کا بائیکاٹ کیا گیا اور احتجاجی جلوس نکالے گئے جن کو حکومت وقت نے پولیس اور رینجرز کے ذریعے روکنے کی کوشش کی۔ لاہور میں جلوس پر گولی چلائی گئی اور عورتوں پر لاٹھی چارج کرنے کے لئے ’’نتھ فورس‘‘ استعمال کی گئی۔ بہت سے کارکن ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ ان میں نوابزادہ صاحب بھی شامل تھے اس روز کا اہم ترین واقعہ یہ تھا کہ پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ایک رکن چوہدری اعتزاز احسن نے جبر و تشدد کے خلاف استعفیٰ دے دیا۔ قومی اتحاد کی تمام قیادت گرفتار کر لی گئی۔ ان پر جیل میں بھی تشدد کیا گیا اس کے باوجود جب ذوالفقار علی بھٹو نے مذاکرات کی دعوت دی تو قومی اتحاد نے اسے مسترد نہیں کیا اور یہ ’’کامیاب مذاکرات‘‘ کا ہی نتیجہ تھا کہ وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ واپس لے لیا گیا۔ دوبارہ انتخابات اور دوسرے مطالبات پر اتفاق ہو گیا لیکن معاہدہ پر دستخط ہونے سے پہلے ہی فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ معاہدہ پر دستخط میں تاخیر کیوں کی گئی اس بارے میں ابھی تک کوئی مستند بات سامنے نہیں آئی۔ حفیظ پیرزادہ حیات ہیں بہتر ہو گا کہ وہ اس راز سے پردہ اٹھا دیں۔
اب بھی صورتحال اسلام آباد میں دھرنے تک آ گئی ہے جو گزشتہ دس روز سے جاری ہے تاہم بامقصد مذاکرات کرنے کے بجائے ایسا لگتا ہے کہ تاخیری حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ قانون کو حرکت میں لانے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ سینٹ اور قومی اسمبلی میں قرارداد منظور کی گئی ہے کہ آئین و قانون، جمہوریت کی پاسداری کی جائے گی جبکہ علامہ طاہر القادری اور عمران خان کا اصرار ہے کہ ان کے دھرنے اور مطالبات آئین و قانون کے مطابق ہیں۔ ان کی جانب سے وزیر اعظم کے استعفے اور سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ حکومت نے مذاکرات کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور پیپلز پارٹی سمیت تمام جماعتیں مذاکرات پر متفق ہیں۔ اس بات پر اصرار کہ استعفے کا مطالبہ آئین و قانون کے مطابق نہیں ، یہ دلیل وزنی تو ہے لیکن درست یوں نہیں کہ ماضی میں وزرائے اعظم کے استعفوں کے مطالبے اور نئے الیکشن کی بات ہوتی رہی ہے۔ منتخب وزیر اعظم نواز شریف کو ہی نہیں صدر مملکت، چاروں صوبوں کے گورنر اور وزراء اعلیٰ سے بھی استعفے لئے گئے۔ محترمہ بی بی شہید نے وزیر اعظم کے استعفے اور دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کیا اور ایسا ہی مطالبہ میاں نواز شریف کی جانب سے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے کیا گیا لیکن اسے جواز بنانا درست نہیں ہو گا کیونکہ موجودہ حالات میں اپوزیشن کی بیشتر جماعتیں اس مطالبے کے حق میں نہیں ہیں۔ تاہم ضرورت ہے کہ عمران خان کے 6 نکات اور علامہ طاہر القادری کے 10نکات پر بات کی جائے اور سانحہ ماڈل ٹائون کی نہ صرف ایف آئی آر درج کی جائے بلکہ ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے خواجہ سعد رفیق نے علامہ طاہر القادری سے ملاقات کر کے اس سانحے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور اس حوالے سے تمام قانونی کارروائی کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یہ درست ہے کہ دھرنوں پر دہشت گردی کا خطرہ ہے کیونکہ انہیں اس سے بہتر موقع نہیں مل سکتا۔ دونوں دھرنوں میں خواتین کے علاوہ معصوم بچوں کی بڑی تعداد بھی موجود ہے اور ان کے جان و مال کا تحفظ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ سب سے اہم یہ کہ ان دھرنوں کے حوالے سے طرح طرح کی افواہیں جنم لے رہی ہیں اور ’’تیسری طاقت‘‘ کی جانب سے مداخلت کی بھی بات کی جا رہی ہے جبکہ ایسا کچھ واضح طور پر نظر نہیں آ رہا۔ لیکن حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دھرنوں کو ختم کرانے کے لئے جلد اور فوری نہ صرف بامقصد مذاکرات کرے بلکہ اسے کامیاب بھی کروائے۔ سابق صدر زرداری نے ہفتہ کو لاہور میں وزیر اعظم نواز شریف، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور چوہدری برادران سے ملاقاتیں کیں۔ چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی خصوصی طور پر ان سے ملنے اسلام آباد سے لاہور آئے تھے۔ اس طرح آصف زرداری کو حکومت اور اپوزیشن کا موقف سننے کا موقع ملا۔ ان کا یہ کہنا درست ہے کہ مسئلہ کا حل ڈائیلاگ، ڈائیلاگ اور صرف ڈائیلاگ ہیں اور امید کا اظہار کیا کہ بامقصد مذاکرات کئے جائیں تو ضرور حل نکل آئے گا۔ اس حوالے سے حکومتی پارٹی کو آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا چاہئے۔ ایسی باتوں سے دونوں جانب سے گریز کرنا چاہئے جس سے تصادم کی فضا پیدا ہو یا کوئی اور اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ اس طرح نہ صرف جمہوری اداروں کو نقصان ہو گا بلکہ جمہوریت کا پہیہ جام ہو جائے گا۔یہ بھی ضروری ہے کہ دونوں جانب سے تقاریر میں احتیاط کی جائے اور ایک دوسرے کے خلاف ایسی زبان استعمال نہ کی جائے جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو۔ یہ کہہ کر کہ فلاں لیڈر نے فلاں کے خلاف ایسی زبان استعمال کی ہے کسی کو گالی دینے کا جواز پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی عمران خان جیسے لیڈر اور علامہ طاہر القادری جیسے عالم دین سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے۔ عوام یہی چاہتے ہیں کہ جو بات درست ہے اس کا ادراک کر کے مسئلے کو بغیر کسی پسند ناپسند کے حل کیا جائے کیونکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی سربلندی اور تحفظ ہم سب کو فرض ہے اور افراد کو اس پر فوقیت نہیں دی جا سکتی۔
تازہ ترین