• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تو یہ ہوگا نیا پاکستان، عمران خان جس کی وعید سنا رہے ہیں، مسلسل، تکرار کے ساتھ، او ربحران کو طویل سے طویل ترکئے جا رہے ہیں۔ دو ہفتے ہونے کو آئے، معاملات حل ہی نہیں ہو پارہے، ہو بھی نہیں سکتے شاید۔ مطالبات غیر منطقی ہیں، یا انہیں ٹھیک سے ترتیب نہیںدیا گیا۔ اور وہ جو جنگ کی ایک بنیادی ضرورت ہوتی ہے، واپسی کا پلان، اب بہت واضح ہو گیا، وہ تو موجود ہی نہیں ہے۔ اس پر کبھی شاید غور ہی نہیں کیا گیا۔ افسوس بھی ہوتا ہے اور دکھ بھی۔ عمران خان کے پاس سوچ سمجھ رکھنے والے سیاسی قائدین کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے، ان کو اہمیت دی جاتی تو معاملات کبھی کے حل ہو چکے ہوتے۔ جاوید ہاشمی ایک بہت سمجھدار آدمی ہیں، ان کی عمر سیاست کے دشت کی سیاحی میں گزری ہے۔ طالب ِ علمی کے زمانے سے لے کر مسلم لیگ (ن) اور اب تحریک ِ انصاف تک ان کا ایک طویل تجربہ ہے۔ بھٹو کا دورہو یا پرویز مشرف کی آمریت، انہوں نے ہمیشہ جرأت کا مظاہرہ کیا، اور اس کی پاداش میں ملنے والی سزاؤں کو پوری بہادری، حوصلے اورصبر کے ساتھ برداشت کیا۔ ان کی بات شاید عمران خان نے ٹھیک سے سنی نہیں۔ سنتے تو ان کی صائب رائے پر عمل سے خان ایک بہتر حکمت ِعملی اپناتے۔ اور بھی ہیں جو معاملات کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں، شاہ محمود قریشی اہم عہدوں پررہے ہیں، جہانگیر ترین کاروباری سوجھ بوجھ کے ساتھ سیاست میں بھی مہارت رکھتے ہیں، اسد عمر کو تو بڑی کمپنیاں چلانے اور سنبھالنے کا تجربہ ہے۔ عارف علو ی کی بھی کئی سیاسی جماعتوں سے قربت رہی ہے۔ ان سب سے بات چیت، عمران خان اگر کرتے، ان کی رائے کو اہمیت دیتے تو آج ملک اس بحران سے دو چار نہ ہو رہا ہوتا جس میں وہ اسے دھکیل چکے ہیں۔ اب تو انہیں بھی اندازہ نہیں کہ واپسی کا راستہ کونسا ہے اور کدھر ہے۔ جو ایک راستہ نظر آتا ہے، اس میں بہت خون خرابہ ہے، اور ملک کا بہت نقصان۔ سمجھدار اور مدبّر سیاستدان ملکی مفادکو ہمیشہ ترجیح دیتے ہیں۔
عمران خان نے انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کیا، بالکل درست کیا۔ اس سے کسی کو اختلاف نہیں ہے، نہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں، بوجوہ، انتخابات کوشفاف رکھنے کی طرف مطلوبہ توجہ نہیں دی جاسکی، یوں ضروری اصلاحات بھی نہیں ہو سکیں۔ انتخابات کے پورے نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ بلا شبہ اس میں بڑی خامیاں ہیں۔ مردُم شماری سے رائے دہندگان کے اندراج تک، اور حلقہ بندیوں سے ووٹنگ تک، ہر سطح پر خرابیوں کی حو صلہ افزائی کی جاتی رہی ہے، اس کے امکان بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ انہیں بہتر کرنے کی کوئی کوشش کبھی نہیں کی گئی، ہاں خراب ضرور کیا گیا۔ پرویز مشرف اور ضیاء الحق کے ریفرنڈم میں پچانوے فیصد ووٹ انہی خرابیوں کی وجہ سے ڈلوائے جا سکے۔ اب تو خیر کئی عشروں سے مردُم شماری نہیں ہوئی، مگر جب ہوئی ہے، کم ہی لوگوں کو علم ہوگا، اس میں بڑی دھاندلی کی جاتی رہی ہے۔ تجربہ اور مشاہدہ کی بنیاد پر پورے اعتماد سے کہا جا سکتا ہے کہ جن کے ہاتھ میں اختیار ہوتا ہے، شمار کنندگان سے لے کر بہت اوپر تک، ہر سطح پر، اعداد و شمار میں گڑ بڑ کی جاتی ہے۔ انہیں اعداد و شمار کی بنیاد پر نشستوں کا تعین ہوتا ہے اور پھر حلقہ بندیاں۔ جہاں مردُم شماری ہی درست نہ ہو، وہاں اس کی بنیاد پر ہونے والا کونسا کام درست ہوگا، یہ اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ کام یہاں سے شروع ہوگا تو بات بنے گی۔ بعد کے مراحل بھی عیب سے پاک نہیں رہنے دیئے جاتے، خواہ رائے دہندگان کا اندراج ہو یا حلقہ بندیاں، سب میں متعلقہ لوگ اور سیاسی جماعتیں، اپنے مفادات کو اہمیت دیتی ہیں۔ یہ معلوم کرنے کے لئے کہ کس حلقے میں کس کا مفاد مد نظر رکھا گیا، کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ کسی بھی ایک حلقہ پہ ایک نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہاں کیا گڑبڑ کی گئی ہے۔ دوسرے تما م مراحل میں، ووٹنگ سے لے کر حتمی گنتی تک، کئی طرح کی دھاندلیاں کی جاتی ہیں۔ ان سب کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، پورے اخلاص کے ساتھ۔
یہاں تک تو انتخابی اصلاحات کی ضرورت سب ہی محسوس کرتے ہیں۔ مگر اس سے آگے عمران خان نے جو مطالبات کئے ہیں ان میں منطقی ربط کی کمی ہے اور ترجیح بھی درست نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ انہوں نے جذبات میں، یانواز شریف دشمنی میں، مطالبات پیش کردیئے اور ان کے نتائج پر غور نہیں کیا۔ ان کا پہلا مطالبہ وزیراعظم کا استعفیٰ ہے۔ اس سے قطع نظر کہ چند ہزار کے ہجوم کوکتنا اختیار دیا جا سکتا ہے اور کیوں، اگر وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ تسلیم کر لیا جائے تو عمران کے باقی مطالبات پر عمل درآمد مشکل ہی نہیں، نا ممکن نظر آتا ہے۔ وزیراعظم کے استعفے کی صورت میں اسمبلی کیسے ختم کی جا سکتی ہے؟ آئین میں تو ایسا کوئی طریقہ موجود نہیںہے۔ وزیراعظم، صدر کو قومی اسمبلی توڑنے کا مشورہ دے سکتے ہیں، جو 48گھنٹوں میں ختم ہو جائے گی۔وزیراعظم نہ ہو تو یہ مشورہ کون دے گا؟ یہ عمران خان نے نہیں سوچا۔ باقی کے معاملات میں بھی ایسے ہی سقم ہے۔ نگران حکومت، وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کی باہمی مشاورت سے تشکیل دی جائے گی۔ یہ دونوں نہیں ہونگے تو مشاورت کیسے ہوگی اور اس کی آئینی حیثیت کیا ہوگی؟ یہ سوچنا چاہئے تھا خان کو۔ اسی طرح الیکشن کمیشن کی تشکیل کا معاملہ ہے۔ موجودہ الیکشن کمشنروں کی بر طرفی آئین میں ترمیم کئے بغیر ممکن نہیں ۔ یہ ترمیم کون کرے گا؟ کیسے ہوگی؟ خان کوئی رہنمائی کر سکتے ہیں؟ اس کے بعدچیف الیکشن کمشنر کے تقرر کا معاملہ ہے۔ آئینی تقاضہ ہے کہ وزیراعظم اور قائد حزبِ اختلاف باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کریں۔ نگران حکومت میں تو یہ دونوں نہیں ہوں گے ، پھر یہ کیسے ہوگا؟ عمران خان نے، لگتا ہے، سوچے سمجھے بغیر مطالبات پیش کردیئے اور اب ان کے پاس واپسی کا کوئی راستہ نظرنہیںآتا۔ انہوں نے شاید اس پر بھی غور نہیں کیا۔ بلا خوفِ تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب تک انہوں نے ایک اچھا قائد ہونے کا ایک بھی ثبوت نہیں دیا۔ سیاسی قائد ہو یا فوج کا جنرل، واپسی کا پلان پہلے بناتا ہے، اور وہی اسے فتح سے ہمکنار کرتا ہے۔ خان کے پاس ایسا کوئی پلان نہیں ہے۔ انہوں نے خود کو اور قوم کو ایک شدید بحران میں مبتلا تو کردیا ، مگر اب یہ پتہ نہیں کہ اس سے نکلیں کیسے۔
اور یہ کہ نیا پاکستان کیسا ہوگا، اس کی کچھ جھلک تو روزانہ صبح سے شام تک ٹی وی چینلوں پر نظر آہی جاتی ہے، بہت سی باتیں ، جو ناگفتہ بہ ہیں، ہونٹوں سے نکل رہی ہیں اور کوٹھوں چڑھ رہی ہیں۔ اس ملک کی اکثریت ایسے پاکستان کی خواہاں نہیں ہے جس کا مظاہرہ عمّی کے حامی اسلام آباد میں روزانہ کرتے ہیں ۔ یہ ’’نیا‘‘ پاکستان قائدِ اعظم کے تصورات والا پاکستان ہے نہ اس کے لئے لاکھوں جانوں کی قربانی دی گئی تھی۔
اور وہ جو گلو بٹ ہیں، وہ تو خان صاحب آپ کی صفوں میں در آئے ہیں۔ پچھلے چند دنوں میں آپ کے حامیوں نے جتنے صحافیوں اور کیمرہ پرسنز کو مارا ہے، اور جس بری طرح ، آپ نے شاید دیکھا ہو ٹی وی پر، اس کی مثالیں ماضی میں کم ہی ملتی ہیں۔ انہوں نے تو آپ کی بھی نہیں سنی ، یا آپ نے عوام کے سامنے کچھ اور کہا ، اند رخانہ کچھ اور۔ اگر ایسا نہیں ہے تو اب تک آپ نے اپنے ان غنڈہ عناصر کے خلاف کیا کارروائی کی؟ ویسے توآپ انصاف انصاف، احتساب احتساب کا بہت شور مچاتے ہیں، صحافیوں کو مارنے والے ان غنڈوں کے خلاف آپ نے کیا کیا اب تک؟ یہ ایک صحافی کا سوال ہے اور وہ آپ سے جواب چاہتا ہے۔
اور خان، کافی وقت گزر گیا آپ کو سیاست کرتے، اب تو بلوغت کا ثبوت دیں، سیاسی بلوغت کا ۔ اپنے ساتھیوں پر اعتماد کرنا سیکھیں، اور جو آپ سے زیادہ تجربے کا رہیں ان کے تجربات سے، ان کے مشوروں سے فائدہ اٹھائیں۔ لوگوں نے آپ سے بڑی امیدیں باندھی تھیں، انہیں خدشہ ہے، ایک اور لیڈر ضائع ہو رہا ہے، اپنی انا کے ہاتھوں، اپنی ضد کے ہاتھوں۔
تازہ ترین