• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے اختتام ہفتہ ریاست کینٹکی کے بڑے اور امریکہ کے چھوٹے شہر (چھوٹے شہروں یا اسمال ٹائون امریکہ کی بھی عجب خوبصورتی ہے قطع نظر اسکے کہ مجھ جیسا شخص اپنے دوستوں سے کہتا ہے کہ امریکہ کا مطلب ہی ہے نیویارک) لوئی ول کے دوستوں کی محبت کھینچ لائی جنہوں نے آپکی نامی تنظیم کی طرف سے ایک مشاعرے میں مجھے شعر پڑھنے کو مدعو کیا ہوا تھا۔ وہ بھی امجد اسلام امجد، اور انور مسعود جیسے بہت بڑے شاعروں کے سامنے۔ میں نظم کا ادنی سا شاعر اور کہاں مشاعرے بازی۔کینٹکی ریاست کا نام شاید آپ کیلئے مانوس ہو کہ یہاں ایک مشہورفرائڈ چکن ( جو کہ حلال میں بھی آتا ہے) کے بانی کرنل کا گھر ہے جس نے اپنا یہ کاروبار یہیں سے شروع کیا تھا۔ اس کے علاوہ لوئی ول عظیم امریکی باکسر اور انسان محمد علی کلے کا شہر بھی ہے۔ کہتے ہیں کہ امریکی صدر ابراہام لنکن کی جائے پیدائش بھی کینٹکی ریاست تھی جہاں سے پھر وہ نقل مکانی کر کے الینوائے چلے گئے۔ یہی صدر لنکن تھے جنہوں نے امریکہ میں غلامی ختم کی۔ دریائے اوہایو کے کنارے اور جنگلوں درختوں میں گھرے اس شہر کے کئی راستے گزشتہ اتوار کو بند تھے۔ سیل کردئیے گئے تھے۔ راستے بند تھے پولیس نے اپنی نیلی لال بتی والی گاڑیاں کھڑی کر رکھی تھیں جو رکاوٹوں تک آنیوالے لوگوں کو نہایت ہی شائستگی سے متبادل راستوں سے جانے یا راستے کھلنے کا انتظار کرنے کو کہہ رہے تھے۔ کیا یہاں بھی کوئی دھرنا ہو رہا تھا؟ یا کوئی انقلاب آ رہا تھا؟ میں نے سوچا۔نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ اسی اتوار کو لوئی ویل جو کہ گھوڑوں کی ڈربی تھی( کہ یہاں ڈربی میںکئی ملکوں کے ولی عہدوں و حکمرانوں کے بھی گھوڑے دوڑتے ہیں)میں نے پہلی بار اپنے دوست افتی نسیم کے دوست پریم کو اپنے اپارٹمنٹ پر ٹی وی سیٹ پر لوئی ول ڈربی دیکھتے ہوئےشرطیں لگاتے دیکھا تھا۔ پریم کو لوئی ول ڈربی پر شرط لگانےپر بڑی خفت تھی۔ خیر)۔ اور بائیسکل دوڑ کے حوالے سے مشہور ہے وہاں کے ان بند راستوں پر بائیسکل دوڑ ہو رہی تھی اور پولیس نے سائیکل سواروں کی سلامتی کیلئے ان کے راستوں پرہر قسم کی گاڑیوں کی آمدرفت بند کر رکھی تھی۔
میں نے سوچا اسلام آباد کے غریب اور ملازمت پیشہ سیکٹروں والوں کا انقلابیوں اور آزادی کے متوالوں نے جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ اسلام آباد کے ان اصلی باسیوں کے بچوں کو دودھ تو درکنارلوگوں کو منہ دھونے و دیگر ضروری حاجات کیلئے بھی پانی تک میسر نہیں۔ بنی گالا کے اونچے پہاڑوں پر کئی کنال کی کوٹھیوں میں رہنے والے لیڈر اسلام آباد کے غریب شہر کی ایسی درگت بنا سکتے ہیں تو باقی ملک کے غریبوں کے لئے کونسی دودھ وشہد کی نہریں نکالیں گے۔ علامہ ایڈولف نے تو فرما ہی دیا کہ وہ یہاں بقول ان کے شہداء کا قبرستان بنانے آئے ہیں۔ شاید یہ خود کو خمینی سجھ رہے ہیں اسلام آبادکو شاہ کے دنوں کا تہران۔ ویسے یہ سیاستدانوں کی ایک نسل ہے جس نے انیس سو اٹھہتر میں ٹی وی پر شاہ ایران کے خاتمے پر پیرس سے خمینی کی واپسی کے امیجز دیکھ کر ایک دن ان کی طرح اپنے ملکوں کو واپس ہونے کو سوچا تھا۔ لیکن اس دور میں صرف غیر متشددانہ واپسی اور نیم انقلاب اگر لا سکے تھے تو دنیا کے دو لیڈر بہرحال لانے میں اس طرح کامیاب گئے تھے کہ انہوں نے اپنے اپنے دسیوں لاکھوں لوگوں کو اپنے ملکوں کے بڑے شہروں کے راستوں پر انتہاہی متحرک کرنے اور نکال کر لے آنے میں کامیاب ہوگئے تھے وہ دو رہنما اتفاق سے خواتین ہی تھیں اور وہ تھیں فلپائن کی کوری اکینو اور پاکستان کی بےنظیر بھٹو۔
لیکن پہلوان بھلا پاپولر لیڈروں کو کہاں اور کتنا برداشت کرتے ہیں! جب بی بی آخری بار تیس لاکھ لوگ اپنے استقبال کو سڑکوں پر لے آئیں تو پہلے ان کو منتشر کرنے کو خود کش بم دھماکے کئےگئے اور پھر پنڈی میں اس ہرنی کو قتل۔ نیروئوں کے دیس میں بنسری صرف نیرو بجا سکتے ہیں وہ بھی دیس کو آگ لگا کر۔ آگ بجھانے والا قتل کردیا جاتا ہے۔لیکن میں تمہیں بتائوں کہ یہاں ہزاروں میل پر بھی امریکی جنوب مغرب میں واقع لوئی ول شہر میں رہنے والے پاکستانیوں کوجو کچھ بھی وطن عزیز میں ہورہا تھا اس کی بڑی فکر کھائے جارہی تھی۔ دریائے اوہائیو کے کنارے بنائی ہوئی اس بیٹھک کو جس کا نام لکڑی کی تختی پر انہوں نے ’’چوپال‘‘ رکھا ہوا ہے اور ان بند راستوں سے گزر کر میں اور میرا پرانا اور پیارا دوست فرید بھٹو وہیں جارہے تھے۔ پاکستانی امریکی اور ہمارے دوست ڈاکٹر بابر چیمہ اور دیگر دوست و احباب غیر رسمی طورپر اکٹھے ہوئے تھے اس پر غور کرنے کے جو کچھ اصلی آبائی وطنوں میں ہو رہا ہے ،کیا ہو رہا ہے۔ بقول میرے دوست جیدی کے کہ ’کجھ وطناں دی گل سائنیں ڈسکیویں گھر گھر لگیاں باہیں ڈس۔ یہیں میری ملاقات سرگودھا کے پرانے اور آج تک جیالے اور سینئر وکیل جمیل اختر سے ہوئی۔ جمیل اختر نے جمہوریت کیلئے بڑی جیلیں کاٹی ہوئی ہیں۔ وہ پنجاب کی سیاسی تاریخ پر چلتی پھرتا ڈیٹا بنک ہیں۔ مجھے فیصل آباد کے جیالے رہنما نیر حسین ڈار یاد آئے۔
لوئی ول شہر میں پاکستانیوں کے پانچ سو گھرانے آباد ہیں اور ان میں سے نوے فیصد ڈاکٹر ہیں۔ مرد ہوں کہ خواتین۔ اسی لئے میں لوئی ول کو امریکہ میں پاکستانیوں کا ڈاکٹر آباد کہتا ہوں۔ لیکن یہ وہ ڈاکٹر بھی نہیں جنھیں میرے دوست اور سندھ کے یگانہ روزگار شاعر، صحافی اور ڈھائی تین بیدار مغزوں میں سے ایک انور پیرزاردو نے ’’تاریخ کی نابین روحیں‘‘ کہا تھا۔ لیکن لوئی ول میں حکیم الامت ٹائپ کے ڈاکٹر تھے جو کہ خود درد میں مبتلا تھے اور وہ درد تھا وطن کا اس کے لوگوں کا۔ وطن میں سارے تو نہیں کئی لوگ اور گروہ ہیں کہ چہرہ اس کا خون سے دھوئے جاتے ہیں، چرکے پر چرکے لگائے اسکی شکل ناقابل شناخت بنائے جاتے ہیں۔ جیسے گمشدہ شہریوں کی مسخ شدہ ناقابل شناخت لاشیں۔ اور یہ ڈاکٹر ہیں کہ اس وطن کا تصور بہتر بنانے کا کوئی تامل ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اسی لئے تو لوئی ول کےشہر کے میئر کو کہنا پڑا کہ اس شہر میں پاکستانی سب سے بہترین کیمونٹی ہیں۔اپنے ملک کا تصور بہتر بنانے کی کوششوں میں جتے وہ ڈاکٹر بھی ہیں جو کہ خود وطن سےغم کی شام کی یاد لائے ہیں۔ خود اپنے ہموطنوں کے ہاتھوں انتہاپسندی کا شکار ہوکر پہنچے ہیں ان میں ایک نوجوان ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی جو کہ دنیا میں آنکھوں کے امراض کے جو سب سے بڑے چھ ڈاکٹر ہیں، ان میں شمار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر علی خوش نصیب ہیں کہ زندہ سلامت نکل آئے۔ لیکن امریکی شہری ڈاکٹر قمر مہدی اتنے خوش نصیب نہ تھے کہ جو پاکستان میں ان پر وطن کا پیدا کرنے اور نام دینے کا قرض اتارنے کو غریبوں کی خدمت کرنے گئے، اپنے بچے اور اہلیہ کے سامنے قتل کردئیے گئے۔ حکومت انصاف دینے تو کیا ان کے قتل ہوجانے کو ماننے کو تیار نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بقول پاکستانی سفیر کے کہ ڈاکٹر مہدی کے کیس پر سرگرم ہونے پر ان کو بھی دھمکیاں ملی ہیں۔ امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں اور سرجنوں کی تنظیم اپنا کے مطابق اس وقت تک پاکستان میں انتہاپسندی کی بنیاد پر دو سو ڈاکٹر کراچی سمیت مختلف شہروں میں قتل ہوچکے ہیں جن میں ایک تعداد اقلیتوں سےتعلق رکھنے والوں کی ہے۔ اپنا، بطور امریکی شہری ڈاکٹر قمر مہدی کا کیس چاہتی ہے کہ امریکی محکمہ تفتیش کرے جو کہ امریکی قوانین کے تحت کرسکتا ہے۔ پچھلے دنوں اپنا کنونشن کے موقع پر اپنا کے وفد نے واشنگٹن ڈی سی میں امریکی کانگریس بلڈنگ میں اس ضمن میں ایک تفصیلی بریفنگ بھی دی۔پاکستان سے امریکہ برین ڈرین پروگرام کے تحت سینکڑوں ڈاکٹر گئے ہوئے ہیں۔ میرے دوست اور نفسیات کے ڈاکٹر رضوان علی مجھے بتارہے تھے کہ صرف ان کی کلاس میں تین سو ڈاکٹر تھے جن میں سے دو سو نقل وطنی کرکے امریکہ آئے ہوئے ہیں۔ ان میں سے اس زمانے کی دائیں چاہے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سرگرم طلبہ سیاست کے کارکن اور رہنما بھی تھے، جن میں سے کئی ہیں جو اپنے شعبوں میں کامیابیوں کے ساتھ اور امریکی سوسائٹی میں اپنا لوہا منوانے کے ساتھ اپنے ملک اور اس کے لوگوں کیلئے کسی نہ کسی طرح انتہائی سرگرم ہیں۔ وقت اور اپنے وسائل خرچ کرتے ہوئے۔ ایسے بھی ہیں جو غیر سیاسی اور محض سماجی کارکن ہیں۔اسی طرح لوئی ول میں دو ریاستوں کے پاکستانی امریکی ڈاکٹروں یعنی کینٹکی اور لوئی ول والوں نے ایک تنظیم ’’آپکی‘‘ یعنی ایسوسی ایشن آف پاکستانی فزیشنس آف کینٹکی اور انڈیانا بنائی ہوئی ہے۔ لوئی ول کے یہ ڈاکٹر دایاں ہو کہ بائیں بازو والا ماضی یا حال رکھتے ہوں، ہندو ہوں مسلم یا کسی بھی فرقے کے بس پاکستانی ہونے کے ناتے اپنی فیملیوں اور احباب سمیت آپکی میں سرگرم ہیں۔
پھر وہ فقط غیر ڈاکٹر پر شعبہ صحت سے وابستہ پیدائشی سماجی کارکن فرید بھٹو ہو کہ غیر سیاسی ماہر امراض گردہ ڈاکٹر غفار بلیدی، کہ کینسر کے علاج کے امکانات پرریسرچ کرنے والے شاہد قمر ہوں، کہ ماہر امراض چشم ڈاکٹر علی، قاسم کاظمی، ڈاکٹر واسدیو ہوں کہ ڈاکٹر خالد میمن، ڈاکٹر آفتاب بیگ ہوں، کہ ڈاکٹر بلال چیمہ، یا زمانہ طالب علمی میں جمعیت سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر جمیل اعظم فاروقی ہوں کہ آپ کے موجودہ صدر ڈاکٹر اسد اسماعیل، یا ڈاکٹر ندیم تالپور، ڈاکٹر سہیل اکرام ہوں ماہر امراض قلب ڈاکٹر رضا ہوں، لوئی ول کے پانچ سو پاکستانی نژاد خاندانوں میں نوے فی صد شعبہ طب یا صحت سے تعلق رکھنے والوں میں سے فقط چند نام ہیں جو ایک نہ دوسرے دور میں آپکی کے پلیٹ فارم سے کمیونٹی اور اپنے وطنوں کیلئے درمندی سے کام کرتے رہے ہیں، کام کر رہے ہیں۔ اپنا کے لوگ اگر دو سو ڈاکٹروں کا وفد لیکر اسرائیل کے خیر سگالی اور مطالعاتی دورے پر گئے تھے جن کی حکومتی سطح پر اسرائیل میں بہت پذیرائی ہوئی تھی تو لوئی ول میں ڈاکٹر بلال اور ساتھی مسلم صوفیا اور یہودی صوفیا کے ساتھ مابین مذہب کی اصل روح عدم تشدد اور کل خیر کے پیغامات عام کرنے کو اپنی تنظیم پیس کے پلیٹ فارم سے سرگرم ہیں۔ امریکہ کے ڈاکٹر آبادی کے پاکستانی ڈاکٹر مختلف الخیال ہونے کے باوجود ایک بات پرپوری طرح متفق نظر آئے کہ پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہونی چاہئیں۔ کسی کو بھی طالع آزمائی کا کوئی حق نہیں، یعنی کہ پنڈی کے پہلوان پاپولر لیڈروں کا آخر کب تک دھڑن تختہ کرتے رہیں گے۔ پنڈی کے پہلوانوں کو منتخب وزرائے اعظموں سے اب استعفیٰ لینے یا انکو ڈکٹیشن دینے کے دن چلے گئے۔
تازہ ترین