• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دو ہفتے گزرچکے ،تحریک انصاف اور عوامی تحریک دھرنا دیئے بیٹھی ہیں۔ مخالفین دھرنوں کی سیاست کو ملک ،جمہوریت کے لئے نقصان دہ قرار دیتے ہیں۔مانا،مگر یہ سوال تشنہ ہےکہ آخر دھرنوں کی نوبت آئی کیوں،عمران کا موقف ہے وہ ایک سال سے زائدعرصہ تک حکومت کے جمہوری اور آئینی اداروں سے انصاف مانگتے رہے جو انہیں نہیں ملا ۔جمہوریت کا یہی تو حُسن ہے عدالتوں اور دیگر آئینی اداروں سے ہر کسی کو انصاف مل جائے ۔ سوال : کیا لوگوں کوانصاف مل رہا ہے؟ عمران کو بھی نہیں ملا توپھروہ غیر جمہوری رویوں کے خلاف سڑکوںپر آ گیا ۔جمہوریت کے دعویدار اسے ابتداء سے ہی پسِ پردہ قوتوں کا کھیل قرار دیتے رہے ۔وہ اسے سازش بھی کہتے ہیں۔
ایک بار پھر وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنا یہ موقف دہرایا ہے مگر کسی کانام نہیں لیا ، اگر اشارہ چوہدری برادران اور شیخ رشید کی طرف ہے تو وہ ببانگ دہل دھرنوں کا حصہ ہیں مگرایسے بے نام اشارے غلط فہمیوں کو بھی جنم دیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو گلہ ہے کہ طاقتور اسٹیبلشمنٹ فیصلوں میں مداخلت کرتی ہے ۔ جو ممالک بین الاقوامی کھیل سے متاثرہوتے ہیںاس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ اس بات کوایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ 2012میں بھارت کے سیکرٹری دفاع پاکستان میں سیاچن پر مزاکرات کیلئے آئے،مذاکرات کامیابی کے قریب تھے، بھارتی آرمی چیف نے بیان دیا ہم سیاچن میں اونچائی پر ہیں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے جھانسے میں نہ آئیں۔ امریکہ میں بھی جان ایف کینیڈی سے لیکراور فورڈ نکسن تک کئی صدورکو پنٹاگان کی طاقت کا سامنا رہا ۔صدر جمی کارٹر نے افغانستان میں مداخلت سے روکاتو انہیں کو دوسری ٹرم میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ریگن نے پینٹاگان کی مدد سے 8 سال اقتدار انجوائے کیا مگر آج ریگن کو امریکہ کا بد ترین صدر کہا جاتا ہے البتہ بھارت کے مودی کو ریگن سے بد تر مانا جاتا ہے۔
پیوٹن کے جی بی کے مستعد آفیسر تھے،ادارے کی ایما پر سیاست میں آئے اور جادو کی چھڑی کے سہارے اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچ گئے۔ پھر اسی چھڑی کے سہارے8 سال کے بعد پیوٹن آئینی رکاوٹ ہٹانے کے لئے وزیر اعظم بن گئے اور سارے اختیارات سمیٹ کر وزیر اعظم ہائوس لے گئے اوربعد میں آئینی رکاوٹ دور کرکے پھر صدر بن گئے ہیں۔ اب سارے اختیارات واپس صدر کے پاس ہیں ۔
چین میں تو سنگل پارٹی سسٹم ہے جو چلتا ہےاسرائیل کے آئینی ایوانوں میںاس کی بہیمانہ جنگ کی مخالفت ہو رہی ہے مگر فوج کسی بات پر کا ن نہیں دھرتی۔ پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ اسٹیبلشمنٹ کو رقیب سمجھتا ہے اوراسے تابع فرماں بنانا چاہتا ہے مگرطاقت کبھی کسی کے تابع فرمان نہیں ہوتی ۔ بعض ملکوں میںاسٹیبلشمنٹ آئین کے بند لفافے میں رہ کر طاقت کا استعمال کرتی ہے مگر کہیں بار بار اسٹیئرنگ وہیل پر براجمان ہو جاتی ہے ۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم سیکنڈے نیویا کےکسی ملک میںنہیں ،شیروں کی کچھار میں رہ رہے ہیں ۔ روس چین دو بڑی قوتیں ہیں اور بھارت خود ایٹمی قوت ہے۔ حیدرآباد دکن،جوناگڑھ کشمیرسے سیاچن سرکریک رن آف کچھ اور پانی جیسے تنازعات بھارت سے ہیں ۔بھارت مذاکرات سے کسی تنازع کے تصفیے کی خواہش نہیں رکھتا۔ گنگا کشن پاور پروجیکٹ میں پانی کے تنازع پروفد پاکستان آیا ہواہے۔
معاہدےکے مطابق پانی پاکستان کے دریا ئےنیلم کا ہے، بھارت پانی روک کر بجلی بنا سکتا ہے مگر کشن گنگا ڈیم میں جمع شدہ دریائے نیلم کا پانی بجلی بنانے کے بعد واپس اس دریا میں ڈالنے کا پابند ہے تاکہ پاکستان اپنے نیلم پاور پروجیکٹ کوجو 2006 میں شروع کیا گیا تھا توانائی کی پیداوار کے مقصد کیلئے استعمال کر سکے بھارت کہتا ہے پانی دوں گا مگر دریائے جہلم میں ،نیلم میں واپس نہیں جبکہ پاکستان کو نیلم پاور پروجیکٹ کے لئے بجلی بنانے کیلئے پانی کی ضرورت ہے ۔ورلڈ بنک سے ہم اپنی نا اہل ٹیم کی کارکردگی کی وجہ سے ہار چکے ہیں اب شاید revision میں ہیں۔یو این او یا دیگراداروں نے کبھی کسی طاقتور کو روکا ہے ۔اسرائیل کا رویہ سامنے ہے اگر فوج نہیں ہو گی تو کون بھارت کا ہاتھ روکے گا ۔ جمہوریت کو ڈی ریل کیاجا رہا ہے ۔ معاشی نقصان کی بات ہو رہی ہے ۔اس میں دو رائے نہیں اور اس پر بھی اختلاف نہیں، الیکشن میںدھاندلی ہوئی ہے کس نے کی کیا یہ سوال اہم نہیں ۔ قبل ازیں پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ ایک دوسرے پر اس کا الزام عائدکر چکی ہیں مگر کسی نے اس مسئلے کو مستقل حل کرنے کی تگ ودو نہیں کی ،اب اگر ایسا ہو رہا ہے تو سب کو تعاون کرنا چاہئے نہ کہ اس میں رکاوٹ ڈالنی چاہئے ۔اب بھی اگر الیکشن شفاف ہوں تو ن لیگ ہی جیتے گی سیٹوں میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن اور بعض دیگر اداروں پر کوئی الزام ہے تو یہ ادارے ماضی میں بھی زیر الزام رہے ہیں،کچھ نیا نہیں۔سسٹم ٹھیک کرنا ہوگا ۔اگر سسٹم ٹھیک نہ کیا گیا تو دمادم مست قلندر کسی نہ کسی شکل میں موجو رہے گا اور ہماری جگ ہنسائی ہوتی رہے گی ۔عمران کو بھی کچھ لو کچھ دو کا اصول اپنانا ہو گا لیکن اس کے بعد جو بھی طے ہو اس پر عمل درآمد کی ضمانت آخر کسی کو تو دینا ہو گی سوال یہ کہ آخر یہ خلا کون پر کرے گا؟
تازہ ترین