• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جمہوریت کا سفر بڑا کٹھن رہا ہے اور اس کے راہی صعوبتیں جھیلتے رہے ہیں لیکن کچھ معاملات میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ منجمد نظریات آج بھی رکاوٹوں کا باعث بن رہے ہیں۔ اس وقت ملک کا دارالحکومت دو دھرنوں کی لپیٹ میں ہے۔ ایک دھرنا پاکستان عوامی تحریک کے زیر انتظام انقلاب کے لئے دیاگیا تو دوسرا دھرنا ایک نیا پاکستان بنانے کے لئے پاکستان تحریک انصاف کے زیر انتظام تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کے نمائندے بھی اپنے اپنے انداز میں اس پر اپنی رائے اور تبصروں کا اظہار کر رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں خواہ ان کا الحاق حزب اختلاف سے ہو یا حکومت سے، وہ مسلسل مصالحت کی کوششیں کر رہی ہیں ماسوائے چند جماعتوں کے جو دھرنے والوں کو اس حد تک آڑے ہاتھوں لے رہی ہیں کہ ان کے خلاف مار چ اور دھرنوں کی دھمکی دے چکی ہیں۔ اس تمام تر صورتحال سے الگ ہو کر ایک ایسے موضوع کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں جس کا تعلق جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے ہے۔ اکثر صحافی اور سیاسی رہنما دھرنوں میں شامل افراد کی تعداد کو موضوعِ بحث بناتے ہیں ۔ سیاست کے طالب علم کی حیثیت سے راقم کا خیال ہے کہ جمہوریت میں عددی اکثریت صرف حکومت کی تشکیل اور مالی معاملات کی منظوری تک محدود ہوتی ہے۔اس کے بعد تمام معاملات کا حل رائج الوقت دستور کی روشنی میں عقل اور منطق کے دلائل کے ساتھ طے کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ہر سطح پر اکثریت کو موضوعِ بحث بنا لیا جاتا ہے جو مسائل کے حل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ حکومت وقت نے شروع کے دنوں سے اس مارچ کے شرکاء کی تعداد پر اس کا تمسخر اڑانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے نہ صرف مذاکرات کے عمل کے آغاز میں تاخیر ہوئی بلکہ محاذ آرائی میں بھی اضافہ ہوا۔
آج معاملات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ یہ مذاکرات سے ماورا چلے گئے ۔ مثال کے طور پر اگر 342 کے ایوان میں 341قانون ساز کسی معاملے پر ایک رائے رکھتے ہوں اور ایک شخص ان سے اختلاف کرتا ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو شخص اختلاف کر رہا ہے، وہ درست نہیں ہوسکتا۔ یقینا اس وقت 341افراد کی رائے کو نافذ کیاجائے گا لیکن اختلاف کرنے والے شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بات منوانے کے لئے اپنی جدوجہدکو جاری رکھے۔ لیکن اس کے لئے دلیل کو سہارا بنایاجانا چاہئے۔ سڑکوں پر احتجاج کرنا بھی جمہوریت کا حصہ ہے اور اس کا حق بھی استعمال کیاجاتا ہے، لیکن اس پر دو رائے ہے کہ اس کا استعمال کب کیاجائے۔ عمومی طور پر جب گفت و شنید کے راستے بند ہوجاتے ہیں تو معاملات سڑکوں پر ہی طے ہوتے ہیں۔ راقم نےاپنے گزشتہ مضامین میں اس سنگینی کی طرف اشاراتاً کیا تھا کہ ماڈل ٹائون میں بہنے والا خون حکومت کے لئے مہنگا بھی پڑسکتا ہے۔ اس بحران کا حل یا انجام کیا ہوتا ہے، اس سے قطع نظر افراد کی تعداد کتنی ہے، اس کو بھی بالائے طاق رکھ دیجئے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ 15دنوں سے وفاقی دارالحکومت مفلوج ہے اور حکومت اپنے ترقی کے ایجنڈے سے ہٹ کر اس معاملے کو حل کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ ذرائع ابلاغ یہ تنقید کر رہے ہیں کہ یہ آغاز انتہائی تاخیر سے کیا گیا۔ اگر ہم دوسری جمہوریتوں سے مثال اخذ کرنا چاہیں تو حال ہی میںبھارت میں انا ہزارے نے بدعنوانی کے خلاف ایک تحریک کا آغاز کیا، گو کہ وہ آغاز کے وقت تنہا تھے لیکن انہوں نے اپنی آواز کو مؤثر بنایا اور امن اور صبر کا دامن نہ چھوڑا اور بالآخر جمہوری اصول کامیاب ہوئے۔ تو کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں دھرنے پر بیٹھے علامہ طاہر القادری کے وہ مطالبات جنہیں صرف یہ کہہ کر رد کیا گیا کہ وہ دہری شہریت رکھتے ہیں اور پارلیمان میںان کی نمائندگی نہیں، اس لئے وہ یہ حق نہیں رکھتے۔ یہاں بھی جمہوریت کا ایک مغالطہ نظر آتا ہے۔ اس سوچ کو کس طرح تسلیم کر لیاجائے کہ جمہوری لوگ وہ ہیں جو پارلیمان میں ہیں یا وہ سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں ہی عوام کے حقوق کی بات کرسکتی ہیں جو ایوان میں اپنا وجود رکھتی ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پارلیمان کا وجود بھی عوام کے دم سے ہے۔ اگر عوام پارلیمنٹ سے باہر کسی جماعت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ تو یہ پارلیمنٹ کے اراکین اور اس کے محافظوں کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ لہٰذا ہمیں اس امر پر غور کرنا ہوگا کہ جمہوریت کے وہ اصول کیا ہیں جن کی بنیاد پر جمہوریت عوام کے حقوق کا تحفظ کرے کیونکہ سردست ہم تو جمہوریت بچانے اور اس کے تحفظ کے چکر میں ہیں اور حقوق سے محروم عوام مسلسل اضطراب کا شکار ہیں او رمالی طور پر ملک انحطاط کا شکار ہورہا ہے۔ بین الاقوامی اداروں نے پاکستان آنے سے انکار کردیا ہے۔ وزیر اعظم کا دورئہ ترکی منسوخ ہوگیا اور اگر یہ صورتحال کچھ اور دیر برقرار رہی تو چین کے صدر کا دورئہ پاکستان بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ دھرنا دینے والی جماعتوں کے مطالبات آئین اور قانون کی نظر میں کیا ہیں، بہرحال انہیں محدو د سہی، لیکن عوام کی حمایت حاصل ہے اور وہ انتہائی استقامت کے ساتھ پاکستان کی تاریخ کا انتہائی طویل دھرنا دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ وہ موقع ہے جس پر ہم یا تو جمہوریت کا جنازہ دیکھیں گے اگر ہم نے جمہوریت کے مغالطوں کو درست نہ کیا، کیونکہ اگر صورتحال خراب ہوئی تو کسی بھی غیر آئینی تبدیلی کو آئینی شکل دینا مشکل نہ ہوگا اور اس کی تمام تر ذمہ داری موجودہ حکومت پر عائد ہوگی کیونکہ اگر کچھ دینے کی پوزیشن میں کوئی ہے تو وہ حکومت ہے۔ سیاسی جماعتیں یا تو مشورہ دے سکتی ہیں یا آگ لگا سکتی ہیں۔ سردست تمام سیاسی جماعتیں اس شعلے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن ایک بار پھر وہی بات کہوں گا کہ جمہوریت ریاست کا تحفظ کرتی ہے، عوام کو حقوق دیتی ہے لیکن ہم سات دہائیاں گزر نے کے باوجود نہ صرف جمہوریت بحال کرنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں بلکہ اس کی حفاظت کرنے میں لگے ہیں۔ سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا کہ آخر موجودہ جمہوریت میں سقم کہاں ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی، آئین اور قانون کی حکمرانی کے دعویداروں کا عمل کس حد تک اس میں درج زریں اصولوں کے مطابق ہے؟ ریاست کے تین ادارے جن میں عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ شامل ہیں، موجودہ بحران میں ان تینوں اداروں کا کردار انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ بہت کمزور رہا ہے۔ مقننہ اپنے پارلیمنٹ کی حفاظت اور اس کے تحت بننے والی حکومت کے دوام کی بات کرتی ہے، عدلیہ کے فیصلوں سے انصاف کے بجائے سوالات نظر آرہے ہیں۔ انتظامیہ بھی کمزور نظر آتی ہے۔ لہٰذا ایک مستحکم اور مضبوط نظام کے لئے جمہوریت کے سقم کو ختم کرکے ہمیں ایک معتدل معاشرے کے قیام کے لئے کوششیں کرنا ہوںگی۔
تازہ ترین