• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
SMS: #NRC (space) message & send to 8001
پاکستان تحریک انصاف کے آزادی مارچ اور پاکستان عوامی تحریک کے انقلاب مارچ جو اسلام آباد پہنچ ہو کر دھرنوں میں تبدیل ہوگئے ان کا ڈراپ سین جو بھی ہو لیکن ہر شر میں خیر کا پہلو بھی ہوتا ہے تو اس احتجاج کے نتیجے میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے آئین ، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لئے جس اتحاد کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ دھرنوں کے دوران قومی اسمبلی اور سینیٹ نے جمہوریت کی حمایت میں متفقہ قراردادیں منظور کر کے پیغام دے دیا کہ اب نہ تو کوئی پیٹریاٹ بنے گی اور نہ ہی ق لیگ۔ پارلیمنٹ نے اپنی قرارداد میں احتجاج اور دھرنا دینے والوں کی طرف سے وزیر اعظم کے استعفے اور قومی اسمبلی کی تحلیل کے مطالبات کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے سرے سے مسترد کر دیا۔ قومی اسمبلی میں موجود سیاسی جماعتوں نے یک زبان ہو کر آئین کی بالا دستی،پارلیمنٹ کی خود مختاری اور جمہوریت کے دفاع کے لئے متحد ہونے کا عزم ظاہر کیا۔ جمہوریت پسندوں نے اپنے دروازے پر سراپا احتجاج رہنماؤں کی طرف سے انتہائی نا زیبا، غیراخلاقی اور اشتعال انگیز تقاریر اور بیانات کی بھی سخت مذمت کی۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی تو لندن میں وزیر اعظم میاں نواز شریف اور شہید بے نظیر بھٹو کے درمیان طے پانے والے میثاق جمہوریت کی پابند تھیں لیکن ایوان میں محمود خان اچکزئی،آفتاب شیر پاؤ،اعجاز الحق،صاحبزادہ طارق اللہ،فاروق ستار،مولانا فضل الرحمٰن،پیر صدر الدین راشدی اور حاجی غلام بلور نے بھی جمہوریت کے تحفظ کے لئے جو گرجدار لہجہ استعمال کیا وہ بہت سوں کو باور کرانے کے لئے کافی تھا کہ زمینی حقائق بدل چکے ہیں، اب کسی بھی احتجاج،انتشار یا بحران کو جواز بنا کر جمہوریت پر شب خون نہیں مارا جا سکتا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جو دھاندلی کے الزامات پر اسی شاخ کو کاٹنے کے درپے ہیں جس پر وہ خود بسیرا کئے ہوئے ہیں ،ان کے ساتھ ایک دھاندلی اور ہو گئی ہے اور اس دھاندلی کا الزام انہوں نے کسی اور پر نہیں بلکہ اپنی ہی پارٹی کے رہنما اور اپنے وکیل حامد خان پر لگایا ہے ۔سابق چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری کے ہتک عزت کے دعوی کے لیگل نوٹس پر چیئرمین تحریک انصاف کی طرف سے جو جواب جمع کرایا گیا اس میں اعتراف کیا گیا کہ انہوں نے سابق چیف جسٹس کے خلاف الفاظ مایوسی اور احتجاج کی کیفیت میں ادا کئے تھے۔
یہ بھی کہا گیا کہ جو کچھ کہا گیا وہ ان کی نیت سے مطابقت نہیں رکھتا۔یہ بھی مانا گیا کہ جو زبان استعمال کی گئی وہ مناسب نہیں تھی لیکن یہ پاکستان میں سیاسی جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں اس طرح کی زبان استعمال کرنے کا رواج بن چکا ہے۔ اس اعترافی بیان پر میڈیا میں جب خان صاحب کی لے دے ہوئی اور ان کے چاہنے والے بھی ان پر تنقید کرنے لگے تو انہوں نے حسب روایت اپنی عزت بچانے کے لئے اپنے ساتھی حامد خان کی عزت کے ساتھ پیشہ وارانہ زندگی کو بھی داؤ پر لگا دیا اور شیریں مزاری کے ذریعے بیان دے دیا کہ حامد خان نے ان کی اجازت کے بغیر یہ بیان جمع کرایا ہے۔بعد میں حامد خان نے یہ بیان واپس لے لیا تاہم بیان واپس لیتے انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ ان کی طرف سے اب یہ معاملہ ختم تو یہ ان کا پارٹی قیادت کے ساتھ واضح اظہار ناراضگی تھا۔وہ اس ضمن میں یقینا حق بجانب بھی ہیں کیوں کہ اس اقدام سے نہ صرف ان کی سبکی ہوئی بلکہ لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسل ایکٹ 1973 کے تحت ان کا لائسنس بھی منسوخ ہوسکتا ہے۔
حامد خان کو اب کون سمجھائے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ کچھ یہی حال تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم میں شامل ان سینئر سیاسی رہنماؤں کا بھی رہا جو حکومت کے ساتھ پارٹی کی طرف سے پیش کئے گئے چھ مطالبات پر بات چیت تو کر رہےتھے لیکن فیصلہ سازی کے لئے با اختیار نہیں تھے۔ان میں سے بعض رہنماؤں نے نجی بات چیت میں وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبے پر لچک دکھانے پر رضامندی ظاہر کی اور حکومتی ٹیم کے سامنے بھی اپنی بے بسی ظاہر کی کہ وہ چئیرمین کی مرضی کے بغیر اس مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ادھر کپتان کی ہٹ دھرمی کا عالم یہ کہ ایک ضدی بچے کی طرح اسے کھلونے کی صورت میں وزیر اعظم کا استعفیٰ چاہئے، چاہے اس کی قیمت جمہوریت کے پٹری سے اترنے کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔ اب وزیر اعظم 34 ارکان قومی اسمبلی رکھنے والی ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کی انا کی تسکین کریں یا سینکڑوں ارکان پر مشتمل ان سیاسی جماعتوں کی طرف سے دئیے گئے اعتماد پر پورا اترتے ہوئے غیر آئینی مطالبات کے خلاف ڈٹ جائیں۔ شر میں خیر کے پہلو کو ڈھونڈیں تو یہ بھی خوش آئند ہے کہ وہ وزیر اعظم میاں نواز شریف جو قومی اسمبلی کے اجلاس میں مہینوں بعد تشریف لاتے تھے اور سینیٹ کے اجلاس میں صرف ایک بار وہ حالیہ سیاسی بحران کی وجہ سے قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاسوں میں مسلسل آتے رہے ہیں۔دوسری طرف وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کو بھی وزیر اعظم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پنجاب اسمبلی کو اہمیت دینا چاہئے تھی لیکن وہ انتہائی غیر معمولی حالات کے دوران بھی چین کے دورے پر جانے سے نہیں ہچکچائے۔پاک چین اکنامک کوریڈور سے متعلقہ منصوبوں پر عمل درآمد کے حوالے سے یقینا ان کا دورہ اہم ہو گا لیکن زمینی حقائق کا بروقت ادراک ہی لیڈرشپ کا خاصہ ہوتا ہے۔ وہ غیر ملکی دورے ضرور کریں لیکن موجودہ حالات میں سیاسی بحران کا حل ان کی اولین ترجیح ہونی چاہئے تھی۔
ضرورت اس امر کی بھی تھی کہ وہ پاکستان میں رہ کر دیرینہ دوست چین کے صدر کے دورہ پاکستان کےلئے سازگار ماحول پیدا کرنے کی خاطر کردار ادا کرتے جس کے حالیہ سیاسی بحران کی وجہ سے ملتوی ہونے کا خدشہ پیدا ہو چکا ہے۔ موجودہ حالات میں سیکیورٹی اور امن و امان کے ذمہ دار وفاقی وزیر چوہدری نثار علی خان نہ تو قومی اسمبلی کے اجلا س میں شریک ہوئے اور نہ ہی احتجاج کرنے والوں سے مذاکرات کے عمل میں کوئی کردار ادا کرتے نظر آئے ۔ان کے نقادوں کی طرف سے حالیہ بحران میں ان کے بارے میں کچھ شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیاگیا تاہم حسب روایت انہوں نے کوئی وضاحت کرنے کی بجائے خاموش رہنے کو ہی ترجیح دی ہے۔اس ساری صورتحال میں احتجاج اور دھرنوں کا اونٹ جس بھی کروٹ بیٹھے یہ طے ہو چکا ہے کہ پاکستان میں شفاف انتخابات کے لئے انتخابی اصلاحات ناگزیر ہیں اور اس کے لئے پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی نے اپنا کام بھی شروع کر دیا ہے جو تین ماہ کے اندر اپنی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کرے گی۔جہاں تک انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا معاملہ ہے اس کے لئے وفاقی وزارت قانون کی درخواست کے باوجود تاحال سپریم کورٹ نے ججوںکو نامزد نہیں کیا جس کی اصل وجہ یہ معلوم ہوئی ہے کہ سپریم کورٹ نے حکومت کو پیغام بھجوایا ہے کہ وہ تب تک جوڈیشل کمیشن کے لئے ججوں کو نامزد نہیں کر سکتے جب تک دونوں فریقین یعنی حکومت اور تحریک انصاف جوڈیشل کمیشن کے قیام پر رضامندی ظاہر نہ کر دیں ۔ عدالت عظمی کا یہ مؤقف ہے کہ اگر تحریک انصاف نے جوڈیشل کمیشن کے قیام کو تسلیم نہ کیا تو یہ آئینی ادارے کی ساکھ کو متاثر کرنے کے مترادف ہو گا۔ ملکی سیاست کے اس بحران میں کوئی ایک کی شکست ڈھونڈے گا تو کوئی دوسرے کی فتح لیکن مؤرخ ملکی تاریخ کے اس نازک موڑ پر اجتماعی بصیرت اور فہم و فراست کے ساتھ متعلقہ فریقین کے انفرادی رویوں اور کردار کو بھی زیر بحث لائے گا ۔عمران خان ہوں یا طاہر القادری،میاں نواز شریف ہوں ، شہباز شریف یا پھر جنرل راحیل شریف اس کھیل کے سارے کرداروں کو تاریخ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا اور آخر میں ان سب کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا تاریخی قول کہ... میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے خدا کو پہچانا۔
تازہ ترین