• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی وفدکشن گنگا پر مذاکرات کیلئے پاکستان آیا ،مذاکرات کے تین دورہوئے مگربھارتی وفد کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے بے نتیجہ رہے ۔20 دسمبرکو بین الاقوامی ثالثی عدالت نے کشن گنگا ڈیم بنانے کی بھارت کو مشروط اجازت دیتے ہوئے کم سے کم پاکستانی دریائوں کاپانی استعمال کرنے کی ہدایت دی اوربھارت کے استفسار پرعدالت نے اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر کیا ہے دریائے نیلم میں cumix9تک پانی بہتے رہنا چاہئے یہ فیصلہ سندھ طاس معاہدے کی بنیاداور فریقین کی باہمی رضا مندی پر دیا گیا۔ سندھ طاس معاہدہ 1960میں پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے درمیان طے پایاتھا ۔اس معاہدے پر ذرائع ابلاغ میںاکثر تند و تیز حملے ہوتے رہتے ہیں ، ایوب خان کورگیدا جاتا ہے اور یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے ایوب خان نے پاکستانی دریائوں کا پانی بیچ دیا۔الزام دہندگان میں اکثر پڑھے لکھے اور معروف افراد بھی ہوتے ہیں ۔تنقید ہونی چاہئے مگر تنقید کی بنیاد تحقیق اور درست معلومات ہونی چاہئے محض سنائی سنائی باتیں جن کا کوئی سورس نہ ہوقابل پذیرائی نہیں ۔ثالثی کورٹ کے 20دسمبر کے فیصلے کی بنیاد سندھ طاس معاہدہ ہی ہے۔کل 200دریاہیں 140ایک سے زائد ممالک سے گزرتے ہیں۔مختلف ممالک میں 228کے قریب معاہدے ہیں۔ اختلاف صرف پاکستان بھارت یا چند دیگر ملکوں کے درمیان ہے۔ مغرب نے جنگوں سے ایک دوسرے کے حقوق کااحترام سیکھ لیا ہے جو امن کا پیمانہ ہے مگر بھارت نہیں سیکھ رہا ۔ بھارت کو سمجھ لینا چاہئے وقت سب سے بڑا استاد ہے مگر وقت کا سبق لاشوں پر تحریر ہوتا ہے جس سے آج کے انسان کو پرہیزکرنا چاہئے ۔جو لوگ سندھ طاس معاہدہ پر تنقید کرتے ہیں میراان سے سوال ہے ، اگر سندھ طاس معاہدہ نہ ہوتا تو ہم بھارت کوبگلیہار،کشن ڈیم بنانے سے کیسے روک سکتے تھے ۔ بھارت بالائی خطے پر ہے اور پانی بالائی سے نچلی سطح کی طرف بہتا ہے ۔یہ احساس قیام پاکستان کےوقت سے ہی ہمارے ذہنوں میں جاگزیں تھا ۔بھارت پانی ڈیموں میں جمع کرنے کی صلاحیت اور خواہش تو رکھتا ہی تھا ۔بالائی سطح پر ہونے کی وجہ سے سارے پتے بھارت کے پاس تھے۔بر صغیر کے دریا ئوں کا منبع کوہ ہمالیہ کاتبتی پہاڑی سلسلہ ہے ۔یہ دریاوادی جموں کشمیر سے پنجاب سے بہتے ہوئے بحر ہند میں گرتے ہیں ۔ برطانوی راج سے قبل ہندوستان کا بہت معمولی علاقہ دریائی پانی سے مستفیدہورہا تھا ۔ کنویں ہی زراعت اور پینے کیلئے پانی کا ذریعہ تھے ۔19صدی میں برطانیہ نے دریائی پانی سے استفادے کیلئے دنیا کے سب سے بڑے نہری نظام کا جال بچھا دیا ۔نہری نظام کا زیادہ ترحصہ بھارت میں ہونے کی وجہ سے بھارت ان دریائوں کا پانی روک کر پاکستان کو قحط سے دوچار کر سکتا تھا۔ اسی وجہ سے کشمیر کوپاکستان کی شہ رگ کہا گیا اور پاکستان نے حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ کونظر انداز کرکے سارازورحصول کشمیر پر لگا دیا ۔ بھارت نے 1948میں ہی پاکستان کے پانیوں سے چھیڑ خانی شروع کر دی تھی۔پاکستان اس مسئلے کو بین الاقوامی تناظر میں لے جانا چاہتا تھا مگر بھارت اسے دو طرفہ مسئلہ کہہ کر کسی ثالث کی ضرورت سے انکار ی تھا ۔بظاہر اس مسلئے کا حل جنگ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتاتھا۔
امریکی اٹامک انرجی کے سابق سربراہ مسٹر ڈیوڈ للین تھالLilienthalکو برصغیر میں بہت دلچسپی تھی ۔ وہ معروف امریکی میگزین Colliers کیلئے برصغیر کے متعلق مضامین لکھنا چاہتے تھے ۔کشمیر اورمتوقع جنگیں ان کا موضوع تھا مگر کشمیر سے زیادہ انہیںپانی سے متعلقہ معاملات نے متاثر کیا اور انہوں نے اس پر سلسلہ وار مضامین لکھناشروع کئے۔ڈیوڈ نے مذکورہ میگزین میں پانی تنازع کا حل پیش کیا اور عالمی بنک سے استدعا کی وہ اپنا اثر ورسوخ استعمال کرے ۔دونوں ممالک کو پانی کے ذخائر اور تقسیم کیلئے فنڈ کی ضرورت ہے۔ڈیوڈ للین تھا لا فارمولا عالمی بنک اور ازاں بعد پاک بھارت حکومتوں کو بھی پسند آیا ۔عالمی بنک کے صدر Eugene R Blackنے ڈیوڈ کی تجویز کاشکریہ ادا کیا کیونکہ بنک کودونوں ممالک میںسرمایہ کاری میں دلچسپی تھی۔ پاکستان توثالث کی ضرورت کا حامی تھا جبکہ بھارت اس تجویز پر رضامند نہیں تھا ۔ عالمی بنک نے بھارت کو سمجھایا ہم تیسرے فریق نہیں ہیں بلکہ ہم کسی تنازع کی صورت میں فریقین کےمحض مددگار ہوں گےجس کے بعد بھارت رضامند ہو گیا ۔عالمی بنک نے محسوس کیا تنازع کے دو پہلو ہیں ،سیاسی اور انجینئرنگ مگر دونوں حکومتیں اپنے اپنے عوام کے سامنے سیاسی پہلو کا زیادہ استعمال کر رہی ہیں ۔ بنک نے دونوں ممالک کے سامنے پانی کے تیکنیکی استعمال، اس کے فوائدبتائے اور دونوں ممالک کو انجینئروں کی ٹیمیں مقرر کرنے کی ہدایت کی ۔ بینک کی 8سالہ مسلسل کوشش سے پاکستا ن اوربھارت 1960میں سندھ طاس معاہدے پر متفق ہوگئے جس پر بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے صدر ایوب خان نے دستخط کئے۔ معاہدے کے مطابق مغربی دریا راوی، ستلج،بیاس کے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کر لیا گیا اورچناب،جہلم اور سندھ کے پانی پر پاکستان کا۔ بھارت کو حق دیا گیا وہ مشرقی دریائوں کا پانی روک کر فطری بہائو میں خلل ڈالے بغیر بجلی پیدا کر سکے گا ۔بھارت چونکہ بالائی سطح پر واقع ہے لہٰذاس کی وہ باتیں بھی تسلیم کر لی گئیں جوقرین انصاف نہیں تھیں تاہم معروضی حالات میںیہ ایک بہترین معاہدہ تسلیم کیا گیاہے۔ بھارت معاہدے کی کچھ شقوں کا منفی استعمال کرکے پاکستان کو پانیوں سے محروم کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔بگلیہار اور اب کشن گنگا ڈیم اس کی تازہ مثالیں ہیں ۔ دونوں بار پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کی بنیاد پر بھارت کے خلاف عالمی بنک سے ثالثی کے لئے رجوع کیا ۔اگر سندھ طاس معاہدہ نہ ہوتاتو پاکستان کے پاس سوائے جنگ کے کوئی راستہ ہی نہ تھا ۔ اسی معاہدے کی وجہ سے پاکستان عالمی بنک کی وساطت سے بھارت کو دو بارپاکستان کے حصے کا پانی چرانے سے روک چکا ہے۔ پاکستان نے 2010میں کشن گنگا کے خلاف ثالثی عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا۔پٹیشن کی ابتداء میں ہی پاکستانی آبی تنظیم کے سربراہ اور سندھ طاس معاہدے کے کمشنر کے درمیان وکیل کی اہلیت اور تعیناتی پر اختلاف سامنے آ گئے تھے ۔کمال ماجداللہ جو سابق صدر کے مشیر اور موجودہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی ہیں نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرکے سندھ طاس کمیشن کو بھی آبی تنظیم کے ماتحت بنا دیا تھا اور وزارت بجلی پانی کو کسی قسم کی معلومات فراہم کرنے سے روک دیا تھا۔ کتنی بد قسمتی کی بات ہے شخصیات اداروں پراس قدر حاوی ہیں ۔مقدمہ کی کامیابی کیلئے بین الاقوامی قوانین،سندھ طاس معاہدے اور عالمی ایجنڈا برائے تحّفظ ماحولیات کی ماہر ٹیم کی ضرورت تھی مگر سابق صدر زرداری کی ٹیم کی اہلیت پر ابتداء سے ہی سوالیہ نشان تھا جس کی تصدیق عدالتی فیصلے نے کر دی ۔فیصلے میں واضح تحریر ہے دریائے نیلم میں 9کیوبک فٹ فی سیکنڈپانی کا بہائو برقرار ررکھنا ضروری ہو گا جبکہ 2001کی خشک سالی میں بھی پانی کا کم ازکم بہائو11کیوبک فٹ تھا پھر بھی پودے پانی کی کمی کا شکار ہو کر سوکھے سمیت مختلف بیماریوں کا شکار ہو گئے ،پرندے جانور سبھی متاثر ہوئے اور وادی کا حسن ماند پڑ گیا تھا ۔تحفّظ ماحولیات کا بین الاقوامی ایجنڈا بھی مجروح ہوا تھا۔فیصلے کا بھارت کی طرف واضح جھکائو کے باوجود کمال ماجد اللہ نے کامیابی کے جھنڈے میڈیا پر گاڑ دیئے اور عوام کو ہر سو ہرا ہرا دکھانے کی پُر فریب کوشش کی گئی ۔
وزیر اعظم کو اس ملمع کاری کا نوٹس لینا چاہئے تھا۔ اب انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں اپیل کی باتیں کی جارہی ہیں جو محض ایک ثالثی ادارہ ہے ۔گوعالمی بنک بھی ثالثی ادارہ ہی ہے مگر انٹرنیشنل ڈونر ہونے کی وجہ سے اس کا اثر و رسوخ زیادہ ہے۔
تازہ ترین