• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے آزادی اور انقلاب مارچ کے بعد اسلام آباد میں دھرنوں کی وجہ سے ایسا سیاسی بحران پیدا ہوا ہے ، جو پاکستان کی تاریخ میں ایک اور ’’ کیس اسٹڈی ‘‘ ہو گا ۔ اس بحران نے ملک کو ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے ، جہاں سے ہم نے اگر صحیح راستہ اختیار نہیں کیا تو بحیثیت قوم ہم کسی نئے عظیم المیہ سے دوچار ہو سکتے ہیں ۔ بحران سے نمٹنے کیلئے سیاسی قیادت مکمل طور پر ناکام نظر آئی ہے ۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس بحران میں نہ صرف فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ اسے متنازع بھی بنایا گیا ہے ۔ خدشہ ہے کہ اس موڑ سے ہم کسی غلط راستے پر نہ چل پڑیں ۔
خدشات اور وسوسوں میں یہ سوال پوری شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آتا ہے کہ پاکستان کا کیا ہو گا ؟ پاکستان 1947ء میں آزاد ہوا ۔ ہمارے ساتھ ہی بھارت بھی آزاد ہوا ۔ انہی دنوں ایک حقیقی انقلاب کے نتیجے میں نیا چین بھی معرض وجود میں آیا ۔ بنگلہ دیش ہمارے 24 سال بعد آزاد ہوا ۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد 1960ء کے عشرے تک متعدد ممالک نے آزادی حاصل کی ۔ ان میں سے بیشتر ممالک میں آج جمہوریت بھی ہے اور آئین پر بھی قوموں کا اتفاق ہے لیکن پاکستان 1947ء سے بھی پیچھے چلا گیا ہے ۔ معیشت کی ترقی دیگر نو آزاد ممالک کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے ۔ سیاست میں ہم اپنی منزل کا تعین نہیں کر سکے ہیں اور پاکستانی معاشرہ شناخت کے بحران کے ساتھ ساتھ انتشار کے عذاب میں مبتلا ہے ۔ آزادی کے بعد پاکستان کے پاس سب کچھ تھا ۔ وسائل بھی تھے ، اچھی قیادت بھی تھی اور قوم میں آگے بڑھنے کا جذبہ بھی تھا مگر ہم آگے نہیں بڑھ سکے ہیں ۔ بھارت آج دنیا کی عظیم طاقت بن گیا ہے ۔ ہم صرف انہیں سوالوں میں الجھے ہوئے ہیں کہ اب کیا ہونے والا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ بلکہ یوں کہیں کہ تمام Non Issues ہمارے مسائل ہیں۔
میں عمران خان اور طاہر القادری کی حمایت نہیں کر رہا لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ وہ اس ملک کے غریب اور متوسط طبقے کی موجودہ نظام سے نفرت اور تبدیلی کی خواہش کی بنیاد پر ہی سیاست کر ہیں ۔ اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے اس بیان کا حوالہ دینا بر محل ہو گا ، جو گذشتہ دنوں اخبارات میں رپورٹ ہوا ۔ دبئی میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے ایک اہم بات کہی ۔ اخبارات کی رپورٹس کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’’ اگر جمہوری حکومتیں عوام کو ریلیف اور گڈ گورننس دیں تو غیر جمہوری عناصر کبھی بھی عوام کے مینڈیٹ کو یرغمال بنانے کی جرات نہیں کریں گے ۔ ‘‘ یہی بنیادی بات ہے ، جو اس بحران کو سمجھنے اور اسے حل کرنے میں مدد دے سکتی ہے ۔ میں نے پہلے بھی یہ بات کہی تھی اور آج بھی اسے دہرا رہا ہوں کہ جمہوریت بلا شبہ آج کی دنیا کا بہترین نظام ہے لیکن یہ ایک ذریعہ ہے ،منزل نہیں ۔ پاکستان میں اگرچہ جمہوریت رک رک کر آئی لیکن جمہوری وقفوں کا ہم نے فائدہ نہیں اٹھایا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے سوا کوئی سول حکومت مثالی نہیں رہی ۔ جمہوری حکومتوں میں نہ تو کرپشن کو روکا جا سکا اور نہ ہی گڈ گورننس دی جا سکی ۔ جمہوری حکومتوں نے پہلے سول آمریتوں کا روپ دھارا ، اس کے بعد فوجی آمریت کی راہ ہموار کی ۔ زیادہ تر مارشل لاء سول حکومتوں کی کرپشن ‘ بیڈ گورنس Bad Governance) (اور اقربا پروری کی وجہ سے آئےیہ بھی ٹھیک ہے کہ آئین مقدس ہوتا ہے اور کسی بھی ملک کی سلامتی اور قوم کی یکجہتی کی علامت ہوتا ہے ۔ 1973ء کا آئین ذوالفقار علی بھٹو ، ولی خان ، خیر بخش مری ، عطاء اللہ مینگل ، اکبر بگٹی ، غوث بخش بزنجو ، شاہ احمد نورانی ، نواب زادہ نصراللہ خان اور پروفیسر غفور احمد جیسے جید اور مدبر سیاست دانوں نے بنایا تھا ۔ یہ آئین ان کی اجتماعی دانش کا مظہر تھا لیکن اس دانش کو پس پشت ڈال دیا گیا ۔ 1973ء کے آئین میں جتنی ترامیم کی گئیں ، ان کا مقصد چند خاندانوں کی سیاست اور اشرافیہ کی جمہوریت کو مضبوط کرنے کے علاوہ کچھ نہیں تھا ۔ جمہوریت کے تحفظ کا نعرہ لگانے والے ان حقائق کو کیسے چھپا سکیں گے کہ پاکستان کی 60 فیصد سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہی ہے ۔ لوگوں کو تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں ۔ پاکستان کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہے ۔ 80 فیصد سے زائد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے ۔ 21ویں صدی میں بھی لوگ بجلی کیلئے ترستے ہیں ۔ کیا جمہوریت لوگوں کے بنیادی مسائل حل کرنے کا ذریعہ بن سکی ہے ؟ کیا آئین لوگوں کو بنیادی ضرورتیں ، انصاف اور حقوق فراہم کرنے کی اپنی ضمانتوں کو پورا کر سکا ہے ؟ پاکستان صرف پارلیمنٹ اور شاہراہ دستور کو بچانے کا نام نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کو بچانے کا نام ہے ۔ جو لوگ آج آئین کے تحفظ کی بات کر ہیں ، وہ موقع ملنے کے باوجود عوام کو ریلیف اور گڈ گورننس نہیں دے سکے ہیں ۔ وہ اقتدار کو بچانے کی کوششوں کو آئین کے تحفظ کی کوششوں سے تعبیر کر ہیں ۔ انہوں نے آئین بنانے والے قائدین کی اجتماعی دانش کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ انہوں نے انکو پڑھ کر اس پر عمل کرنے کا کبھی نہیں سوچا۔
آج اگر عوام پاکستان کی تاریخ کا سب طویل دھرنا دے کر بیٹھے ہیں اور پاکستان کے مختلف شہروں میں سڑکوں پر احتجاج کر ہیں تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ ان کی خواہشوں اور امنگوں کو شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو جیسی قیادت نے جلا بخشی تھی ۔ طویل جمہوری جدوجہد کے دوران ان میں تبدیلی کی خواہش پیدا کی گئی تھی اور انہیں بتایا گیا تھا کہ
ہمارے بخت کا لکھا بدل بھی سکتا ہے
وہ خواب ہے تو حقیقت میں بدل بھی سکتا ہے
اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کیلئے لوگ اس کے پیچھے چلے جاتے ہیں، جس نے بھی تبدیلی کی بات کی ۔
اتنے سادہ لوح ہیں اب بھی ، سن کر آواز جرس
پیش و پس سے بے خبر ، گھر سے نکل آتے ہیں لوگ
جو لوگ آج جمہوریت اور آئین کے تحفظ کی باتیں کر ہیں ، انہوں نے کبھی یہ محسوس کیا کہ ان کی سیاسی قیادت عوام سے کتنی دور ہو گئی ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے وزراء اور ارکان پارلیمنٹ خود یہ شکوہ کر ہوتے ہیں۔ کہ وہ کئی ماہ کی کوششوں کے باوجود اپنی پارٹی کے سربراہ اور وزیر اعظم سے ملاقات نہیں کر سکے ہیں ۔ کارکنوں کا کیا حال ہو گا ۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے جیالوں نے بھٹو اور بے نظیر کے ساتھ کام کرکے دیکھا ہے ، جو ہر وقت کارکنوں سے رابطے میں رہتے تھے ۔ اب وہ پریشان ہیں کہ کس لیڈر سے ’’ تحریک اور انقاء ‘‘(Inspiration ) حاصل کریں ۔ نظریاتی اختلافات کے باوجود آئے عمران خان ، طاہر القادری اور الطاف حسین کا اپنے کارکنوں اور عوام کے ساتھ جو رابطہ ہے ، اس سے ان سیاسی جماعتوں کے کارکن محروم ہیں ، جو جمہوریت اور آئین کے تحفظ کی باتیں کر رہی ہیں ۔
موجودہ بحران کا اگر کوئی حل نکال بھی لیا جاتا ہے تو یہ عارضی ہو گا کیونکہ اس سسٹم میں ان خرابیوں کا حل موجود نہیں ہے ، جن کے خلاف لوگ کھڑے ہو گئے اور طویل دھرنے دیئے ۔ میں پھر کہوں گا کہ میں عمران خان اور طاہر القادری کی حمایت نہیں کر رہا لیکن لوگوں کی آنکھوں میں تبدیلی کی چمک دیکھ رہا ہوں ۔ موجودہ سسٹم میں ایسے بحران پیدا ہوتے رہیں گے ۔ اس مرحلے پر جنرل راحیل شریف کے کردار کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی ۔ وہ پاکستانی فوج کے ماضی کے تمام سربراہوں سے مختلف نظر آتے ہیں ۔ جنرل راحیل شریف کو سیاست میں مداخلت کرنے کے تھوڑے عرصے میں بہت زیادہ مواقع میسر آئے لیکن انہوں نے ان مواقع سے فائدہ نہیں اٹھایا ۔ انہوں نے مختصر عرصے میں فوج کا امیج بہتر بنایا اور اسے ایک حقیقی قومی فوج بنا دیا لیکن بات وہی ہے کہ موجودہ سسٹم میںکرپشن ، اقرباء پروری ، سیاست پر خاندانی اور اشرافیہ کے تسلط اور بیڈگورننس جیسی خرابیوں کا حل نہیں ہے ۔ ان خرابیوں کی وجہ سے لوگ سراپا احتجاج ہیں ۔ اسلئے پر امن تبدیلی کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین قومی حکومت کی بات کر رہے ہیں ۔ اگر آئین سے انحراف کیے بغیر قومی حکومت اچھے مقاصد اور عوام کے مفاد میں بنائی جائے تو لوگوں میں بے چینی ختم ہو سکتی ہے ۔ آج ہمارے ملک کا ایجنڈا یہ ہے کہ سخت احتساب ہو۔ ایسی انتخابی اصلاحات ہو ں جس سے عوام کی خواہشوں کا اظہار ہو۔ لوکل گورنمنٹ‘ سیاسی پارٹیوں کا شفاف انتخابات اور غریبوں اور متوسط لوگوں کے مسائل حل ہوں ۔ دیگر جمہوری ممالک کی طرح اک نئے وژن کے ساتھ قوم کی خدمت کر سکے ۔ سخت احتساب اور انتخابی اصلاحات کے بعد عام انتخابات منعقد کرائے جائیں ۔ تبدیلی کے عمل کو راستہ دینا پڑیگا ۔ لوگ اپنے خوابوں سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے ۔
تازہ ترین