• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
پاکستان کے دارالحکومت ریڈ زون سے ابھرتا سیاسی منظر نامہ اس شکل میں سامنے آ رہا ہے کہ اس کے خطوط کہیں تاریخ دہرا رہے ہیں، کہیں تاریخ بنا رہے ہیں۔ آج اور اس وقت مورخہ 2؍ ستمبر 2014ء کی صبح 9بجکر 5منٹ پر ان خطوط کی ہئیت ترکیبی اور تفصیلات کے تازہ ترین رنگ دیکھتے چلئے! پاک فوج کے ترجمان نے واضح کیا ہے :’’تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے پیچھے فوج یا آئی ایس آئی نہیں، تنازعات میں فوج کو گھسیٹنا بدقسمتی ہے۔ اتحاد و سالمیت ہماری قوت ہے جسے ہر حال میں برقرار رکھیں گے۔ فوج موجودہ سیاسی تعطل میں تحریک انصاف یا عوامی تحریک کی کسی بھی شکل میں حمایت نہیں کر رہی، فوج غیر سیاسی ادارہ ہے، اس نے متعدد مواقع پر جمہوریت کے لئے اپنی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم کو مستعفی ہونے یا رخصت پر جانے کا کوئی مشورہ نہیں دیا۔ استعفیٰ یا چھٹی پر جانے کا مشورہ دینے کی خبر بے بنیاد ہے!‘‘ برادر مخدوم جاوید ہاشمی کا کہنا ہے:’’عمران خان نے کہا تھا، بیج والے طاہر القادری کے ساتھ چلنے کو کہتے ہیں۔ اگست ستمبر میں نئے انتخابات ہوںگے۔ عمران خان کسی منصوبہ بندی کے تحت اسلام آباد آئے ہیں مگر یہ نہیں پتہ کہ یہ کس کا منصوبہ ہے اور سکرپٹ کہاں لکھا گیا۔ عمران نے کہا، سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس اور ججز سے معاملات طے پا گئے ہیں۔ ہماری درخواست پر نواز شریف اور شہباز شریف کو ہٹا دیں گے۔ میں نے اور کور کمیٹی نے عمران خان کو شیخ رشید سے بچنے کا مشورہ دیا تھا۔ ارکان اسمبلی سے زبردستی استعفے لئے گئے۔ میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں اکیلا شخص نہیں جس نے عمران کو وزیراعظم ہائوس کی طرف پیش قدمی سے روکا تھا، اس فیصلے میں شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، اسد عمر اور پرویز خٹک کے علاوہ دیگر رہنما بھی شامل تھے!‘‘ سپریم کورٹ بار کی سابقہ صدر محترمہ عاصمہ جہانگیر نے اس صبح کے تازہ ترین نقشے میں یہ رنگ بھرا ہے:’’شروع سے لے کر آخر تک موجودہ صورتحال پر عسکری قیادت نے سکرپٹ لکھا، اس حوالے سے ہم نے تجربات کر رکھے ہیں۔ ’’پاکستان دیاں موجاں ای موجاں جدھر دیکھوں فوجاں ای فوجاں۔‘‘ نواز شریف کو ہم نے مینڈیٹ دیا تھا بادشاہت نہیں دی تھی۔ اگر ملک میں فوج آ گئی تو دس سال نہیں جائے گی۔ سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ فوج کو روکنے کے لئے معاملے کا خود ہی سیاسی حل نکالیں۔ سیاسی اکابرین وزیراعظم کو مزید رسوا نہ کریں اور موجودہ سیاسی صورتحال کا سکرپٹ لکھنے والوں کو جواب دینے کے لئے نگران سیٹ اپ لایا جائے۔ عسکری قیادت نے موجودہ صورت حال کا سکرپٹ لکھا مگر انٹیلی جنس رپورٹس کی روشنی میں انہیں عوام کی رائے کا احترام کرنا چاہئے۔‘‘
2؍ستمبر 2014ء کی اس صبح کے اس تازہ ترین نقشے میں سے خصوصی رنگ ’’نواز شریف کی آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے دو گھنٹے کی ملاقات کے تھوڑی ہی دیر بعد حکومتی احکامات کے تحت 17؍جون کے سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی کی شق کا اضافہ کر دیا گیا، اس ایف آئی آر میں 20دیگر ملزمان کے ساتھ وزیراعظم پاکستان کا نام بھی شامل ہے! عمران خان اور تحریک انصاف کی مجموعی قیادت نےپس پردہ فوجی رابطوں کی تردید کی، انہیں ایسا کرنا چاہئے تھا۔ فطری سیاسی عمل کا یہی تقاضا ہے مگر الزام لگایا جاتا ہے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) شجاع پاشا کی کہانی عمران خان کے گرد گھومتی ہے، گھومتی ہی رہے گی۔ آپ کو شاید یاد ہو چوہدری شجاعت حسین نے ایک وقت شکوہ کیا تھا ’’ہمیں تحریک انصاف میں شمولیت کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے‘‘ کہا جاتا ہے کہ ان دنوں عمران اور جنرل شجاع پاشا ’’رومانس‘‘ لب بام تھا۔ ابھی ابھی سپریم کورٹ آف پاکستان میں ’’ماورائے آئین اقدامات کیس‘‘ کی سماعت کل (یعنی آج) تک کے لئے ملتوی کر دی گئی ہے جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک نے جاوید ہاشمی کے الزامات فیصلہ کن انداز میں مسترد کر دیئے۔ گھڑیاں ساڑھے دس بجا رہی ہیں، کچھ دیر بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہونے جا رہا ہے، شاید نواز شریف خطاب بھی کریں، اندازہ ہے اس مشترکہ اجلاس کا تذکرہ ان سطور میں بعد میں کیا جائے گا، اس وقفے تک ایک اور گفتگو! ریڈ زون سے ابھرتے سیاسی منظر نامے کی بنیاد عوام ہیں۔ علامہ طاہر القادری اور عمران خان کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں، کم از کم ان لمحوں تک یقین کی حد تک کچھ بھی کہنا ممکن نہیں، جو کہاجا سکتا ہے وہ کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد، ان کے عوامی ورثے کی علامہ طاہر القادری اور عمران خان نے ایک شعلہ فشاں عوامی آلائو کے انتہائی ابھار کے ساتھ یاد دلا دی ہے۔ کم از کم بی بی شہید کے بعد علامہ طاہر القادری اور عمران خان نے عوام کے حقوق، عزت، پامالی، بے کسی، بے بسی، ذلت، غربت، کتمانِ انصاف اور ان کے کیڑے مکوڑے ہونے کی اوقات کے خوابیدہ کرب کو پوری شدت سے جگا دیا۔ ٹی وی چینلوں میں بیٹھے دانشوروں میں سے ان دانشوروں کو لوگوں نے غیظ و غضب سے سنا جن کی ساری گفتگووئوں میں کسی ظالم، کسی استحصالی، کسی خود سر، کسی متکبر، کسی ابن الوقت یا قانون شکن کی کھل کر گردن نہیں پکڑی جاتی، جو ایک مکمل غیر منصفانہ نظام میں پسے ہوئے، کچلے ہوئے عوام یا زندگی کے مسائل میں گھرے اور پکڑے گئے متوسط طبقہ کو انصاف کے حصول، حقوق کی بازیابی اور عزت کی بحالی کے لئے اسی مکمل غیر منصفانہ نظام کے تحت قانون کی پگڈنڈیوں سے مقدمات زندگی کے فیصلے لینے کی تلقین کرتے ہیں! چند برس پہلے پر مشتمل ماضی قریب کے علاوہ ان حضرات گرامی میں 70ء کے وہ مخصوص (تعداد تقریباً پندرہ سے بیس کے قریب) حضرات بھی شامل ہیں جن میں سے بعض نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے چند دن بعد ضیاء سے مل کر کہا تھا ’’آپ نے باقی شریک ملزموں کو ابھی تک نہیں لٹکایا۔ کیا کل کلاں ہمیں لٹکوانے کا ارادہ ہے۔ ’’اور ضیاء سے باقاعدہ دو بدو ہو گئے جس کے بعد چند روز کے اندر اندر شریک ملزموں یا مجرموں کا بھی قصہ پاک کر دیا گیا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی، ذوالفقار علی بھٹو کی بات الگ رکھیں، ان 70کی دہائی کے ان بھٹو مخالف بیس بائیس اخبار نویس دانشور حضرات کو ایک یاد دہانی!
یہ 77ء یا 79نہیں، 2014ء ہے!
تاریخ کا دھارا ہی نہیں بدلا رفتار میں بھی برق کا انداز ہے! ذوالفقار علی بھٹو سے علم اور سیاست، دونوں میں ہر سطح پر عبرتناک اور توہین آمیز شکست کھانے کے بعد آپ نے اس کی ضد میں، اسے کائونٹر کرنے کے لئے جس کو میدان میں اتارا تھا، بلاشبہ وہ اور آپ کا گروہ، گزشتہ چھبیس ستائیس برسوں سے اس ملک کی دھرتی سے عدل پر مبنی ریاستی اور سیاسی نظام کو مذہب اور اقدار کے نام پر روکنے میں پوری طرح کامیاب رہا، ان چھبیس برسوں میں لیکن آئینی تہذیب، غیر جانبدار ریاستی اداروں اور عدلیہ کے ساتھ جو حشر برپا کیا گیا اس کی تاریخی بہیمت پاکستانی عوام کے سامنے نہیں لائی جا سکی۔ 70ء سے لے کر آج تک پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے 90فیصد پر آپ لوگ قابض ہیں، بدقسمتی سے عام کارکنوں میں بھی آپ کی خود ساختہ مذہبی اقدار سے متاثرافراد کی اکثریت ہے، اخبارات کے ادارتی صفحات سے لے کر دیگر شعبوں تک ’’دایاں بازو بطور انچارج‘‘ براجمان ہے۔ علم و آزادی کی بات آپ لوگوں کے تاریک ذہن کی پیروی میں کرنا پڑتی ہے۔ ’’ات خدا دا ویر‘‘ ہوتا ہے۔
اسی باعث قدرت نے علامہ طاہر القادری اور عمران خان برآمد کئے۔ ترقی پسند محبان وطن سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک آپ کا کچھ نہ بگاڑا جا سکا، اس دھرتی پر آپ کا مقدس خونی رقص جاری رہا، جاری ہے، جس ذوالفقار علی بھٹو کو ’’آخری قہقہ غریب عوام کا ہو گا‘‘ کے جرم میں آپ کے گرو ہ نے تختہ دار سے سرفراز کیا، وہ غریب عوام آپ ہی میں سے پیدا کئے گئے ان دو افراد کے ذریعہ آپ کی گردنوں پر سوار ہو کے ضرب شدید لگائیں گے۔ آپ وہ ہیں جنہیں کچھ پتہ ہی نہیں، آپ کے قلب کی آنکھیں بند اور حرکت خود غرضانہ رہتی ہے۔ اس حکمران گروہ کے صرف بچوں کا پروٹوکول، جب وہ سڑک پر سے گزر رہے ہوں، گہنگار ترین مسلمان کی خودی لخت لخت کر دیتا ہے؟ اس مظلوم قوم کی مہنگائی کا جائزہ لینے کے لئے اتوار بازاروں کا جائزہ ہیلی کاپٹروں پر لیا گیا، دراصل یہ اس قوم کی عزت نفس ذبح کرنے کی عیاشی تھی چھوڑیں! خواجہ آصف، سعد رفیق، احسن اقبال، ذہن میں آ جاتے ہیں، پرویز مشرف کو ڈھال بنا کر جس طرح افواج پاکستان کے سپہ سالار اور ادارے کی شناخت سربازار رسوا کی گئی وہ صرف آپ کے گروہ کی طاقت ہے، قوم آپ کے معاملے میں ضعیف و بے بس ہے! رہ گئی پاکستان پیپلز پارٹی؟ ذوالفقار علی بھٹو کی جدوجہد مجھ جیسوں کا زاد راہ ہے، آصف علی زرداری، میرے رہنما اور اعتزاز احسن جیسے برادران واجب الاحترام، مگر آصف علی زرداری ہوں یا کوئی اور، کوئی ’’آخرت‘‘ کا ’’پروانہ‘‘نہیں۔ اس وقت اس جماعت نے آئین کے تحفظ کے نام پر جس طرح بھٹو کی بے گور و کفن میت پر اپنے Statusاور ہوس اقتدار کے چراغ جلائے ہیں وہ مجھ جیسوں کو کبھی نہیں بھولیں گے! پارلیمنٹ میں تقاریر شروع ہو چکیں، ادھر کالم کا وقت اور گنجائش تمام ہوئی!
تازہ ترین