• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن 2013ء کے بعد جس وقا ر اور امن و سلامتی کے ساتھ انتقالِ اقتدار ہوا اس پر ہم نے انہی کالموں میں ایک آرٹیکل تحر یر کیا :’’پاکستانی سیا ست میچورٹی کی راہوں پر....‘‘ ہمیں خو شی ہے کہ حا لیہ بد تر مصنو عی سیا سی بحران میں ہمار ی قومی سیا ست نے دانش مندی و با لغ نظر ی کا حق ادا کر دیا ہے ۔ہمار ی سابقہ قو می سیا ست کا یہ خاصہ رہا ہے کہ حکومت ِوقت کو ہٹا نے کے لئے جتھے بندی یا اتحا د تشکیل پاتے اور تحر یکیں چلاتے چلے آ رہے ہیں کبھی کسی نے جا ئز نا جائز کا خیا ل کیانہ جمہوری و غیر جمہوری کواہمیت دی بلکہ جمہوریوں نے جمہوریوں کے خلاف وہ طو فان اُٹھائے کہ طالع آزما ئوں نے یہ اپنا پیدا ئشی حق سمجھ لیا کہ وہ درمیان میں کو د کر بندر با نٹ کریں بلکہ قومی لو ٹ کو ما لِ غنیمت خیا ل کر تے ہو ئے تمام قو می و سا ئل اُچک لیں نتیجتاً جبر اور دہشت کی اپر وچ جسد قومی میں کینسر کی طرح سرایت کر گئی آج قو می امنگوں کے تر جمان ادارے ـ(پارلیمنٹ )کے سا منے دھا ندلی کے نام پر جو بد تر ین مصنوعی ڈرامہ رچا یا گیا ہے یہ دراصل اُسی اپروچ کا پر تو یا مظہر ہے ۔آج اگر قومی سیاست با لغ نظر ی کا مظا ہرہ نہ کرتی تو قوم کو سنگین نقصان کا سامنا کرنا پڑتا۔ ہنوز جمہوریت پر لٹکتی ننگی تلوار نیام میں گئی نہیں ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ معمولی سیاسی کوتاہی کتنی تبا ہی لا سکتی ہے۔۔
ہماری نظر میں 73ء کے متفقہ آئین کی تشکیل کے بعد پاکستا نی قومی سیا ست نے جو قا بل فخر کار نامہ سر انجام دیا ہے ’’وہ چارٹر آف ڈیمو کریسی ‘‘کی دستاویز ہے جس کا کریڈ یٹ بجا طور پر شہید محتر مہ بے نظیر بھٹو اور وزیراعظم نو از شریف کو جاتا ہے۔ہمارے نقطہء نظر سے’’ میثاقِ جمہور یت ‘‘کی موجودہ پا کستان میں بڑی حیثیت و اہمیت ہے۔اگر چہ آج ہمارے درمیان محترمہ بے نظیر مو جود نہیں ہیں لیکن اُن کی پا رٹی اور سیاسی وارثوں کا فر ض ہے کہ ہنگا می سیا سی مفا دات کو بالائے طا ق رکھتے ہوئے اس معاہدے کی اہمیت کو اس وقت تک کم نہ ہو نے دیں جب تک وطن عزیز میں جمہوریت پر گھات لگا نے و الے مو جو د ہیں ۔پی پی قیاد ت اور کارکنان کی اس حوا لے سے خا مو شی و کو تا ہی بے نظیر کی فکر اور سو چ سے غداری قر ار پا ئے گی۔۔ مقام اطمینان ہے کہ پی پی کی قیا دت نے اپنی تما تر کمزوریوں اورکوتا ہیوں کے باوجو د جمہو ریت پر مشکل گھڑی کے لمحات میں ثا بت قد می کا مظا ہرہ کیا ہے با لخصوص قا ئدِحزبِ اختلا فا ت سید خو رشید شاہ کا مثبت رول اسی طرح یاد رکھا جائیگا جس طرح نوازشریف نے 2008ء سے 2013ء تک جمہوریت کے ناتواں پودے کی پیہم آبیاری کی تا وقتیکہ منتخب اسمبلیاں اپنی معیاد پوری کر نے میں کامیاب ہو ئیں ۔پی پی کے علا وہ دیگر سیاسی پارٹیوں اور ان کے قائدین نے بھی ذمہ داری کا جو مظاہرہ کیا ہے اس کا اعتراف و سپاس و زیر اعظم پارلیمنٹ ہائوس میں کرچکے ہیں ۔امید کی جا سکتی ہے کہ اس سب کے با و جو د بھی اگر جمہوریت پر و ار ہو تا ہے تو ہمار ی مو جودہ قو می سیا ست تر نو الہ نہیں لو ہے کے چنوں جیسی ثا بت ہو گی سول سوسائٹی کے دیگر با شعور طبقات با لخصوص جو ڈیشری اور وکلا بر ادری بھی آئین اور جمہو ریت پر کسی نظر یہ ضرورت کو قبول نہیں کر یں گے ۔
یہاں ہم منتخب جمہو ری حکو مت کو بھی تو جہ دلانا چا ہیں گے کہ جمہور یت محض الیکشن جیتنے کا نام نہیں ہے ہم ما نتے ہیں کہ 2013 ء کے انتخا با ت و طن عز یز میں و قو ع پذیر ہونے و الے سا بق تمام انتخابا ت سے اگر بہتر نہیں تھے تو برُے بھی نہیں تھے سوا ئے 77ء کے جو استثنائی معاملہ ہے، ان انتخا با ت کو قا بل قبو ل بنا نے کے لئے یہی ثبو ت کا فی ہے کہ یہ انتخابات اس عبو ری نیو ٹرل سیٹ اپ کے تحت منعقد ہو ئے جس پر نہ صر ف یہ کہ حکو مت اور اپو زیشن نے بلکہ دیگر تمام قا بل ذکر سیا سی پا رٹیوں نے بھی مہر قبو لیت ثبت کی تھی آج جو پا رلیمنٹ کے سا منے دھا ندلی دھا ندلی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے ہمار ی را ئے میں اس کی کو ئی سیا سی بنیا د ہے نہ حیثیت ۔یہ تو محض ایک خوفنا ک ڈ را مہ ہے جو مخصوص مفادات کی خاطر رچایا گیا ہے ہم PTI کوسیاسی جما عت ما نتے ہیں نہ اس کے لیڈر کو سیاستدان ۔PTIایک سیاسی پر یشر گر وپ ضرور ہے جسے مخصوص اشاروں نے مخصوص مفادا ت کے لئے قائم کر وایا ہے۔ یہ حقیقت اب ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ PTI کو مو جو دہ پو زیشن میں لا نے اور مصنو عی مقبو لیت دلا نے کے لئے کن کن حلقوں نے کیا کیا کا وشیں کی ہیں ۔لگتا ہے کہ اس پارٹی کے لیڈر کو آئین، قانون،جمہوریت یا پا رلیمانی تقاضوں کے بنیادی تقاضوں کا بھی علم نہیں ہے۔ پارٹی میں شامل زیا دہ تر وہ نوجوان ہیں جن کی تمنا ئیں تو آسما نوں کو چھو تی ہیں لیکن صبر آزما پو لیٹکل ورک کی سو جھ بو جھ ہے نہ تجر بہ ۔بلا شبہ اس پارٹی میں کچھ ایسے باامید لو گ بھی مو جو د ہیں جو بو جو ہ دو نوں بڑی سیاسی پاریٹوں کی کار کر دگی سے ما یوس ہو کر پی ٹی آئی کی قیادت سے امید لگا ئےبیٹھے ۔اس پا رٹی میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو بو جوہ پیپلزپا رٹی مسلم لیگ (ن) یا جماعت اسلا می میں ایڈجسٹ نہیں ہو سکے تھے کسی کو ٹکٹ نہ مل سکنے کی شکا یت تھی تو کسی کو عہدہ نہ ملنے کی کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں حسب آرزو منا سب مقا م نہ ملنے کی شکا یت تھی۔ ایسے تمام لو گوں کے لئے اگر PTIکی قیا دت اس نوع کے ڈراموں کا اہتمام نہ کر تی تو پا رٹی کے جلد بکھرجانے کا قو ی امکان تھا ۔رہ گی عوامی تحریک اور اس کے قا ئد قادری صا حب تو ان کے مسا ئل کی نوعیت کچھ اور ہے ۔ان کی انا کے آگے آئین پارلیمنٹ یا وزارت عظمیٰ تو کیا اس مملکت کی وسعتیں بھی سکڑ جا تی ہیں ۔ وہ پا رلیمنٹ کو بھی قبر ستان بنا سکتے ہیں دھاندلی مار چ کے چھ میں سے پانچ مطالبات ما نے جا چکے ہیں ان کی منا سب تشفی ہنوز باقی ہے جو ناممکنا ت میں سے نہیں ہے۔اس سلسلے میں مزید مذاکرات کا ڈول ڈالا جا سکتا ہے لیکن شر ط یہ ہے کہ علامہ صاحب ہو ائی گھو ڑے سے نیچے تو اتر یں ۔روز اول سے ہر دو تحر یکوں نے تما متر امیدیں عسکریت سے لگا رکھی ہیں۔یہ پارٹیاں پارلیمنٹ پر قبضہ کرلیں یا وزیر اعظم ہا وس میں گھس جائیں ۔ ان کے پاس کسی بڑے انقلا بی اقدام کی گنجا ئش آخر کہاں ہے ایسے میں جب تما م جمہوری سیا سی پارٹیاں بھی سیسہ پلائی دیوار بنی کھڑی ہیں قومی یا ٹیکنوکریٹ پلا ن کا خواب بھی شایدشر مند ہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ ثالث اور ضامن تو بھاری ہیں جمہوری حکومت کو تو ’’سہولت کار‘‘ کی پیشکش سے بھی قطعی اجتناب کر ناچا ہئے تھا ۔آخر مر چو ں کی دکان سے چینی بھی کیوں خریدی جا ئے۔ جمہوری حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے معاملا ت کو زیادہ شفا ف بنائے کر پشن کے ساتھ اقربا پر وری کو ختم کر ے عوامی مسائل اور دکھوں کا مدا وا کرے۔ان تمام خرا بیوں کا تدارک کرے جو جمہوریت کو بد نا می یا کمزور کرنے کا با عث بنتی ہیں۔ اس کے بعد کو ئی ما ورائے آئین شب خو ن ما ر نے کی جرأت نہیں کر ے گا ا گر کر ے گا تو منہ کی کھا ئے گا۔
تازہ ترین