• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اجتماعی غور و فکر کی ضرورت ہے ، ان سب کو جن کی کوئی اہمیت ہے، جن کے ہاتھوں میں اختیار ہے ۔ پچھلے تین ہفتوں میں اس قوم کا بڑا نقصان ہوا ہے، پہنچایا گیا ہے، جان بوجھ کر یا غیر دانستہ، نقصان مگر ہوگیا ہے۔ یہ نقصان چند گاڑیوں کے جلنے، کچھ کیمرے لوٹ لے جانے، کچھ توڑ پھوڑ ہونے سے کہیں زیادہ ہے۔ مادی اشیا تو دوبارہ حاصل کی جا سکتی ہیں، کرلی جائینگی۔ اصول، ضابطوں، وقار اور اعتماد کو پہنچنے والے نقصانات کاازالہ برسوں میں بھی نہیں ہوپاتا، صدیاں بھی کبھی کبھی لگ جاتی ہیں۔ معاملہ افراد کا نہیں رہا۔ اس جھگڑے میں نشانہ ادارے بن گئے، سب ہی ادارے، کسی کو بھی نہیں بخشا گیا۔ عدلیہ سب سے محترم ادارہ ہے، دنیا بھر اپنی عدلیہ کا احترام کرتی ہے۔ انصاف ہی وہ بنیاد ہے جس پر قوم اور ملک کا استحکام منحصر ہے۔ یہ انصاف عدلیہ فراہم کرتی ہے۔ برطانیہ میں اگر عدالتیں ٹھیک کام کر رہی ہوں، تو وزیرِاعظم ونسٹن چرچل کو اعتماد تھا کہ ان کا ملک جنگ جیت لے گا۔ عدلیہ ٹھیک کام اسی وقت کرسکتی ہے جب اس کا احترام برقراررکھا جائے۔ عدلیہ کے فیصلے بزور نہیں منوائے جاتے، منوائے ہی نہیں جا سکتے۔ عدلیہ کے پاس کونسی قوت ہوتی ہے اپنے فیصلہ منوانے کی؟ ایک اخلاقی قوت اس کے ساتھ ہوتی ہے اور ایک مہذب معاشرہ، جہاں ججوں کا احترام سب سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ آئین میں ایک شق درج ہے، 190، جس کے تحت تمام اداروں کو عدلیہ کی مدد کرنے کے لئے کہا جا سکتا ہے۔ قوم نے مگر دیکھا کہ بس کہا ہی جاسکتا ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے، گئے وقتوں کی بات ہے، اسی شق کے حوالے سے فوج کو سپریم کورٹ کی مدد کرنے کو کہا۔ ان کے احکامات وزارت ِدفاع کے سیکریٹری کو بھجوادئے گئے۔ عمل ان پہ کیا ہونا تھا، سپریم کورٹ اور اس کے چیف جسٹس منہ دیکھتے رہ گئے۔ وہ تو شاید زیادہ اہم معاملہ تھا، دو بڑوں کی لڑائی تھی، نواز شریف اور سجاد علی شاہ کی۔ اس بار تو ایسا نہیں تھا۔ ایک ا ہم سڑک پر قبضہ چھڑانے کا معاملہ تھا، سپریم کورٹ کے جج جس سے آتے جاتے ہیں۔ یہ خالی نہیں کرائی جاسکی۔ قانون کی بس اتنی پاسداری رہ گئی ہے، اور ججوں کا بس اتنا احترام۔ یہی ہونا تھا۔ جب ججوں کو تو تڑاخ سے مخاطب کیا جائے، ان پر بے بنیاد الزام لگائے جائیں، ان پر انتخابات میں دھاندلی کرانے کی بلا جواز بات کی جائے تو ان کی بات پھر کون سنے گا۔ اپنے تھوڑے سے مفاد کی خاطر کچھ لوگوں نے عدلیہ کو بےآبرو کرنے کی کوشش کی۔ اس محترم ادارے کی بے حرمتی کے مرتکب ہوئے۔
دوسرا اہم اور محترم ادارہ پارلیمان ہے، ہر مہذب ملک میں ہوتا ہے۔ اُس کے ساتھ ان دنوں جو کچھ کیا گیا، صرف مارشل لائوں میں ہی ماضی میں ہوا ہے۔ مگر انہوں نے بھی اسمبلیوں کی برطرفی تک ہی بات رکھی۔ ان کی بے حرمتی نہیں کی، انہیں نا جائز نہیں کہا۔ مارشل لا لگاتے وقت الزامات اُس وقت کی حکومت پر لگائے گئے۔ ’عزیز ہم وطنوں‘ کو حکومت کی خرابی، حقیقی یا مفروضہ، کا بہانہ سنا کر بہلایا گیا اور اپنے غیر قانونی اقدام کا جواز پیش کیا گیا۔ یہ نہیں کہا گیا کہ یہ نا جائز اسمبلیاں تھیں اس لئے بر طرف کی گئی ہیں، یا یہ کہ یہ دھاندلی سے منتخب ہوکر آنے والے لوگ تھے اس لئے انہیں گھر بھیجا جارہا ہے۔ وہ جو غیر قانونی طریقہ سے اقتدار پر قابض ہوئے انہوں نے بھی اسمبلیوں کا وقار برقرار رکھا۔ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے ادوار میں جس طرح کے انتخابات ہوئے، یا ریفرنڈم، شاید ہی کسی کو ان کے شفاف ہونے کا یقین ہو۔ مگر اس وقت بھی ان اسمبلیوں کو نا جائز نہیں کہا گیا۔ انہوں نے بھی نہیں کہا جو ریفرنڈم کے لئے مہم چلا تے رہے تھے، وزیراعظم بننے کی آس لگا رہے تھے۔ اسمبلیوں کا اپنا ایک وقار ہے۔ وہ قانون سازی کا سب سے بڑا اور اہم ادارہ ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے قوانین سے ملک چلتا ہے، دنیا بھر سے معاملات انہیں کے بنائے ہوئے قانون کے تحت کئے جاتے ہیں۔
حکومت بھی یہی بناتی ہیں اور حکومت کا سربراہ بھی یہی چنتی ہیں۔ مانا کے ماضی میں آمروں نے انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا، مگر اس میں اس ادارے کا کیا قصور؟ اس کی ، بحیثیت ادارہ توہین کرنے کا کوئی جواز ہے، نہ کسی کو یہ حق دیا جانا چاہئے کہ ان کے لئے غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کرے اور ابھی تو دھاندلی ثابت بھی نہیں ہوئی، ابھی تو یہ طے ہونا باقی ہے کہ اس اسمبلی میں منتخب ہو کر آنے والوں کی اکثریت دھاندلی سے منتخب ہوئی ہے۔ دھاندلی سے کسی کو انکار نہیں۔ ہر انتخاب میں ہوتی ہے۔ مگر کتنی؟ کیا اتنی کے سارے نتائج ہی تبدیل ہو جائیں؟ ہارا ہوا جیت جائے ؟اور جیتا ہوا ہار جائے؟ یوں نہیں ہوتا۔ یہ جو سڑکوں پر ہنگامہ برپا کئے ہوئے ہیں، کسی معقول آدمی سے پوچھیں۔ گیلپ پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی سے ایک بار پوچھا کتنی د ھاندلی ہو سکتی ہے؟ ان کا بڑا مطالعہ ہے، وہ یہی کام کرتے ہیں، انتخابات کاتجزیہ اور اعدا دوشمار کی تحقیق۔ دس فیصد زیادہ سے زیادہ۔ مگر وہ بھی جہاں دھاندلی کرنے والی جماعت کے حامی زیادہ ہوں۔ اگر صحیح یاد ہے تو انہوں نے کہا اتنی دھاندلی نہیں ہو سکتی کے نتائج مکمل تبدیل کئے جا سکیں۔
کراچی پر بھی بات ہوئی۔ ان کی رائے مگر وہی رہی۔ اور بھی لوگ ہیں جن کا مطالعہ ہے۔ پلڈاٹ کے احمد بلال محبوب بہت باریک بینی سے کام کرتے ہیں۔ ان سے پوچھیں، ان کی رائے لیں۔ دیکھیں وہ کیا کہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ آپ کی بات کی تائید کریں، یا نہ کریں۔ ان کی بات میں مگر وزن ہوگا۔ اُس کے بعد الزام تراشی کریں۔ مگر خدارا، اسمبلیوں کو نا جائز نہ کہیں۔ اور اس وقت تک تو بالکل نہیں جب تک دھاندلی ثابت نہ ہوجائے۔ ان اداروں کا ایک تقدس ہے، اسے برقرار رہنے دیں، برقرار رکھیں۔ اسی میں آپ کی بھی عزت ہے اور ملک اور قوم کی بھی۔ مگر یہاں تو لوگ ادارے تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایک ایسے مشکل وقت میں جب ملک دہشت گردی کا شکار ہے، جب سرحدوں پرازلی دشمن گولہ باری کررہا ہے، مشرق اور مغرب کی سرحدوںپر خطرات منڈلا رہے ہیں، فوج وزیرستان میں کارروائیوں میں مصروف ہے ، ایک ایسی صورتِ حال پیدا کردی گئی کہ یہ ادارہ بھی تنازع کا شکار ہو گیا۔ ماضی میں فوج کے بعض سربراہوں نے اس ادارے کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا، بلا شبہ ایک غلط کام کے وہ مرتکب ہوئے۔ اس کی ہمیشہ مذمت کی جاتی رہی ہے۔ یہ بھی درست کے ماضی میں اس کے اہم اداروں کو جنرلوں اور سیاستدانوں نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ اس پر بھی ہمیشہ تنقید ہوتی رہی ہے۔ اور شاید اسی لئے صورتِ حال میں خاصی تبدیلی آئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے خود کو سیاسی معاملات سے الگ رکھنے کی کوشش کی، انتخابات میں بھی مداخلت شاید ہی کی ہو، اور اگر کی بھی ہوتو ماضی کے مقابلے میں بہت ہی کم، جب نتائج ہی وہ تیار کرتے تھے۔ مگر اس کا کوئی ثبوت فی الحال نہیں ہے۔ یوں یہ بس ایک الزام اور قیاس آرائی ہے۔ مگر اس بار یوں لگا ،اور بلاوجہ نہیں، کہ جیسے اسٹیبلشمنٹ نے منتخب حکومت کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بلا وجہ اس لئے نہیں کہ ہنگامہ کرنے والوں نے یہ تاثر دیا، کوئی کسر اگر رہ گئی تھی تو جاوید ہاشمی نے پوری کردی۔انہوں نے اندرون خانہ کی جو کہانیاں سنائی ہیں، اگر وہ درست ہیں، اور ان پر شبہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، تو یہ ایک گہری سازش ہے، اسٹیبلشمنٹ کو جس کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ آس پاس کے لوگوں کو یہ تاثر دینا کہ جو کچھ کیا جا رہا ہے اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر ہے، ان لوگوں کو اپنی طرف لاتو سکتا ہے، مگر اس طرح اس اہم ادارے کا وقار دائو پر لگایا گیا۔ دشمنوں کو گھی کے چراغ جلانے کا موقع فراہم کیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے بھی ان دنوں کئی مواقع پر احتیاط کا دامن چھوڑ دیا۔ پچھلے دنوں جو چند بیانات اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے آئے ان کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ کبھی یوں لگا کہ اسٹیبلشمنٹ ایک منتخب حکومت کوہدایات دے رہی ہے، اور کبھی ایسا محسوس ہوا کہ اسلام آباد کے حساس علاقوں میں غدر مچاتے ہجوم کو اس کی حمایت حاصل ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن ، اور اس سے پہلے قومی اسمبلی میں گھس جانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کی ذمہ داری تھی، دارالحکومت کی حفاظت ان کے سپرد تھی، عمل اس نے مگر نہیں کیا۔
یہ سب ٹھیک نہیں ہوا۔ یہ سب ہونا نہیں چاہئے تھا۔ اداروں کو، اور وہ سب اہم ادارے ہیں، بہت نقصان ہوا ہے۔ ان کا وقار مجروح ہوا، ان کی عزت کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، انہیں متنازعہ بنایا گیا ہے۔ یہ قومی نقصان ہے۔ یہی وقت ہے کہ سب مل کر بیٹھیں اور اس نقصان کا ازالہ کریں۔ اور وہ جو کھلنڈرے ہیں، انہیں اب سنجیدگی اختیار کرنی چاہئے۔ معاملات ہاتھ سے نکل گئے توسب ہاتھ ملتے ہی رہ جائیں گے۔
تازہ ترین