• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاسی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ رُخ تبدیل کر رہی ہے۔ دھرنا دینے والے مظاہرین اور اسلام آباد کی انتظامیہ کے مابین ایک تصادم ہوچکا ہے اور اس کے بعد جزوی جھڑپیں جاری ہیں جس میں تین افراد جاں بحق ہوئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔ عمران خان اور طاہر القادری بدستور اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس دوران کچھ ایسی صورتحال نے جنم لیا جس سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ ایک جانب مسلح افواج کے سربراہ نے دونوں دھرنا دینے والے رہنمائوں سے ملاقات کی ۔ کہا یہ جارہا تھا کہ یہ ملاقاتیں حکومت کی درخواست پر کی گئی ہیں لیکن اس کے اگلے ہی روز میاں نواز شریف نے فلور آف دی ہائوس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان نے نہ تو ثالث بننے کی نہ ہی ضامن بننے کی درخواست افواجِ پاکستان سے کی۔ ہاں، البتہ فریقین کی درخواست پر سہولت کار بننے پر رضامندی ظاہر کی۔ الفاظ کے اس ہیر پھیرنے صورتحال کو بہت زیادہ گنجلک کردیا ہے۔ کیونکہ افواج پاکستان کے تعلقاتِ عامہ کے ادارے کو اس بات کی وضاحت کرنا پڑی کہ بری فوج کے سربراہ کی ملاقاتیں حکومت کی درخواست پر کی گئیں۔ سوال یہاں یہ ہے کہ خواہ حکومت نے ثالث بننے کو کہا ہو یا ضامن یا سہولت کار، کم از کم یہ تو طے ہے کہ حکومت نے افواج پاکستان سے کوئی کردار ادا کرنے کو کہا تھا اور یہ درخواست یقینا جمہوریت کی شکست سے تعبیر کی جاسکتی ہے۔ اس بات سے قطع نظر اس وقت وفاقی دارالحکومت میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔ ایک جانب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے نظام کو بچانے کی کوشش کی گئی ۔ نظام کو بچانے کے لئے سیاسی تدبر یہ کہتا ہے کہ میاں نواز شریف اقتدار کےایوانوں سے نکلیں اور دھرنا دینے والوں کے کنٹینر میں جاپہنچیں۔کیونکہ جب تک مذاکرات نچلی سطح پر ہوتے رہیں گے، وہ فیصلہ کن نہیں ہوسکتے۔ اس مرحلے پر اگر تاخیر سے کام لیا گیا تو نظام پر سوال اٹھا کر اسے لپیٹا جاسکتا ہے اور اس کے لئے میدان تقریباً ہموار ہوچکا ہے۔ اسی دوران ایک اور پیچیدگی نے جنم لیا جب پاکستان تحریک انصاف کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے میڈیا پر آکر یہ انکشافات کئے کہ عمران خان مسلح افواج اور عدلیہ کے ایماء پر یہ لانگ مارچ کر رہے ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر مخدوم جاوید ہاشمی کو ان باتوں کا علم تھا تو انہوں نے اس کا اظہار اتنی تاخیر سے کیوں کیا ؟ یوں تو جاوید ہاشمی کا کردار ہمیشہ سے باغیانہ رہا ہے، لیکن یہ کہنے میں دو رائے نہیں کہ اس مرتبہ انہوں نے اپنے اندر کی آواز کو زبان دینے میں تاخیر کی ہے۔ دوسری جانب عمران خان نے انہیں تحریک سے علیحدہ کرنے کا بھی اعلان کر ڈالا۔ گو کہ یہ الزام عمران خان پر لگتا ہے کہ وہ فیصلے اپنے رفقاء کے مشورے کے بغیر کر بیٹھتے ہیں۔ یوں تو ہر انسان جسے اپنے مقبول ہونے کا گمان ہوتا ہے، وہ ایسے رویوں کا اظہار کرتا ہے، لیکن اس بار جب انہوں نے مخدوم جاوید ہاشمی کو تحریک انصاف سے علیحدہ کرنے کا اعلان کیا تو یہاں کئی قانونی سوالات نے جنم لیا ہے۔ کیونکہ مخدوم جاوید ہاشمی پاکستان تحریک انصاف کے منتخب صدر ہیں اور اسی الیکشن میں کامیاب ہوئے جس کا اظہارعمران خان فخریہ کرتے ہیں۔ جبکہ وہ خود ایک غیر منتخب چیئرمین ہیں۔ یہ فیصلہ کس طرح ممکن ہے کہ کون کس کو نکال سکتا ہے۔ اگر تحریک انصاف کے قانون ساز مخدوم جاوید ہاشمی کے ہمراہ جاتے ہیں تو قانونی طور پر عمران خان ان کا کچھ نہیں بگاڑسکتے۔ ہاں، البتہ اگر اراکین قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی جاوید ہاشمی کی دی ہوئی پالیسی سے انحراف کرتے ہیں تو وہ فلور کراسنگ کے مرتکب قرار پائیں گے۔ اب اس قضیے کا حل اس فورم کے پاس ہے جس نے تحریک انصاف میں رہتے ہوئے مخدوم جاوید ہاشمی کو صدر منتخب کیا۔ یہ پیچیدگی بھی صورتحال کو خراب کررہی ہے۔ اور اس سے قطع نظر حکومت کے پاس مواقع کم نظر آتے ہیں۔
وزیراعظم مسلح افواج کے سربراہ سے ملاقاتیں کر رہے ہیں جن کی تصاویر الیکٹرانک میڈیا پر جاری ہورہی ہیں۔ حکومت کی طرف سے آنے والے بیانات کی وضاحت آئی ایس پی آر کو کرنا پڑ رہی ہے ۔ میاں نواز شریف اپنے گزشتہ دو ادوار میں بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکے اور آج ایک بار پھر بظاہر انہیں ایسی ہی صورتحال کا سامنا لگتا ہے۔ اس تناظر میں حکومت کو چاہئے کہ سیاسی درجہ حرات کو کم کرنے کے لئے ایسے اقدامات کرے جو سب کے لئے قابل قبول ہوں۔ اس کے لئے سیاسی انا کو توڑنا بہت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاملات ایسی نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی بظاہر ممکن نظر نہیں آتی۔ اگر نظا م کو بچانا ہے اور اگر ہم جمہوریت کے تسلسل کے خواہاں ہیں تو حکومت کو میدانِ عمل میں آنا ہوگا۔سیاسی معاملات حکومت اور سیاسی جماعتوں کو طے کرنا ہیں۔ اس موقعے پر عمران خان اور طاہرالقادری کو بھی ملک کے مفاد اور جمہوریت کی بقاء کو سامنے رکھنا ہوگا۔ ان کے بہت سے مطالبات تسلیم کئے جا رہے ہیں اور کچھ پر مشروط آمادگی بھی حکومت نے ظاہر کردی ہے۔ حکومت اور جو سہولت دے سکتی ہے، وہ فراہم کرے اور دوسری جانب مظاہرہ کرنے والی جماعتیں بھی سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی راستہ تلاش کرے تاکہ نظام کو بچایاجاسکے۔ سیاسی رہنما ئوں کے پاس شکایت کا کوئی جواز نہیں رہ جائے گا کیونکہ نظام کو اتنا خراب کردیا جائے گاکہ آنے والی تبدیلی کو پاکستان کے عوام باآسانی قبول کر لیں گے۔ ذرائع ابلاغ کے اداروں میں بھی واضح طور پر ایک تفریق نظر آتی ہے۔ افواہ سازی کے ذریعے حکومت کے خلاف ماحول بنانے کی بھی کوششیں جاری ہیں جس سے صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے لہٰذا عدلیہ ، مقننہ، انتظامیہ اور ذرائع ابلاغ اپنے کردار کا جائزہ لیتے ہوئے اس روئیے کو اختیا رکر یں جس سے معاملات طے ہوسکیں کیونکہ آج اگر سیاسی رہنمائوں نے حالات کو سنبھال لیا تو یہ جیت جمہوریت کے زریں اصولوں کی ہوگی اور کسی کی ہار نہیں ہوگی۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے ۔
تازہ ترین