• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس طرح مرض کی صحیح تشخیص سے مریض جلد صحت یاب ہوجاتا ہے ، اسی طرح بگڑتے ملکی حالات کی درست تشخیص سے گمبھیر ہوتے مسائل کو حل اور معاشرے کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ تاریخ میں دیکھا جاسکتا ہے بہت وہ قومیں یا ملک جو بظاہر تباہی کے دہانے پر تھے جب انہیں مخلص اور صاحب فراست قیادت مل گئی تواس نے رات دن ایک کرکے اصل مسائل حل کر ڈالے۔ چند ہی سالوں میں وہ ملک ترقی کرگیااور اس نے قوم کی ناکامیوں کو کامیابی میں بدل دیا۔ اس کی ایک دو نہیں بہت سی مثالیں ہیں۔ ہم دُور نہیں جاتے ماضی قریب کی چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔
1935ء تک سنگاپور ایک ایسا جزیرہ تھاجہاں لوگ یہاں جاتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔ پھر 1965ء میں سنگاپور کو ’’لیکو آن یو‘‘ (Lee Kuan Yew) کی شکل میں ایک ایسا رہنما مل گیا جس نے 30 سالوں میںاسے دنیا کی بہترین ریاست بنادیا۔ آج سنگاپور کو آئیڈیل سمجھا جاتا ہے۔ اس کی معیشت دنیا کی 10بڑی معیشتوں میں شمار ہوتی ہے۔کبھی چین کے بھی حالات بہت بُرے تھے۔ پھر چین کو’’ماؤزے تنگ ‘‘جیسا انقلابی قائع اور چواین لائی جیسا زیرک رہنما مل گیا۔ آج ایک طاقتور ملک اور مضبوط معیشت کاحامل ملک ہےجس کی مصنوعات امریکہ و یورپ کی منڈیوں پر چھائی ہوئی ہیں۔ ایک چینی کہاوت ہے ’’آلو نہ مانگو، آلو کا بیج مانگو۔‘‘ ہمارے حکمران چین کےدورے تو کرتے رہتے ہیں، لیکن ان کی فراست سے کوئی سبق نہیں لیتے۔1981ء میں ملائشیا کا شمار تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں ہوتا تھا۔ اسی سال ملائشیا کو مہاتیر محمد مل گیا۔ ان کی انتھک جدوجہد کی بدولت صرف دو دہائیوں کے بعد ملائشیا کا شمار پہلی دنیا میں ہونے لگا۔ وہ ایک ایسا ملک بن گیا جو معیشت، سرمایہ کاری اور صنعت و حرفت میں یورپ اور امریکہ کا مقابلہ کرنے لگا۔ 1985ء سے پہلے دبئی کا نام سن کر لوگوں کے ذہنوں میں ایک صحرا کا تصور اُبھرتا تھا۔ پھر اس کی خوابیدہ قسمت نے انگڑائی لی حکمرانوں نے ہر شعبے انصاف اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا۔ آج کا دبئی 40سال پہلے والے دبئی سے بالکل مختلف ہے اب وہاں پر آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی جگمگاتی عمارتیں ہیں۔2001ء سے پہلے روانڈا میں امن نہیں تھا۔ 1992ء سے 2001ء تک روانڈا میں نسلی فسادات میں 8لاکھ لوگ مارے گئے۔ 1995ء میں ملک کا نیا آئین بنا۔ مفاہمت کی سیاست کا چلن چلا۔ تمام پارٹیز کو ایک پلیٹ فارم پر لایا گیا۔ سب کو پابند کیا گیا، وہ ملک کو اس گمبھیر صورت حال سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ تمام سیاسی پارٹیوں نے سیاست کو ایک طرف رکھ کرکندھے سے کندھا ملایا۔ حکومت نے ساتھ ہی چھوٹے بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کروادیئے۔ تعلیم پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دی۔ ہیلتھ انشورنس لازمی قرار دیدی۔ یہ وہ اقدامات تھے جن کی بدولت روانڈا کی حالت ہی بدل گئی۔ روانڈا اس وقت کاروباری لحاظ سے دنیا کا 32 واں بہترین ملک ہے۔ امن و امان کا دور دورہ ہے۔اسی طرح ترکی کو طیب اردگان جیسا مخلص،دور ندیش لیڈر مل گیاتو آج ترکی ہر لحاظ سے ایک مظبوط مضبوط ملک بن چکا ہے۔ سیاست اور ترقی میں ترکی کو رول ماڈل کے طور پر لیا جانے لگا ہے۔ ترکی کی معیشت دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں شمار ہونے لگی ہے۔ ہمارے حکمران ترکی کے دورے ضرور کرتے ہیں، لیکن سیکھتے کچھ نہیں۔ مذکورہ بالا ممالک سمیت دنیا کے کئی چھوٹے بڑے ممالک ایسے ہیں جہاں پر سیاسی طوفان آئے یا کالی آندھیاں چلیں۔ آمریت راج کررہی ہو یا جمہوریت کرشمے دکھارہی ہو، کبھی ملک کی ترقی نہیں رُکتی۔ ملک کے عوام کی بھلائی اور فلاح کے لئے شروع کئے گئے منصوبے یونہی رواں دواں رہتے ہیں۔ ان کے انفرا اسٹرکچر میں ترمیم ممکن نہیں۔ پاک وطن میں عجب چلن ہے جب بھی دوچار سال بعد حکومتیں بدلتی ہیں تو پہلے سے جاری منصوبوں کو یکسر ختم کرکے ہرکہ آمد عمارت نوساخت کاسلسلہ شروع کردیا جاتا ہے۔ دوسرے ملکوں میں لانگ ٹرم پالیسی ہوتی ہے اور ہمارے ہاں شارٹ ٹرم بھی نہیں۔ بدقسمتی سے قائداعظم محمد علی جناح کے بعد ملک کو کوئی ایسا حقیقی رہنما میسر نہیں آیا جو بیچ منجدھار میں پھنسی ہوئی قوم کی کشتی کو کنارے لگادیتا، میںجب پاک وطن کے حکمرانوں کی تاریخ پر نظر ڈالتا ہوں تو سب اپنے مفاد کی جنگ لڑتے نظر آتے ہیںہر حکمران نے قوم کو مایوس ہی کیا یہ سلسلہ اب بھی برقرار ہے۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد قومی اور صوبائی حکومتوں کی تقسیم کار قدرے بہتر تھی، عوام کو اُمید ہوچلی تھی شاید اب حکمرانوں نے ماضی سے سبق حاصل کرلیا ہے، کیونکہ شروعات اچھی تھیں۔ سندھ میں پی پی، بلوچستان میں بلوچ، خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف اور پنجاب میں ن لیگ۔ امید تھی ہر پارٹی گڈ گورننس کرے گی اور اسی بنیاد پر اگلے الیکشن میں کامیابی حاصل کرے گی، لیکن ایک دوسرے کے خلاف سازشیں شروع ہوگئیں۔ اس کی وجہ خود حکمرانوں کی غلطیاں بھی ہیں۔ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا جب ہمارے حکمران سیاستداں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اپنی ساری توجہ عوام کے اصل مسائل کی طرف مرکوز کردیں۔ اصل میں ملک و قوم کو ایسی ہی صاحب فراست قیادت کی ضرورت ہے ۔
تازہ ترین