• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ تین ہفتے پاکستان پر نہایت کڑے گزرے ہیں اور حیرت کی بات یہ کہ اِس دوران ناقابلِ یقین واقعات بھی ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ قرآن مجید میں آیا ہے کہ حشر کے روز ہر شخص کے ہاتھ پاؤں گواہی دیں گے کہ وہ اُن سے کیا کیا کام لیتا رہا ہے ، مگر عمران خان کے دست و بازو تو اِسی دنیا میں بول اُٹھے ہیں اور ہر لحظہ گہرا ہوتے ہوئے سیاسی بحران کا رُخ موڑ دیا ہے اور بادل چھٹنے لگے ہیں۔ تاریخ کے اِس اہم دوراہے پر جب ’’ہجوم‘‘ کی طاقت کے ذریعے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پر قابض ہونے اور وزیراعظم کا استعفیٰ طلب کرنے کا ڈرامہ کھیلا جا رہا تھا ، تو مخدوم جاوید ہاشمی تاریخ کی گواہی دینے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پہنچ گئے اور ایسا فصیح و بلیغ خطاب کیا جس نے پورا نقشہ ہی بدل کے رکھ دیا ہے۔ تاریخ میںاُن کا نام ایک بڑے محسن کے طور پر زریں حروف میں لکھا جا چکا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اِس پارلیمنٹ ہاؤس جس کا بلوائیوں نے محاصرہ کر رکھا ہے ، میں خود راستہ تلاش کر کے آیا ہوں اور میں اِس کا راستہ مسلسل تلاش کرتا ہی رہوں گا۔ اِس ایک جملے نے سیاست کے نہایت گہرے شعور کے حامل جاوید ہاشمی نے جمہوریت اور آمریت کے درمیان ایک ناقابلِ عبور فصیل کھینچ دی ہے اور اپنا یہ غیر متزلزل عزم دہرایا ہے کہ میں بار بار عوام کے پاس جاتا اور اُن سے طاقت حاصل کرتا رہوں گا کہ پاکستان کا مستقبل آئین قانون اور پارلیمان کی بالادستی اور حکمرانی سے وابستہ ہے۔ وہ جب مولانا فضل الرحمٰن سے مخاطب ہو کر یہ کہہ رہے تھے کہ آپ نے اِن لوگوں کو باغی قرار دیا ہے جو پارلیمان کا محاصرہ کیے بیٹھے ہیں ، تو آپ اندر کے باغی کے بارے میں کیا کہیں گے ، تو مجھے اُن کی وہ تقریر یاد آئی جو اُنہوں نے تحریکِ انصاف میں شمولیت کے بعد کراچی کے جلسۂ عام میں کی تھی اور بڑے اعتماد سے کہا تھا کہ میں فطرتاً ایک باغی انسان ہوں اور اصولوں کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرتا۔ پھر وہ عمران خان سے بہت بلند آواز میں مخاطب ہوئے کہ خان صاحب! اگر آپ نے غلط راستہ اختیار کیا تو میں آپ کے خلاف بھی بغاوت کردوں گا۔ آج اُنہوں نے پارلیمان میں علمِ بغاوت بلند کر دیا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ عمران خان صاحب نے اسلام آباد آنے کا منصوبہ علامہ قادری کے ساتھ مل کر بنایا تھا اور وہ بار بار ہمیں بتاتے رہے کہ اُنہیں بعض غیرمرئی عناصر کی حمایت حاصل ہے جبکہ میں اُنہیں اِس روش پر چلنے کے خطرناک نتائج کا احساس دلاتا رہا۔عزیزم جاوید ہاشمی نے خان صاحب کے حوالے سے انکشاف کیا کہ ہمارے بعض جج صاحبان کے ساتھ رابطے ہیں جو ہماری پٹیشن پر حکومت کو برطرف کر کے ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنانے کے احکام صادر کر دیں گے۔ انھوں نے جب اپنی تقریر میں ٹیکنو کریٹس حکومت کا مطالبہ کیا ، تو میں اُن سے اختلاف کر کے ملتان چلا آیا۔ اُنہوں نے یقین دلایا کہ وہ آئندہ یہ مطالبہ نہیں کریں گے پھر ایک رات کورکمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ہم ریاست کے عمارتوں میں نہیں جائیں گے ، لیکن اچانک خان صاحب نے جنگ کا بگل بجا دیا اور مجھ سے کہا یہ میری مجبوری ہے کہ مجھے ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہاشمی صاحب بڑی بے خوفی سے سازش بے نقاب کیے جا رہے تھے اور تاریخ اُن کا منہ چوم رہی تھی۔ اُنہوں نے عمر بھر بڑی بے جگری سے جمہوریت کی جنگ لڑی اور غیر معمولی مردانگی سے جبر اور ظلم کو چیلنج کیا۔ مجھے وہ زمانہ اچھی طرح یاد ہے جب اُنہوں نے پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا انتخاب لڑا تھا۔ وہ اُس وقت اُردو ڈائجسٹ کے دفتر میں جناب مجیب الرحمٰن شامی کے ہمراہ قیام کرتے تھے۔ اُس وقت بھٹو صاحب کی حکومت کا بڑا دبدبہ تھا اور ایسے میں یونیورسٹی کے انتخابات جیتنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ وہ عظیم اکثریت سے انتخاب جیت گئے تھے۔ انہی دنوں چھوٹی سی خبر چھپی تھی کہ سمن آباد کی دو لڑکیاں اغوا کر کے گورنر ہاؤس پہنچا دی گئی ہیں۔ ہم سب سمن آباد رہتے تھے۔ جاوید ہاشمی نے ایک احتجاجی ریلی کی قیادت کی اورگورنر ہاؤس کے درودیوار کانپ اُٹھے اور لڑکیاں خیریت کے ساتھ اُن کے گھروں میں پہنچا دی گئیں۔ بے پایاں استقامت اور قوت مزاحمت کے ساتھ ہاشمی صاحب بہادری ، حق گوئی ، ایثار اور بغاوت کی علامت بن گئے۔ جنرل مشرف کے زمانے میں وہ چھ سال تک جیل کی صعوبتیں برداشت کرتے اور مسلم لیگ نون کی قیادت کا بار اُٹھائے رہے۔ اُنہوں نے ذہنی اور سیاسی تربیت کا جو سفر اسلامی جمعیت طلبہ سے شروع کیا تھا ،اُسے پوری شان کے ساتھ جاری رکھا۔ اُنہوں نے عمران خان کے درپردہ عزائم سے پردہ ہٹا کر پاکستان کو ایک بڑی آزمائش سے بچا لیا ہے۔
جناب عمران خان نے ایک شام اعلان کیا کہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں تحریکِ انصاف کے بارے میں جو الزامات لگائے گئے ہیں ، اُن کا جواب دینے اور پارٹی کا موقف بیان کرنے کے لیے مخدوم شاہ محمود قریشی ارکان پارلیمان کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاؤس جائیں گے۔ مخدوم صاحب اِس سے پہلے تحریکِ انصاف کے ارکانِ پارلیمان کے استعفے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرا چکے تھے، چنانچہ یہ سوال زیرِ بحث آیا کہ شاہ محمود قریشی اب پارلیمان سے خطاب کرنے کا حق رکھتے ہیں یا نہیں۔ اسپیکر صاحب نے حکومت اور اپوزیشن کے بعض ارکان کی درخواست پر اُنہیں خطاب کرنے کی اجازت دے دی۔ مخدوم صاحب نے ڈیڑھ گھنٹے تک بڑی پُرجوش اور پُرسوز تقریر کی اور کہا کہ پارلیمان میرا گھر ہے اور میں اسے بچانے آیا ہوں کہ وہ میرا سیاسی قبلہ ہے۔ وہ زورِ خطابت میں وہ ایسے ایسے ’’اعترافات‘‘ کرتے چلے گئے جو اُن کی پارٹی اور جناب طاہر القادری کے خلاف ایک چارج شیٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے احاطے میں گھسنا ، سول سیکرٹریٹ کے ایک حصے پر قابض ہو جانا ،پی ٹی وی پر دھاوا بولنا ناجائز اور غیر آئینی اقدامات تھے جن کو روکنے کی میں اپنی سی کوشش کرتا رہا ۔ یہ امر بھی واضح کیا کہ عوامی تحریک کے کارکن پی ٹی وی پر قبضہ کرنے میں پیش پیش تھے اور وہی وزیراعظم ہاؤس کے سامنے دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔ آخر میں دلگداز لہجے میں کہا کہ ہمیں اپنی انا کی قربانی دینا ہو گی اور ہماری پارٹی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ اِن کھلے اعترافات کے بعد جناب محمود خاں اچکزئی نے اسپیکر صاحب اور اپوزیشن لیڈر سے درخواست کی کہ مخدوم صاحب نے جو حقائق تسلیم کیے ہیں ، اُنہیں ایک قرارداد کی شکل دے کر اِس پر مخدوم صاحب سے دستخط کرائے جائیں کہ یہ دستاویز قوم کے سب سے بالادست ادارے کی عظمت کا آئینہ دار ہوگی۔ مخدوم صاحب نے پارلیمان میں وزیراعظم سے استعفیٰ لینے کی بات کی نہ اپنے استعفوں کا ذکر کیا۔ان تین ہفتوں میں جناب طاہر القادری جب یہ اعلان کر رہے تھے کہ جنرل راحیل شریف ثالث اور ضامن مقرر کر دیئے گئے ہیں تو اُن کی آنکھوں سے خوشی کے چشمے اُبل رہے تھے اور وہ بے تابانہ جی ایچ کیو روانہ ہوئے تھے۔ یہ پورا تماشا اہلِ وطن ٹی وی چینلز پر دیکھتے اور اپنے قائدین کے اندر جھانکتے رہے۔ قانون اور پارلیمان کے دونوں باغی اپنے کارکنوں اور فدائین کو یہ تاثر دیتے رہے کہ فوج ہمارے ساتھ ہے اور گوجرانوالہ پہنچنے تک حکومت کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ ہمارے خیال میں عسکری قیادت کو اِن مذموم کوششوں کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے کیونکہ ہماری فوج کے امیج کو بہت نقصان پہنچا ہے اور یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ فوجی کمان نے پارلیمنٹ ، وزیراعظم ہاؤس ،سول سیکرٹریٹ اور پی ٹی وی پر چڑھ دوڑنے والوں کو کھل کھیلنے کا موقع دیا ہے۔وہ عناصر جو فوج کا نام لے کر اپنے مذموم سیاسی مقاصد کو آگے بڑھا رہے ہیں اُن کی حوصلہ شکنی بہت ضروری ہو گئی ہے۔ حالات کا دھارا تبدیل ہوتا جا رہا ہے اور عمران خان کے پائوں کے نیچے سے زمین سرکتی جا رہی ہے کیونکہ اُن کی پارٹی تقسیم ہو گئی ہے۔ طاہر القادری لوگوں کے بچوں کو اذیت میں مبتلا کیے ہوئے ہیں اور اسلام آباد کو کربلا بنا دیا ہے۔ ساحری اب آخری دنوں پر ہے اور پارلیمان فتح یاب ہو کر اُبھری ہے۔ میں انا کے بت پاش پاش ہوتے اور اسلا م آباد کو لشکریوں کی گرفت سے آزاد ہوتا دیکھ رہا ہوں۔
تازہ ترین