• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز پاکستان گزشتہ تیئس دن سے ایک ایسے بحران کا شکار ہے کہ جس نے نہ صرف اہل پاکستان بلکہ پوری دنیا کے اندر پاکستان سے محبت رکھنے والوں کے اعصاب شل کر کے رکھ دیئے ہیں۔ اس بحران کے اسباب کیا ہیں اور یہ بحران کب ختم ہو گا؟ اس پر بہت ساری باتیں کی جا رہی ہیںلیکن اگر وقت اور حالات کے تناظر میں اس بحران کو دیکھیں تو اس میں ما سوائے پاکستان اور اہل پاکستان کو کمزور کرنے کے اور کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی۔13 اگست سے شروع ہونے والے اس بحران کا سبب وہ دو مارچ ہیں جو لاہور سے شروع ہو کر اسلام آباد پہنچے اور پھر اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل ہو کر انہوں نے پورے نظام حکومت پر رعشہ کی کیفیت طاری کر دی۔ یہ حکومت پاکستان کی کمزوری تھی یا شرافت ، جمہوریت پسندی تھی یا بے بسی کہ اسلام آباد کے حساس ترین علاقے میں بھی ان لوگوں کو داخل ہونے دیا گیا جو پولیس پر حملے کرنے اور اپنے ہی ساتھیوں کو واپسی کی صورت میں قتل کرنے کی باتیں کر رہے تھے اور پاکستان کے آئین اور دستور کو نہ ماننے کا اعلان کر رہے تھے ۔ ایک طرف ایک رہنما انقلاب کا دعویٰ کر رہا تھا اور دوسری طرف ایک رہنما آزادی کا، حالانکہ پاکستان 1947میں آزاد ہو گیا تھا اور پاکستان میں تبدیلی کا راستہ پاکستان کے آئین اور دستور نے پوری قوم کو دکھا دیا تھا لیکن ان آزادی اور انقلاب کے نعرے لگانے والوں کا ہدف نہ تو آزادی ہے نہ ہی انقلاب ،بلکہ وہ پاکستان میں چلنے والے موجودہ جمہوری اور آئینی نظام کو مفلوج کرنے کے درپے ہیں۔ان کا ہدف پاکستان کی پارلیمنٹ ، پاکستان کی موجودہ حکومت اور پاکستان کا آئین ہے ، آزادی مارچ کے قائد عمران خان کا بنیادی نعرہ تو انتخابی نظام میں اصلاحات کا تھا لیکن اسلام آباد پہنچ کر وہ اپنے اس نعرے کو بھول گئے اور انہوں نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا استعفیٰ اپنا ہدف بنا لیا ہے ۔ اسی طرح انقلاب مارچ کے قائد برطانوی شہری طاہر القادری بھی آخری اطلاعات موصول ہونے تک انقلاب اور تبدیلی کا نعرہ بھول کر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے استعفیٰ پر آ گئے ہیں۔جبکہ دوسری طرف پاکستان کی سیاسی قیادت نے انتہائی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کی اصلاح کے لئے نہ صرف مذاکرات ، مذاکرات اور مذاکرات کا راستہ اپنا یا بلکہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس بات کو واضح کر دیا کہ پاکستان چونسٹھ سال بعد اتنا بالغ ہو چکا ہے کہ اب فیصلے سازشوں اور جتھوں اور دھرنوں کے ذریعے نہیں عوام کی منتخب پارلیمنٹ کے ذریعے ہی ہوا کریں گے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ اگر حکومت چاہتی تو یہ مارچ اسلام آباد سے پہلے روکے جا سکتے تھے لیکن سیاسی زعما ء کی مشاورت کے بعد ان مارچوں کو اسلام آباد میں داخل ہونے دیا گیا اور پھر ان مارچوں کی قیادت نے پاکستان کا جو تماشہ پوری دنیا کو دکھانا شروع کیا ہے وہ کسی بھی پاکستانی کے لیے قابل قبول نہیں ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر چند ہزار کے جتھوں کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ انہوں نے پاکستان کا مستقبل طے کرنا ہے اور منتخب حکومت کو رخصت کرنا ہے تو پھر پاکستان ’’بنانا اسٹیٹ‘‘ سے بھی زیادہ بد تر حالت میں آ جائے گا۔ کیونکہ پاکستان میں چھوٹی سی چھوٹی سیاسی و مذہبی جماعت کے پاس بھی ان دونوں مارچوں سے زیادہ افراد موجود ہیںاور پاکستان میں مختلف الخیال اور مختلف نظاموں پر یقین رکھنے والی جماعتیں اور افراد موجود ہیں تو ہر دوسرے روز کوئی چند ہزار افراد کا جتھا اسلام آباد پہنچ جائے گا اور مطالبہ کر دے گا کہ اس کی مرضی کا نظام نافذ کیا جائے اور اس کی خواہشات کے مطابق حکومت عمل کرے جو کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ اسلام آباد میں بیٹھے ان دو مارچوں کے بلوائیوں نے پاکستان ٹیلی ویژن ، پاک سیکرٹیریٹ اور پارلیمنٹ پر جس طرح حملے کیے ہیں ، پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ریاست پاکستان ان جتھوں کے سامنے بے بس کیوں ہے یہ تو آنے والا وقت اور مؤرخ ہی بتائے گا۔لیکن جو بات ہر پاکستانی کے لیے لمحہ فکریہ ہے وہ ان جتھوں کی طرف سے ریاست پاکستان کی علامات پر حملہ کرنے والے مجرموں کی گرفتاری کے حوالے سے ہے اور ہر پاکستانی یہ سوال کرتا ہے کہ کیا یہ مجرمین گرفتار ہوں گے یا سیاسی مصلحتوں یا مفادات ان مجرموں کو ان کے جرم کی معافی دلوانے میں کامیاب ہو جائیں گے اس کا فیصلہ اگلے چند دنوں میں ہمیں نظر آ جائے گا۔
آزادی مارچ کے قائد عمران خان اگر صرف انتخابات کے نظام میں اصلاحات کا ایجنڈا ہی لے کر آگے بڑھتے اور اپنی جماعت کو طاہر القادری کی جماعت کے تابع نہ بنانے کی کوشش کرتے تو تاریخ میں ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جاتا کہ وہ پاکستان کے انتخابی نظام کی اصلاحات کے بانی ہیں اور انہوں نے پاکستان کی پارلیمنٹ میں اشرافیہ کی بجائے متوسط طبقے کی نمائندگی کے لئے راہ ہموار کی ہے اور یہ ان کی کامیابی ان کے وزیر اعظم بننے سے کہیں بڑی ہوتی لیکن افسوس کہ وہ طاہر القادری کے اس عالمی ایجنڈے کا دانستہ یا نا دانستہ طور پر حصہ بن گئے جس کا مقصد پاکستان میں صرف اور صرف انارکی پھیلانا ہے اور پاکستان کی ریاست کو دنیا کے سامنے بے بس بتانا ہے ۔ عمران خان کی جماعت کو پاکستان کے عوام نے ایک بڑی تعداد میں ووٹ دیئے ہیں جبکہ طاہر القادری کی جماعت ایسی کسی بھی عوامی حمایت سے محروم ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کو اس بحران سے نکالا جائے پاکستان کی پارلیمنٹ اس بارے میں کوئی مناسب فیصلہ کرے اور پاکستان کی ریاست اگلے ایک سے دو دن میں ان جتھوں سے اسلام آباد کو خالی کروانے کی طرف توجہ دے کیونکہ پاکستان کے ہر مشکل اور اچھے وقت کے ساتھی چین کے صدر کو پاکستان آنا ہے اور چین کے صدر کا پاکستان آنا پاکستان کے تمام طبقوں کے لیے انتہائی خوشی کی بات ہے اور اگر یہ جتھے اسلام آباد سے اگلے دو روز میں واپس نہ گئے تو پھر خدانخواستہ روس کے صدر کی طرح چین کے صدر کا دورہ بھی منسوخ نہ ہو جائے ۔ پاکستانی قوم کو یاد ہو گا کہ روس کے صدر کی آمد سے پہلے بھی یوم ناموس رسالت کے دن پورے ملک کے اندر بتیس لاشیں گرا کرپاکستان کی ریاست کے نظام کو مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس کی بنیاد پر روسی صدر کے سیکورٹی کے مشیر نے روسی صدر کی پاکستان آمد پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا خدا نہ کرے کہ چینی صدر کی آمد سے پہلے بھی اس طرح کی کیفیت ہو لیکن پاکستان کی سیاسی ، عسکری ، مذہبی قیادت کو یہ بات سوچنی ہو گی کہ مستقبل میں اگر اس طرح کے جتھے اسلام آباد کو ہائی جیک کر لیں تو ان کی پالیسی کیا ہو گی کیونکہ ریاست پاکستان صرف وزیر اعظم پاکستان کا نام نہیں ہے وزیر اعظم چیف ایگزیکٹو ہیں جن کے احکامات تمام ریاست کے اداروں کے لیے حکم کا درجہ رکھتے ہیں اور آج جب ہم وزیر اعظم کی طرف دیکھتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے بلوائیوں اور سیاسی کارکنوں کے پیچھے ان نقشہ نویسوں کو پہچان چکے ہیں جنہوں نے بے دردی کے ساتھ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی نفرت میں بنائے جانے والے نقشے میں پاکستان کے مفادات کو بھی نقصان پہنچانے کا ہدف طے کیا ۔یہ جتھہ بندی کی سازش وزیر اعظم نواز شریف کے نہیں پاکستان کے خلاف ہے اور پاکستان کی پارلیمنٹ پاکستان کی عوام اور پاکستان کی عدلیہ اور افواج کو اس مہم جوئی کو ناکام بنانا ہے کیونکہ ریاست پاکستان کمزور ہو گی تو پورا پاکستان کمزور ہو گا۔ یہ کسی ایک فرد کی بات نہیں ، یہ وطن عزیز پاکستان کی سلامتی کی بات ہے جس کے تحفظ کے لیے ہم سب نے قسم کھا رکھی ہے۔
تازہ ترین