• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
27 فروری 1933ء کو جرمنی کی پارلیمنٹ ’’ ریشتاغ ‘‘ ( Reichstag ) کی عمارت پر حملہ ہوا ۔ عمارت کو لگنے والی آگ پھیلنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ نے پوری عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔اسلام آباد کی ایک بڑی یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ممتاز دانشور مشتاق گاڈی نے پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں جرمن پارلیمنٹ پر حملے کا حوالہ دیتے ہوئے بجا طور پر ٹھیک کہا ہے کہ اس حملے نے فسطائیت ( فاشزم ) کا راستہ کھول دیا تھا ۔ تاریخ نے یہ دیکھا کہ جرمن پارلیمنٹ کو لگنے والی آگ نے فاشزم کی صورت میں نہ صرف جرمنی بلکہ پوری دنیا میں تباہی پھیلا دی تھی ۔ جائے واردات سے ’’ میری نس وانڈرلیوبے ‘‘ نامی نوجوان کو گرفتار کیا گیا تھا ۔ لیوبے کو بعد ازاں موت کی سزا دی گئی تھی ۔ یہ نوجوان جرمنی کے محنت کشوں کی حالت زار پر احتجاج کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی عمارت میں آیا تھا ۔ اس کے بارے میں جرمنی کی نازی پارٹی نے یہ پروپیگنڈا کیا تھا کہ وہ کمیونسٹ پارٹی کا کارکن ہے اور پارلیمنٹ پر حملے کی منصوبہ بندی ’’ کمیونسٹ انٹرنیشنل ‘‘ نے کی تھی ۔ تحقیقات سے یہ پروپیگنڈا غلط ثابت ہوا اور پتہ چلا کہ پارلیمنٹ کی عمارت کو آگ لگانے کی منصوبہ بندی خود نازیوں نے کی تھی ۔ اس حملے سے چار ہفتے پہلے ایڈولف ہٹلر نے جرمنی کے چانسلر کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا ۔ حملے کو بنیاد بنا کر ہٹلر نےبطور چانسلر جرمنی کے صدر سے کہا کہ ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی جائے اور شہری آزادیاں معطل کر دی جائیں ۔ ہٹلر کا مؤقف یہ تھا کہ جرمنی کو کمیونسٹوں سے خطرہ ہے ۔ جرمن صدر نے اس سفارش پر عمل کیا اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ۔ اس صورت حال میں پارلیمنٹ کمزور ہوئی اور نہ صرف نازی بلکہ ان کی فسطائی سوچ مضبوط ہوئی ۔ جرمنی سمیت پوری دنیا نے فسطائیت کی تباہ کاریوں کا سامنا کیا ۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد جرمنی کے ٹکڑے ہو گئے ۔ ٹکڑے ہونے سے پہلے جرمنی کی سرزمین خون کا غسل لے چکی تھی ۔ ایک حصہ مغربی جرمنی کی صورت میں نیا ملک بنا ، جس نے اپنا نیا آئین بنایا اور آئین کا پہلا فقرہ یہ تھا کہ ’’ اب آمریت کبھی نہیں ‘‘ ۔
یہ واقعہ اس وقت یاد آیا ، جب 30 اور 31 اگست 2014ء کی درمیانی شب پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے قائدین عمران خان اور طاہر القادری کے حکم پر مظاہرین اسلام آباد میں پارلیمنٹ کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے اور پارلیمنٹ کے جنگلے توڑ رہے تھے ۔ پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والے جذبات سے عاری اور ’’ روبوٹ ‘‘ لگ رہے تھے ۔ ان میں سے کوئی بھی ’’ لیوبے ‘‘ نہیں تھا کیونکہ لیوبے نے تو حملہ کیا ہی نہیں تھا ۔ پاکستانی پارلیمنٹ پر حملے کے مناظر دیکھتے ہوئے جرمن پارلیمنٹ پر حملے کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ کے اقتباسات ذہن میں آ رہے تھے اور یہ بات سمجھ میں آ رہی تھی کہ نازیوں نے پارلیمنٹ پر حملے کی منصوبہ بندی کیوں کی تھی ۔ پارلیمنٹ موجود اور موثر ہو تو آمریت ، فاشزم یا نازی ازم کی گنجائش نہیں بنتی ۔ یہ فاشزم کیا ہوتا ہے ؟ یہ ایک ایسا رویہ ہے ، جو آمرانہ ذہنیت رکھنے والے کسی شخص میں پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہی ساری دنیا کو ٹھیک کر سکتا ہے ۔ ٹھیک صرف وہی ہے ، جسے صرف وہ ٹھیک سمجھتا ہے ۔ وہ اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتا ہے ۔ ایسا شخص کسی نسلی یا طبقاتی گروہ کے تعصبات کو بھڑکا کر مقبولیت حاصل کرتا ہے اور اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے پہلا حملہ سسٹم پر کرتا ہے ۔ جوں جوں اسلام آباد میں مظاہرین پارلیمنٹ ہاؤس اور ایوان وزیر اعظم کی طرف بڑھ رہے تھے اور ٹی وی چینلز کی اسکرین پر ’’ آزادی و انقلاب ‘‘ کے داعی عمران خان اور طاہر القادری کے تکرار پر مبنی خطابات نشر کیے جا رہے تھے ، ذہن کے پردے پر تاریخ کے کچھ مناظر دوڑ رہے تھے ۔ جرمنی کا ہٹلر لاکھوں کے اجتماع سے جذباتی خطاب کر رہا تھا اور اجتماع کے جوش سے زمین پر لرزہ طاری تھا ۔ اٹلی کا مسولینی اپنے ہاتھوں سے انسانوں کے سمندر میں طلاطم پیدا کر رہا تھا ۔ اسپین کا فرانسسکو فرانکو جم غفیر کو ’’ کرپٹ جمہوریت پسندوں ‘‘ کے گھروں پر حملوں کے احکامات جاری کر رہا تھا ۔ ہنگری کا ایڈمرل میکلوس ہورتھی جمہوریت کو ناکام نظام قرار دینے کے دلائل دے کر انسانی ہجوم کی تالیوں سے داد وصول کر رہا تھا ۔ پاکستانی پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والے لوگوں کی تعداد اگرچہ بہت زیادہ نہیں تھی لیکن کچھ لوگ اسے بہت زیادہ قرار دے رہے تھے ۔ شاید ان کا اسکیل یہ تھا کہ ایک کو 100 تصور کیا جائے ۔
کرپشن اور انتخابات میں دھاندلی ، دو ایسے الزامات ہیں ، جن کی بنیاد پر پارلیمنٹ پر حملہ کیا جا رہا تھا ۔ ان الزامات کی بنیاد پر پہلے بھی جمہوریت کو لپیٹا گیا تھا اور آئین کو منسوخ کیا گیا تھا ۔ 1977ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کو جواز بنا کر اس وقت کے عمران خانوں اور قادریوں سے تحریک چلوائی گئی اور پاکستان کی تاریخ کی بدترین آمریت نافذ کی گئی ۔ اس کے بعد پاکستان میں کبھی بھی شفاف انتخابات نہیں ہو سکے ۔ 1977ء کی تحریک سے پیدا ہونے والے فسطائی رویوں سے آج تک چھٹکارا حاصل نہیں ہو سکا ہے ۔ جہاں تک کرپشن کا سوال ہے ، احتساب کے نام پر بھی کئی مرتبہ اسمبلیوں کو تحلیل اور جمہوری حکومتوں کو برطرف کیا گیا ، آئین کو منسوخ یا معطل کیا گیا اور سیاست دانوں کو نا اہل قرار دے کر جیلوں میں ڈالا گیا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی کرپشن کے خاتمے کے نام پر جمہوریت کو روکنے کا ایک نظام وضع کر لیا گیا تھا ۔ 1949ء میں پبلک اینڈ ری پریزینٹیٹو آفسز ڈس کوالیفکیشن ایکٹ ( پروڈا ) نافذ کیا گیا ، جس کے تحت تحریک پاکستان میں اپنا تن ، من ، دھن قربان کرنے والے ان محترم سیاست دانوں کو کرپٹ قرار دیا گیا ، جن کی دیانت داری کی آسمان بھی قسمیں کھاتا تھا ۔ پروڈا کے ذریعہ پاکستان کی حقیقی سیاسی قیادت کو احتساب کے نام پر ختم کر دیا گیا ۔ اسی طرح 1958ء میں منتخب اداروں کی نااہلی کا آرڈی ننس ( ایبڈو ) نافذ ہوا ۔ اس کے تحت 7 ہزار سیاست دانوں کو ’’ کرپشن ‘‘ کی بنیاد پر نا اہل قرار دیا گیا اور ان کے سیاست کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ۔ یہ احتساب کے نام پر سیاست دانوں کا صفایا کرنے کا دوسرا مرحلہ تھا ۔ تیسرا اور چوتھا مرحلہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ ادوار میں مکمل ہوا ۔ دنیا کی تاریخ میں کسی بھی ملک میںسیاست دانوں کا اتنا احتساب نہیں ہوا ، جتنا پاکستان میں ہوا ۔ اس وقت بھی پارلیمنٹ میں جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ، ان میں سے بھی کم از کم 95 فیصد لوگ جیلوں میں وقت گذار کر آئے ہیں ۔ جب پروڈا ، پوڈو اور ایبڈو کے ذریعہ حقیقی اور دیانت دار قومی قیادت کا احتساب کیا جا رہا تھا ، اس وقت تاریخ انسانی کی بدترین لوٹ مار ہو رہی تھی ۔ اس کے بعدسے کرپشن کے نام پر احتساب کا نعرہ تب لگایا جاتا ہے ، جب مقصد یہ ہو کہ پاکستان میں جمہوریت نافذ نہ ہونے دی جائے ، حقیقی سیاسی قیادت کا خاتمہ کرکے حاشیہ بردار سیاسی قیادت پیدا کی جائے اور کرپشن کے خلاف احتساب کا نظام کبھی نہ بننے دیا جائے ۔ احتساب کاموجودہ نعرہ بھی اسی مخصوص نسلی اور طبقاتی گروہ کی متعصبانہ سوچ کا مظہر ہے ۔ انہیں یہ نظر نہیں آتا کہ آمروں اور ان کے حاشیہ برداروں نے کس قدر لوٹ مار کی ۔ انہیں یہ بھی نظر نہیں آتا کہ کرپشن صرف حکومت میں نہیں ہوتی بلکہ کسی ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے میں بھی بڑی سرمایہ کاری ہوتی ہے ۔یہ لوگ ان عناصر کو احتساب سے بچانا چاہتے ہیں ، جن کا کبھی احتساب نہیں ہوا ۔ ان کا آج بھی مقصد کرپشن کا خاتمہ اور شفاف انتخابات نہیں ہے ۔ سلام ہے پاکستان کی پارلیمنٹ اور سیاست دانوں کو ، جنہوں نے پہلی دفعہ اتحاد اور جرات کا مظاہرہ کرکے نہ صرف آمریت بلکہ فاشزم کا بھی راستہ روک دیا ہے اوریہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ 1933ء نہیں ہے اب ریشتاغ کو آگ لگانا آسان نہیں رہا۔
تازہ ترین