• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کابل کے لئے پاکستان کی حکومت اور عوام کے تمام تر جذبہ خیرسگالی کے باوجود سرحد کی دوسری جانب سے آئے روز تعجب خیز سرگرمیوں کا سامنے آنا تشویشناک ہے۔ جمعرات 18؍اگست کو پاکستانی صوبے بلوچستان سے ملنے والی افغان سرحد پر ایک ہجوم نے پاکستانی پرچم کی توہین کی اور ’’ دوستی گیٹ‘‘ پر پتھرائو کر کے ایسی صورت حال پیدا کردی جس کے باعث پاکستانی حکام کو دوطرفہ آمد و رفت معطل کرنا پڑی جس سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور نیٹو سپلائی سمیت مال برداری اور تجارت کی سرگرمیاں رک گئیں اوردونوں اطراف مال بردار گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ اس باب میں اتوار تک کئی پاک افغان فلیگ میٹنگز ہوچکی ہیں اور یہ سلسلہ پیر کو بھی جاری رہا۔ پاکستانی حکام کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سمیت ضروری اشیاء کی آمد و رفت میں کوئی رکاوٹ نہ پڑے کیونکہ اس میں خوراک سے متعلق اشیاء بھی شامل ہوتی ہیں۔ اسی لئے پاکستان کا رجحان معاملات کو جلد سلجھانے کا ہوتا ہے۔ مگراس کے لئے کابل حکومت کو بھی خیر سگالی کا مظاہرہ کرنا، پاکستانی پرچم کی توہین پر معذرت کرنا اور نقصانات کا ازالہ کرنا ہوگا۔ آمد و رفت کے قوانین کو صرف پاکستانیوں پر لاگو کرنے اور افغانستان کی طرف سے ہر قسم کے آنے والوں کو مستثنیٰ کرنے کا رویہ کسی طور درست نہیں۔ اس لئے سرحدی گیٹ پر چیکنگ اور ضابطے کی کارروائی کی پاسداری سب کے لئے ضروری ہے تاکہ منشیات کی نقل و حمل کرنے والوں سمیت ناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث عناصر کی امکان بھر روک تھام کی جاسکے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں، جب دوسرے ممالک سے لوگ آتے ہیں تو انہیں شناختی کاغذات کے معائنے اور اجازت نامے سمیت ضابطے کی کارروائیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ افغان بھائیوں کی اکثریت بھی، جن کے دکھ سکھ میں شرکت کا عملی مظاہرہ پاکستان نے تین دہائیوں سے زیادہ عرصے تک تیس لاکھ سے زیادہ مہاجرین کی میزبانی کی صورت میں کیا ہے، متعلقہ قوانین اور ضابطوں کی پابندی کے سلسلے میں پاکستانی حکام سے تعاون کرنا چاہتے ہیں مگر خاد کے ایجنٹوں اور اسمگلروں سمیت بعض شرپسند عناصر مختلف شوشے چھوڑ کر اشتعال کی آگ بھڑکانے اور دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان تلخیاں پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ جب بھی بھارت کی طرف سے پاکستانی سرحدوں پر اشتعال انگیزی کی جاتی ہے یا مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا کوئی پاکستان مخالف پروپیگنڈہ مہم شروع کی جاتی ہے، افغانستان کی طرف سے لشکروں کے حملوں، پاکستانی سفارت خانے پر حملے اور مختلف حیلوں بہانوں سے پاکستانی مزدوروں اور ٹرک ڈرائیوروں پر تشدد کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کابل حکومت اور وہاں کی مقتدر قوتوں کی طرف سےپاکستان کو مختلف الزامات کا ہدف بناکر وقتاً فوقتاً افغان طالبان سمیت انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جاتا ہے مگر جب پاکستان اس باب میں ٹھوس اقدامات کرتا ہے تو کابل کی طرف سے عدم تعاون کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اب پاکستان نے چمن اور طورخم پر گیٹ تعمیر کرکے چیک پوسٹوں کو مزید موثر بنایا ہے، سفری دستاویزات لازمی قرار دی ہیں اور 16اگست سے خیبر ایجنسی کے بلند و بالا پہاڑی سلسلے کے درمیان ہر موسم میں استعمال ہونے والے دروں کی نگرانی کے لئے مزید زمینی فوج اور فضائیہ کے ذریعے کارروائی شروع کی ہے تو جیسے جیسے خیبر ایجنسی سے دہشت گردوں کی ہلاکت اور ان کے خفیہ ٹھکانے تباہ ہونے کی اطلاعات آرہی ہیں ویسے ویسے ہی اس باب میں افغانستان کی طرف سے مزاحمت سامنے آرہی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھارت اور افغانستان کے جاسوسوں کی گرفتاریاں بھی کئی کہانیاں سنا رہی ہیں۔ کابل حکومت کو یہ سمجھنا چاہئے کہ پاکستان اور افغانستان کی سلامتی کے تقاضے مشترک ہیں اور اس باب میں کابل کو مطالبات کے انبار لگانے یا مشکلات کے پہاڑ کھڑے کرنے کی بجائے پاکستانی کوششوں میں تعاون کرنا چاہئے۔

.
تازہ ترین