• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بظاہر یوں لگتا ہے کہ اسلام آباد میں جاری دو دھرنے ، جو عملاً ایک دھرنا بن چکے ہیں ، کسی بھی وقت اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہ کالم آپ کی نظروں کے سامنے آنے تک دھرنے کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ چکا ہو۔ دھرنوں کے حوالے سے بہت سی باتیں ہوتی رہیں گی۔ حکومت بھی ضرور سوچے گی کہ اس کی کونسی کمزوریاں اور کوتاہیاں صرف 14ماہ بعد اسے اس موڑ تک لے آئیں۔ حکومت کو اپنی اصلاح احوال کے لیے بہت سے دور رس اقدام کرنا پڑیں گے۔ اپنی گورننس ، نظام مشاورت اور فیصلہ سازی کو بہتر بنانا ہو گا۔غالبا اسے پولیس کی تنظیم نو اور اصلاحات کیلئے بھی کوئی منصوبہ بنانا پڑے گا۔خاص طور پرکار کردگی بہتر بناکرعوام الناس کے مسائل کوفوری حل کرنے کی جانب توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔
اس کیساتھ ساتھ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی بہت کچھ سوچنا ہو گا۔ قادری صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کبھی ہماری سیاست کا اہم کردار نہیں رہے۔ وہ صرف پرویز مشرف کے دور میں قومی اسمبلی کے رکن بنے اور تھوڑے ہی عرصے بعد استعفیٰ دے کر باہر چلے گئے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی اسلام آباد میں چار روز تک ایک بڑا دھرنا دینے کے با وجود وہ کچھ حاصل نہ کر سکے اور بظاہر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ اس بار بھی کوئی مال غنیمت انکے ہاتھ نہیں لگے گا۔
البتہ تحریک انصاف کی قیادت کو بہت کچھ سوچنا پڑے گا۔ ملکی سیاست میں عمران خان امید کی ایک کرن بن کر ابھرے تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن )کی روائیتی حکومتوں سے پریشان لوگ عمران خان کو ایک مسیحا کے طور پر دیکھنے لگے۔ خاص طور پر پاکستان کے پڑھے لکھے نو جوانوں نے انہیں مستقبل کا معمار خیال کیا۔ اسی طرح انہیں خواتین کے بڑے حلقے کی حمایت حاصل ہوئی۔ سمندر پار پاکستانیوں نے بھی ان سے کافی امیدیں لگائیں اور ان کی انتخابی مہم کیلئے وافر سرمایہ بھی فراہم کیا۔ عمران خان نے ہماری انتخابی تاریخ کی سب سے زور دار مہم چلائی۔ انہیں خاطر خواہ کامیابی بھی ملی۔
ان کی جماعت ،مسلم لیگ (ن )کے بعد سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت کے طور پر ابھری۔ انہیں قومی اسمبلی میں 35 کے لگ بھگ سیٹیں ملیں۔ خیبر پختونخوا میں بھی وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ عملاً یہ تحریک انصاف کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ عمران خان نہایت ہوشمندی کے ساتھ اس کامیابی کو سنبھالتے ۔ خیبر پختونخوا میں مثالی حکومت کا نقشہ پیش کرتے۔ وفاقی حکومت کی کارکردگی کی کڑی گرفت کرتے اور حقیقی معنوں میں مستقبل کے بڑے رہنما کے طور پر ابھرتے ۔ سیاست پر نگاہ رکھنے والوں کا خیال ہے کہ عمران خان ٹھوکر کھا گئے اور انہوں نے اپنی ذات اور جماعت کے امکانات کا راستہ بڑی حد تک بند کر دیا۔ سو سب سے زیادہ سوچ بچار بھی انہی کو کرنا ہوگی۔ کیونکہ ان دھرنوں میں اگر کوئی شخص خسارے میں رہا تو وہ صرف عمران خان ہے۔
عمران خان نے دھاندلی کی تحقیقات اور انتخابی اصلاحات کے قابل تائید مطالبات کیساتھ لانگ مارچ کا آغاز کیا۔ درحقیقت ان کے دباو ہی کے باعث حکومت اس قدرلچکدار طرز عمل اختیار کرنے پر مجبور ہوئی۔ انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی اور سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل کمیشن کا قیام معمولی اقدا مات نہیں ہیں۔ مزید براں عمران خان کے خدشات کے تناظر میں حکومت نے نادرا اور ایف آئی اے کے سر براہان سمیت سیکرٹری الیکشن کمیشن کا تقرر بھی عمران خان کی صوابدید پرچھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ اصلاحاتی کمیٹی کی سر براہی عمران خان کو سونپنے پر آمادگی کا عندیہ دیا۔حکمت اور دانشمندی کا تقاضا یہ تھا کہ عمران خان اسے اپنی کامیابی گردانتے ہوئے واپسی کا اعلان کرتے۔تاہم وہ وزیر اعظم کے استعفیٰ کے مطالبہ پر ڈٹے رہے ۔ افسوسناک امر ہے کہ 75لاکھ ووٹوں کی حامل جماعت کا سر براہ ایک ایسے شخص کا ہم نوابن گیا ہے ، جس کی اس پارلیمان میں کوئی نمائندگی نہیںاور وہ اس نظام کو تہہ و بالا کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ اپنی ضد کے ہاتھوں عمران خان نے اپنی ذات اور جماعت کو بے حد نقصان پہنچایا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ 14اگست کو لانگ مارچ کی قیادت کرتا ہوا جو عمران خان اسلام آباد پہنچا تھا۔ اب اس کا قد خاصا چھوٹا ہو گیا ہے۔مزید براں ان کی جماعت کو جمہوری وقار اور آبرو دینے والا ایک شخص جاوید ہاشمی واپسی کے سفر میں انکے ساتھ نہیں ہو گا۔
صورتحال یہ ہے کہ ان دھرنوں کے باعث گزشتہ تین ہفتوں سے اسلام آباد کے شہری گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں ۔ تعلیمی ادارے بند ہونے سے سینکڑوں طلباء کا حرج ہو رہاہے۔ کاروبار ٹھپ ہیں۔سرمایہ کاری رک چکی ہے۔اسٹاک ایکسچینج کئی پوائنٹ نیچے کی جانب لڑھک چکی ہے۔ معیشت کو تقریباً ایک ہزار ارب روپے کا نقصان ہو چکاہے،۔ڈالر کی قیمت بڑھ چکی ہے ۔ واضح رہے کہ ڈالر کی قیمت ایک روپے بڑھتی ہے تو ملک کے قرضوں میں 60 ارب روپے کا اضافہ ہو جا تا ہے۔
افسوسناک صورتحال ہو گی اگر ان دھرنوں کی وجہ سے چین کے صدر بھارت تو جائیں مگر پاکستان نہ آ پائیں اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے دھرے رہ جائیں۔ یہ مالی نقصان توکسی نہ کسی صورت پورا ہو ہی جائے گا ۔ مگر ان دو جماعتوں کے قائدین کی وجہ سے پاکستان کا عالمی تشخص مجروح ہوا اور بیرونی دنیا میں ہماری ساکھ متاثر ہوئی ہے اس کی تلافی کون کرے گا؟ایک جانب شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب جاری ہے اور دنیا کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ ہم اپنے ملک سے انتہا پسندوں کا خا تمہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں ۔ دوسری جانب جو کچھ شاہراہ دستور پر آزادی اور انقلاب کے نام پر کیا گیا اس سے پوری دنیا میں بطور پاکستانی ہمارا انتہائی منفی اور انتہا پسندانہ امیج ابھرا ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کے شہری کس طرح ڈنڈے ، غلیلیں ، پتھر ، کٹر ، پلاس اور کدالیں اٹھائے اپنے ہی ملک کی سڑکیں کھودتے اور فٹ پاتھ توڑتے رہے۔ سپریم کورٹ کا راستہ روکے رہے۔ ایوان صدر ، ایوان وزیر اعظم کے دروازے توڑنے کی کوششوں میں مصروف ، داخلی راستوں پر قابض رہے۔ پارلیمنٹ کا دروازہ توڑ کر احاطے میں خیمہ بستی بسائے رہے۔پی ٹی وی پر حملہ آور ہونے ، تا ریں کا ٹنے ، توڑ پھوڑ کرنے، خواتین کو ہر اساں کرنے اور نشریات معطل کر نے کے مرتکب ہوئے۔
عمران خان سبز پاسپورٹ کی عزت کی بحالی کے دعویدار رہے ہیں۔ تاہم یہ کا ر کردگی قوم اور سبز پاسپورٹ کی توقیرمیں بے حدکمی کا باعث بنی۔ 9/11کے بعد سے پاکستانی شہریوں کو بیرون ملک جانے ، ویزے حاصل کرنے ، تعلیمی اداروں میں داخلے لینے اورنو کریاں تلاش کرنے میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ واقعات اس صورتحال میں مزید پیچیدگی کا باعث ہو نگے۔ وہ 10ڈاوننگ ا سٹریٹ اور وائٹ ہائوس کے سامنے دھرنوں اور احتجاج کا اکثر حوالہ دیتے ہیں۔تاہم وہ اس بات کا ذکر نہیں کرتے کہ وہاں یہ احتجاج پر امن ہوتے ہیں نہ کہ کرینوں ، ٹرکوں ، غلیلوں،ڈنڈوں اور کدالوں سے مسلح ہو کر۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ اس سیاسی جھگڑے میںمعتبر اداروں کی ساکھ کو بھی متاثرکرنے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ مجبورا آئی ایس پی آر اور چیف جسٹس کو وضاحتی بیان جاری کرنا پڑے۔ایک انتہائی تشویشناک امر یہ ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے آغاز سے اب تک طالبان کی جانب سے مکمل خاموشی تھی۔ تا ہم اب پہلی بار طالبان کے سر براہ ملا فضل اللہ کا بیان سامنے آیا ہے کہ ہمیں تو معلوم ہی نہ تھا کہ محض بیس پچیس ہزار افراد لا کر اسلام آباد پر قبضہ کیا جا سکتا ہے۔افسوس کہ ان دو قائدین کا طرز عمل انتہا پسندوں کی تقویت کا باعث بنا۔ عمران خان اور طاہر القادری نے اپنے طرز احتجاج سے حکومت کو نقصان پہنچایا یا نہیں ، البتہ ریاست اور اس کی ساکھ کو کاری ضرب ضرور لگائی ہے اور ان داخلی اور خارجی دشمنوں کوفائدہ پہنچایا ہے جو پاکستان کے استحکام اور اداروں کی ساکھ کے درپے ہیں۔ اس نقصان کی تلافی کون کرے گا؟ عمران خان اور طاہر القادری کو قوم کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔
تازہ ترین