• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بدعنوانی سے متعلق ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان دنیاکے بدعنوان ترین ممالک کی فہرذست میں اپنی گزشتہ سال کی 34ویں پوزیشن میں8 درجے بہتری لاتے ہوئے 42ویں درجے پر آگیا ہے، اس طرح گزشتہ 3 برسوں میں پاکستان بدعنوانی کی نئی بلندیوں پرپہنچا۔ واضح رہے کہ 2008ء میں پاکستان دنیا کا 47واں بدعنوان ترین ملک تھا، 2009ء میں رینکنگ بڑھ کر 42 تک پہنچ گئی تھی جبکہ 2010ء میں کرپشن بڑھنے کے باعث پاکستان دنیا کا 34واں بدعنوان ترین ملک بن گیا تھا تاہم 2011ء میں کرپشن میں کمی آئی اور پاکستان دوبارہ 2009ء کی سطح پر آگیا۔ حالیہ سروے میں پاکستان نے Perceptions Corruption Index کے 10 پوائنٹس میں سے 2.5 حاصل کئے ہیں جس کی بنیاد پر پاکستان کو اب دنیا کے 183 ممالک میں 42 واں بدعنوان ملک قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں صومالیہ اور عراق کو دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں شمار کیا گیا ہے جبکہ ڈنمارک، نیوزی لینڈ اور سوئیڈن میں کرپشن کی شرح سب سے کم بتائی گئی ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل دنیا بھر میں کرپشن اور بدعنوانی کی فہرست مرتب کرتے وقت مختلف ممالک کو اُن کے حکومتی نظام اور کرپشن کے لحاظ سے ایک سے دس کے پیمانے پر جانچتا ہے، اس پیمانے پر سب سے کم نمبر لینے والے ملک کو دنیا کا کرپٹ ترین جبکہ سب سے زیادہ نمبر لینے والے ملک کو شفاف ترین ملک قرار دیا جاتا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں پاکستان اور بنگلہ دیش میں بدعنوانی کے تقابلی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ 2000ء کے اوائل میں بنگلہ دیش دنیا میں سب سے زیادہ بدعنوان ملک سمجھا جاتا تھا مگر حکومتی اقدامات کے نتیجے میں اب وہاں کچھ بہتری دیکھنے میں آرہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کرپشن میں پاکستان کی پوزیشن میں بہتری موجودہ حکومت کی کوششوں کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کا تمام تر سہرا آزاد عدلیہ، پبلک اکاونٹس کمیٹی، وفاقی ٹیکس و بینکنگ محتسب، احتساب بیورو، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن جیسے اداروں کو جاتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ10 سالوں کے دوران پاکستان میں کرپشن میں بے انتہا اضافہ ہوا جبکہ اس کے برعکس پڑوسی ملک بھارت میں کرپشن میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری اور ترقی میں رکاوٹ کی بنیادی وجہ کرپشن ہے جس کے باعث غربت اور مفلسی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں کرپشن کے باعث توانائی سمیت کئی اہم ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر کے باعث ان کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہورہا ہے۔ واضح رہے کہ عالمی بینک اور پاکستان منصوبہ بندی کمیشن نے فروری 2008ء کی ایک رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ پاکستان کے ترقیاتی بجٹ کا 15% پروکیورمنٹ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔
کرپشن کی روک تھام اور دیگر عوامی شکایتوں کے ازالے کے لئے دنیا بھر میں حکومت اور پارلیمنٹ آئین کے تحت وفاقی اور صوبائی سطحوں پر محتسب یا پبلک ایڈووکیٹ تعینات کرتی ہیں جنہیں قانون کے مطابق آزادی اور مکمل اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ یہ محتسب یا پبلک ایڈووکیٹ شہریوں کے مفاد میں حکومتی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں اور عوامی حقوق کی پامالیوں یا ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے سدباب کے لئے مختلف حکومتی اداروں سے تحقیقات کرواکے اُنہیں انصاف فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی وفاقی محتسب سلمان فاروقی مختلف حکومتی اداروں، وفاقی بینکنگ محتسب انیس موسوی بینکوں، وفاقی انشورنس محتسب اظہر علی فاروقی انشورنس اور وفاقی ٹیکس محتسب عبدالرئوف چوہدری ایف بی آر اور متعلقہ فیلڈ فارمیشن ڈپارٹمنٹس کی ٹیکسوں کے بارے میں شکایتیں سنتے ہیں۔ کاروباری طبقے جن کی زیادہ تر شکایتیں ایف بی آر اور متعلقہ اداروں سے ہوتی ہیں، کو FTO انتہائی شفافیت سے ترجیحی بنیادوں پر حل کررہا ہے۔
وفاقی ٹیکس محتسب اور وفاقی محتسب کا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد جبکہ چاروں صوبوں کے دارالحکومتوں میں صوبائی دفاتر قائم ہیں، اس کے علاوہ شکایت کنندگان کی سہولت کے لئے ملک کے تمام بڑے شہروں میں ریجنل دفاتر بھی قائم کئے گئے ہیں جبکہ وفاقی بینکنگ اور انشورنس محتسب کے ہیڈ کوارٹر کراچی میں قائم ہیں۔ وفاقی ٹیکس محتسب کا دائرہ کار اور طریقہ کار عدالتوں سے مختلف ہے۔ پاکستان کا کوئی بھی شہری جو کسی سرکاری محکمے، ادارے یا کسی افسر کے فیصلے، حکم یا کارروائی سے متاثر ہوا ہو، اپنی شکایت سادہ کاغذ پر لکھ کر وفاقی ٹیکس محتسب کو ارسال کرسکتا ہے جس کے لئے اُسے طویل پیشیوں اور وکیل کی بھاری فیس ادا کرنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آتی جبکہ فیصلہ بھی انتہائی کم وقت میں کردیا جاتا ہے اور اگر فیصلہ کسی فریق کے خلاف ہو تو اس کے خلاف صدر پاکستان کو اپیل کی جاسکتی ہے جسے صدر کے قانونی مشیر دیکھتے ہیں۔ حال ہی میں وفاقی ٹیکس محتسب کی بہتر کارکردگی اور اختیارات کے بھرپور استعمال کے باعث ادارے پر لوگوں کا اعتماد بڑھا ہے، اس کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں کو بھی اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ اب وہ بھی کسی کو جوابدہ ہیں، اس لئے سرکاری اداروں کے حکام کو کسی کے خلاف کارروائی یا فیصلہ کرتے وقت اس بات کا خوف لاحق رہتا ہے کہ کہیں اُن کے غلط فیصلے کا معاملہ محتسب تک نہ پہنچ جائے کیونکہ محتسب کسی بھی محکمے کے افسر یا اہلکار کے خلاف کارروائی کرکے اُن کے غلط فیصلے کو تبدیل کرسکتا ہے۔ حال ہی میں وفاقی محتسب نے بیان جاری کیا ہے کہ انہوں نے صرف 9 ماہ کے دوران لوگوں کی ایک لاکھ سے زائد شکایتیں نمٹائی ہیں جو ایک ریکارڈ ہے جس پر میں وفاقی محتسب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
موجودہ وفاقی ٹیکس محتسب عبدالرئوف چوہدری انتہائی ایماندار اور فرض شناس افسر ہیں۔ ان کا شمار سینئر اور تجربہ کار بیورو کریٹس میں ہوتا ہے۔ عبدالرئوف چوہدری ٹیکس محتسب بننے سے قبل مختلف محکموں میں وفاقی سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ حال ہی میں وہ ایف بی آر ایمنسٹی اسکیم کے تحت کسٹمز سے کلیئر کرائی جانے والی اسمگل شدہ گاڑیوں کے کیس میں ایف بی آر کی ایمنسٹی اسکیم کو غیر قانونی قرار دے چکے ہیں جبکہ انہوں نے تاجروں اور صنعتکاروں کی شکایتوں کے ازالے اور ان کے مسائل کے حل کے لئے بھی کئی اقدامات کئے ہیں۔ وفاقی ٹیکس محتسب عبدالرئوف چوہدری اور اُن کی ٹیم کے اراکین نے ایف بی آر کے کچھ ایسے نوٹیفکیشن بھی کالعدم قرار دیئے جو آئین سے متصادم تھے ، ان کے اس اقدام کو تاجر برادری کی تمام ایسوسی ایشنز نے نہایت سراہا ہے۔ اسی طرح سابق وفاقی ٹیکس محتسب شعیب سڈل کی خدمات بھی قابل قدر ہیں جنہوں نے نیٹو کنٹینرز اسکینڈل کی تحقیقات میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا جبکہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو غیر قانونی اور کالا دھن، سفید دھن میں تبدیل کرنے کا ذریعہ قرار دیا تھا۔
پاکستان نے کرپشن کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کی توثیق کر رکھی ہے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک سے کرپشن جیسی لعنت کے خاتمے کے لئے وفاقی ٹیکس محتسب جیسے مزید ادارے قائم کئے جائیں تاکہ پاکستان کا شمار دنیا کے بدعنوان ترین ممالک میں نہ کیا جاسکے۔ حکومت سے درخواست ہے کہ وہ ملک میں وفاقی ٹیکس محتسب جیسے اداروں کی حوصلہ افزائی کرے اور حکومتی اداروں کو پابند کرے کہ وہ وفاقی ٹیکس محتسب کی ہدایت پر فوری عمل کریں تاکہ عوام کو حقیقی معنوں میں سستا اور فوری انصاف مل سکے۔
تازہ ترین