• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گلی گلی میں شور ہے، ریاست اور سیاست میں دم نہیں، پھر سیاستدان ناکام ہوگئے مگر سوچنے کی بات ہے کہ آج ہم جن مشکلات کا شکار ہیں ان سب کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا کامیاب و کامران اشرافیہ اور سیاستدان اس بدانتظامی، بدامنی، بد،معاشی کی ذمہ دارنہیں، جو ناکام و نامراد ہیں وہ تو بے چارے عوام ہیں اور پھر ان میں بھی تقسیم ہے۔ دھرنے اور دھونس دینے والوں کا ساتھ دینے والے عوام ناکام اور مایوس۔
اشرافیہ اور جمہوریت کا علم بلند کرنے والے لوگ بھی نامراد۔ دونوں کی قسمت کھوٹی ہے، مقدر میں ناکامی ہو یا نامرادی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور پھر ایسا سکہ جو ہما رے ہاں چلتا بھی بہت ہے مگر اس کی قیمت کوئی نہیں اور اس کی قسمت ایسی کہ اشرافیہ کی ہاتھ کی میل۔ پھر دیس کتنے دنوں سے تبدیلی اور انقلاب کی چاپ اور منتر کا جاپ دیکھ اور سن رہا ہے، کئی روز سے تماشہ اہل کرم دیکھ رہے ہیں، کھیل ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ نعرے لگتے ہیں، دھرنا ہوگا ،دھرنا ہوگا یا پھر مرنا ہوگا اور ایسے میں صاحب کشف لوگ، آخری غسل کرتے ہیں ، پھر کفن کا انتظام اور شہادت کا اہتمام کرنے کا ذکر ہوتا ہے، جنتا کے جذبات سے کھیلتے ہوئے اور بھرائی ہوئی آواز میں جنت کی بشارت دیتے ہوئے کہ شور و غل میں خبر آتی ہے ، نہیں ابھی نہیں، کھیل اور ریاضت ابھی جاری رکھنی ہے۔ اتنی جلدی مناسب نہیں، موت زندگی کی حفاظت کرتی ہے، موت کا ذکر کیا، شہادت کا ارادہ کیا، تو زندگی کی نوید ملی۔دونوں طرف کے لوگ جمہور کے لئے نہیں مگر جمہوریت کے لئے مارنے ،مرنے اور جینے کے لئے ہر دم تیار۔ ایسے میں دوست اور حلیف دونوں پر مہربان ہوئے، رابطے شروع ہوئے مگر کسی فریق کے پاس کوئی ضابطہ نہیں تھا۔
ہمارے بڑے بڑےنیتا اہم معاملات میں ہمیشہ مصروف عمل رہتے ہیں۔ سابق صدر اور پیپلز پا رٹی کے راکھیل جناب آصف علی زرداری کو خیال آیا کہ دھرنے والے لوگ تو دھاندلی پر شور مچارہے ہیں، ان میں ا نقلابی بھی ہیں۔ انقلاب جو کبھی پیپلز پارٹی کا نعرہ مستانہ تھا پھر بی بی کی شہادت کے بعد انقلابی نعرہ اور لوگ متروک ہوئے۔ پارٹی نے عظیم تر مقاصد کے تناظر میں سابق جنرل اور سابق صدر کے ساتھ گفتگو کی اہمیت کو محسوس کیا۔ عسکری دوستوں کی مدد اور مہربانوں کی مروت سے این آر او کی دستاویز تیار کی گئی، پھر ملک میں جمہوریت بڑی قربانیوں کے بعد آہی گئی ۔جمہوری ملک کے صدر دوستوں کی شراکت، حلیفوں کی مشاورت سے بلاشرکت غیرے ایک دفعہ پھر پاکستان کی سیاست کے ڈان بن گئے۔ قسمت کے دھنی آصف علی زرداری نے پانچ سال کا صدارتی چلہ گھومتے اور چین کے بے شمار سرکاری اور غیر سرکاری دورے کرتے ہوئے مکمل کرہی لیا۔ بس اتنا ضرور ہوا کہ انتہائی شدید مصروفیات کی وجہ سے پارٹی پنجاب میں اپنا تشخص ہی کھو بیٹھی۔ مرکز کی طرح پنجاب میں شراکت داری چل نہ سکی مگر شکر ہے کہ پاکستان چلتا رہا۔ چلتےپاکستان کی رفتار آہستہ ہوگئی تھی۔ انتخابات کے بعد لوگ پرامید تھے کہ اب پاکستان ترقی کرے گا، وقت تیز تھا اور حکمران آہستہ، اور بہت سست بھی۔ سوچنے میں دیکھنے میں وقت ضائع کردیا۔ حکمرانوں کے اندازے غلط ہوئے ، تبدیلی اور انقلاب کے دعویدار سرگرم ہوئے اور ملک کو یرغمال بنالیا، مسلم لیگ نواز کو اپنی حیثیت پر اتنا ناز تھا کہ توجہ ہی نہ دی اور دھرنے کو معمول کا سیاسی کھیل سمجھ کر کھیلا۔ مگر یہ سیاسی کھیل تماشا جمہوریت کے میدان میں بحران بن گیا۔ ایک ایسا بحران جس نے میاں نواز شریف کی سیاست کو دائو پر لگادیا پھر ایسے میں حزب اختلاف کے لوگوں نے انہیںغیر سیاسی مشورے دینے شروع کردئیے۔ دوسری طرف پارٹی کے اندر چند لوگ میاں صاحب کو گھیر ے رکھتے تھے۔ ایسے میں بحران وسعت پکڑ گیا۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کا مشترکہ اجلاس ملک میں جاری بحران کو حل کرنے کے لئے بلایا گیا تھا مگر ہماری سیاسی اشرافیہ نے جس غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اس نے سرکار کی حیثیت کو متاثر کیا۔ پہلے دن چوہدری نثار نے تمام صورتحال کو پورے مشترکہ ایوان کے سامنے پیش کیا اور سرکار کی معتدل حکمت عملی واضح کی۔ اس کے بعد قائد حزب اختلاف کی طرف سے خلاف توقع سینیٹر چوہدری اعتزاز احسن نے فلور پر بحث کا آغاز کیا۔ اس سے پہلے قومی اسمبلی میں خورشید شاہ دھواں دھار تقریر کرکے بحران کے تناظر میں مکمل حمایت کا عندیہ دے چکے تھے اور میاں صاحب بھی ڈٹ چکے تھے۔چودھری اعتزاز احسن جو وزیر اعظم میاں نواز شریف کے وکیل بھی رہ چکے ہیں انہوں نے وزیر اعظم کو احساس دلوایا کہ سیاست میں حکمت عملی سے دوستوں کو مایوس نہیں کرنا چاہئے ان کے شکوے رفاقت کے انداز میں تھے، اگرچہ تنقید بہت تھی مگر حرف آخر کے طور پر میاں صاحب کو غیر مشروط حمایت کا یقین دلایا۔ اس اجلاس کے بعد ایک بات طے تھی کہ میاں نواز شریف، انقلابی اور تبدیلی کے دھرنا مار لیڈروں سے بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ ان سے بات چیت کے لئے ڈار صاحب احسن اقبال کی مشاورت کے بعد رابطہ کیا گیا مگر دونوں طرف کے لوگ غیر سنجیدہ انداز میں ملے اور کوئی نتیجہ نہ نکل سکا، پھر کپتان کے 6 نکات کا تذکرہ شروع ہوا، دوبارہ فریقین کے مذاکرات ہوئے ساڑھے پانچ نکات پر دونوں فریق تیار بھی ہوگئے مگر میاں نواز کی دستبرداری پر مذاکرات ناکامی کا شکار ہوگئے۔ دوسری طرف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حلیفوں کی طرف سے میاں نواز کو مکمل حمایت کا یقین دلایا، اکثر لوگوں نے دھرنے والوں کو لتاڑا بھی۔ دوسری طرف عسکری قیادت نے دونوں فریقین کو معاملے پر جلد ا ز جلد کوئی بھی فیصلہ کرنے کا مشورہ دیا ایسے میں چودھری نثار نے غیررسمی گفتگو میں سینیٹر اعتزاز احسن کے بیان پر ایسا ردعمل دیا جو ایسے حالات میں خاصا پریشان کن ہے پھر چین کے صدر کا دورہ بھی اس سیاسی بحران میں ایک اہم نکتہ بن گیا اور صورتحال بگڑ گئی۔پیپلز پارٹی کی طرف سے رحمن ملک نے دونوں طرف کے لوگوں سے رابطہ کرکے بحران کی شدت کم کرنے کی کوشش کی اور ایک سیاسی جرگہ تشکیل دیا۔ یہ سیاسی جرگہ اب تک فریقین سے کئی ملاقاتیں کرچکا ہے۔ دونوں طرف سے تجاویز کا مسودہ بھی لکھا گیا ۔کپتان کی طرف سے شاہ محمد قریشی وزیر خزانہ کے ساتھ ان تجاویز پر تبادلہ خیالات بھی کرچکے ہیں مگر یہ معاملہ اتنی آسانی سے حل ہوتا نظر نہیں آتا۔
کیا سیاسی جرگہ اس بحران کو ختم کرسکے گا اب ایک دفعہ پھر کپتان اور قادری صاحب اپنے سابقہ موقف پر قائم ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اس ساری صورتحال کو مسلسل جانچ رہی ہے پھر اس بحران کے سلسلہ میں میڈیا مکمل طور پر تقسیم ہوچکا ہے۔ ایک فریق مکمل طور پر کپتان ،قادری صاحب اور ان لوگوں کی حمایت کررہا ہے جن کے بقول کہ مسودہ اور سٹیج ان کا ہے، مسودہ کے حوالہ سے غیر ملکی اخبار مختلف حساس اداروں پر انگلی اٹھاتا نظر آتا ہے پھر چین کے صدر کا دورہ بھی ایک اہم معاملہ ہے اگرچہ کپتان اور قادری اس وقت اپنی سابقہ روش کو تبدیل کرتے نظر آرہے ہیں مگر وزیر اعظم کے بارے میں ان کی رائے ابھی نہیں بدل سکتی، دوسری طرف مسلم لیگ نواز کی صفوں میں بھی بے چینی نظر آرہی ہے۔
تازہ ترین