• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاسی بحث مباحثے کی ایک اپنی ثقافت ہوتی ہے۔ چائے خانوں،چوپالوںاور دیوان خانوں میں ادیبوں، دانشوروں، صحافیوں ، طالب علم گروہوں اوراساتذہ میں مختلف موضوعات پردھواں دھار تبادلۂ خیال سے تمدنی مکالمہ تشکیل پاتا ہے۔کسی نے کوئی نیا لکھنے والا دریافت کیا ہے تو اس کا تعارف کرانے کی فکر میں ہے ۔ کسی نے کوئی مضمون پڑھا ہے اور اس کا خلاصہ اہل مجلس کے گوش گزار کرنا چاہتا ہے ۔ یہاں پر ایسے جہا ں دیدہ تجزیہ کار بھی ملتے ہیں جو موجودہ حالات کو ماضی کے واقعات سے جوڑ کر معاشرتی تفہیم کے خدوخال بیان کرتے ہیں۔ ان محفلوں میں ایسے گرم خون نوجوان بھی بیٹھتے ہیں جو ہر روایت کو رد کرنے سے اپنی بات کا آغازکرتے ہیں۔ ان مجلسوں میں اپنی ذات سے ہٹ کر اجتماعی معاملات پر غور و فکر کی تربیت ملتی ہے۔ مخاطب کے مؤقف پر غور کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاتی ہے ۔ اپنی دلیل مرتب کرنے کا ہنر سیکھا جاتا ہے۔ اسی سے قوم کے سیاسی شعور کا درجہ متعین ہوتا ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے ملک میں سیاسی مکالمے کی روایت ہمیشہ سے مضبوط رہی ہے۔اگر اہل لاہور عرب ہوٹل،نگینہ بیکری اور پاک ٹی ہائوس کی روایت کے امین ہیں تو سندھ کے دور دراز قصبوں میںبھی کچہری روزمرہ زندگی کا اہم حصہ ہے۔ پختونخوا میں ایسی نشستوں کے لئے حجرے کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو کوئٹہ میں کسی نے ماما عبداللہ جمالدینی کے لٹ خانہ کا دروازہ بند نہیں دیکھا۔ سمجھنا چاہئے کہ سیاسی بحث مباحثے کی یہ روایت خلا میں جنم نہیں لیتی۔ جہاں چھوٹی چھوٹی نشستوں میں اٹھنے والے مباحث مجموعی سیاسی دھاروں پر اثر انداز ہوتے ہیں وہاں اجتماعی سیاسی ارتقا بھی ان مباحث پر اپنا رنگ چھوڑتا ہے۔ لکھنے والے کو ان نشستوں سے استفادہ کرتے قریب چار دہائیاں گزر گئیں۔ آسمان نے کئی رنگ بدلے اور پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا۔ کبھی امیدوں کی فصل لہراتی تھی تو کبھی کھیتی پر مایوسی کا پالا گرنے لگتا تھا۔ سچ پوچھئے تو امید والے موسم کم کم ہی دیکھنے میں آئے ۔ اداسی کے سائے لہراتے رہے، ناکامی کا رنگ زیادہ گہرا رہا۔ قائم چاند پوری یاد آ گئے۔ ’’عوض طرب کے گزشتوں کا ہم نے غم کھینچا‘‘۔ اس دوران کچھ ایسے غالب رجحانات مشاہدے میں آئے، جن پر بات ہونی چاہئے۔
ہمارے ہاں سیاسی عمل پر اعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ہمیں سیاسی صورتحال میںسازش کے زاوئیے ڈھونڈنے میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ سازش کا لغوی مفہوم ہے، دانستہ منصوبہ بنا کر کسی ایک فریق کو نقصان پہنچانا اور اپنے لئے ناجائز مفادات حاصل کرنا۔ اس میں بھی ہماری دلچسپی بین الاقوامی سازش کی نفسیات میں گڑی ہے۔ ہم نوآبادیاتی عہد میں ’’گریٹ گیم‘‘ کی روایت کے اسیر ہو چکے ہیں۔ گریٹ گیم انیسویں صدی کا مظہر تھا جب نوآبادیاتی طاقتیں زمین کے ٹکڑوں اور انسانی آبادیوں کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کرتی تھیں۔ پچھلے سو برس میں قومی ریاست، جمہوریت اور معیشت کے نئے زاویے ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ آمریت کی صورتیں بھی بدل گئی ہیں۔ سیاست اب ’زیرو سم‘ گیم نہیں رہی۔ یہ درست ہے کہ طاقتور ریاستیں اس کوشش میں رہتی ہیں کہ چھوٹی اور پسماندہ معیشتوں سے زیادہ سے زیادہ منافع بٹورا جائے۔ ان کے وسائل پر اجارہ قائم کیا جائے۔ ایسی ممکنہ کوششوں کا صحیح جواب کمزور ریاستوں میں شفاف جمہوری بندوبست اور قانون کی پاسداری قائم کرنا ہے۔ ہمارے ہاں انتخابات ہوں یا کسی اہم عہدے پر تقرری، ہماری خواہش ہوتی ہے کہ دنیا بھر کی ریاستوں کو اس معاملے میں گھسیٹ لائیں۔ اگر دنیا بھر کی طاقتیں پاکستان کے خلاف سازشیں کرتی ہیں تو بھارت ہم سے کہیں بڑا ملک ہے اس کے خلاف سازش سے تو کہیں زیادہ وسیع مفادات بٹورے جا سکتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ ابھی بھارت میںانتخابات ہوئے اور وہاں ایک بھی انتخابی عذرداری سامنے نہیں آئی۔ ہارنے اور جیتنے والوں نے جمہور کی رائے کو مقدم جانا۔ سمجھنا چاہئے کہ آج کی دنیا میں کسی ریاست کے خلاف سب سے بڑی سازش وہاں کے باشندوں کو حقیقی حق حکمرانی سے محروم کرنا ہے۔ شہریوں کے حق حکمرانی کو مفلوج کر دیا جائے تو ایسی ریاست نہ تو کسی سازش کا مقابلہ کر سکتی ہے اور نہ ترقی کر سکتی ہے۔ اب گن جائیے کہ ہم سب نے اپنی آنکھوں سے کیسی کیسی سازش دیکھ رکھی ہے۔ ہم سیاست دانوں پر دھاندلی کا الزام دھرتے ہیں۔ 1970 ء میں قیوم لیگ اور اس نوع کی دوسری سیاسی جماعتوں میں رقومات کون بانٹ رہا تھا۔ تسلیم کہ ہمارے ہاں انتخابی عمل پر ہمیشہ شکوک و شبہات کے سائے رہے ہیں لیکن ہم یہ کیوں فراموش کر دیتے ہیں کہ اختیار کے کھیل میں سیاسی قوتیں تو ہمیشہ سے کمزور رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں نقب زنی کرنے والے عناصر کون رہے ہیں اور ان کے مقصد کیا تھے۔ مڈ نائٹ جیکال کون تھے۔ اب سے کوئی تین برس پہلے میمو گیٹ سکینڈل کے نام پر پورے ملک کو کئی ماہ تک مفلوج رکھا گیا۔ گزشتہ اپریل میں آصف زرداری نے لاڑکانہ میں سینئر صحافیوں کو بتایا کہ میمو گیٹ اسکینڈل کے ’معمار‘ نے ان سے ذاتی طور پر معذرت کی ہے۔ اب ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ گزشتہ برس جب طاہر القادری اسلام آباد پر چڑھ دوڑے تھے تو ان کی پشت پناہی کون کر رہا تھا۔ جاوید ہاشمی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر حالیہ تماشے کا تانا بانا بیان کرتے ہیں لیکن ہم مصر ہیں کہ پاکستان اور چین کے تعلقات خراب کرنے کے لئے یہ کھیل امریکہ نے رچایا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ یہ طرز استدلال واقعاتی طور پر صحیح ہے یا غلط، اس کا بنیادی نقصان یہ ہے کہ اس سے ہماری سیاسی پسماندگی کو بڑھاوا ملتا ہے۔ انسانی سعی پر سے اجتماعی اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ سکیورٹی اسٹیٹ کا نمونہ مستحکم ہوتا ہے جس کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ قومی مفاد آئین او ر قانون سے ماورا ہے نیز یہ کہ قومی مفاد کا تعین عام شہریوں پہ نہیں چھوڑا جا سکتا۔ سیاست بنیادی طور پر ایک وسیع انسانی صورتحال ہے اور اس میں تغیر پذیر عوامل کی تعداد ان گنت ہوتی ہے۔ کوئی ایک فریق کسی انسانی صورت حال سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل نہیں کر سکتا۔ سازش کا امکان اپنی جگہ، لیکن نے تو سازش تو اپنی ناکردہ کاری کا جواز بنا رکھا ہے۔
آج کل ہمارے ہاں سیاسی بحث میں کرکٹ کی اصطلاحات استعمال کی جا رہی ہیں۔ اس رجحان کی غیر سنجیدگی کو ایک طرف رکھئے۔ اس امر پر توجہ دیجئے کہ میچ فکسنگ کھیل کی دنیا میں بدترین جرم کیوں سمجھا جاتا ہے۔ میچ فکسنگ کھلاڑی اور تماشائی کے باہم اعتماد کی شکست ہے۔ تماشائی کھلاڑی کی مہارت اور کھیل کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے میچ کا نتیجہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ کھیل کے اصول ضابطوں کی پوری پابندی کی جائے گی۔ کھلاڑی اپنی صلاحیت کو پوری طرح بروئے کار لائیں گے اور اس کے بعد جیت یا ہار، نتیجہ قبول کیا جائے گا۔ میچ فکسنگ ان تمام نکات کی خلاف ورزی ہے۔ میچ فکسنگ کھلاڑی کی مساعی کی بجائے طے شدہ نتیجہ نکالنے کی سازش ہے۔ یہ کھیل کے نام پر بدترین دھوکہ ہے۔ اسی طرح سیاست کو اسکرپٹ کے تابع کرنا کسی ملک کے شہریوں کے خلاف سب سے بڑی سازش ہے۔ اس سازش کا مقابلہ سیاسی شعور اور جمہوریت سے وابستگی کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ جمہوریت کی کمزوریوں کو اسکرپٹ کی مدد سے دور نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں جمہوریت اور ا اسکرپٹ میں انتخاب کرنا ہے۔
تازہ ترین