• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ریڈ زون کے دھرنوں سے ابھرتے ردعمل کا تذکرہ جاری رہے گا، آج مگر اسکاٹ لینڈ کے اخبار نویس پیٹرک کنررس کی کمال اتاترک پر تاریخ ساز کتاب پر بات ہوگی۔ کم از کم اتاترک کے موضوع پر اس سے بہتر معروضی تصنیف خاکسار کی نظر سے تو نہیں گزری، ہماری صحافت کے دو مقتدر ترین کالم نویس، دانشور اور تجزیہ کار، ایاز امیر اور حسن نثار، مملکت خداداد پاکستان میں کسی’’کمال اتاترک‘‘ کی آمد کی آرزو پالتے اور شاید باقاعدہ منتظر بھی ہیں! وقفہ وقفہ سے وہ پاکستانی قوم کو اپنے اس خواب سے آگاہ کرتے اور یاددلاتے رہتے ہیں، ادھر جب کبھی اپنے اس آئیڈیل کے حوالے سے ان کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے، ادھر درویش شہر جہاں بھی اور جس بھی حالت میں ہو، علی الاعلان اور بے ساختہ نعرہ مستانہ بلند کرتا ہے،’’پاکستان میں تا قیامت کسی کمال اتاترک کا کوئی امکان نہیں، معجزے کی بات الگ ہے۔ یہ دھرتی ان کا موں کے لئے شاید منتخب ہی نہیں کی گئی‘‘۔ کمال اتاترک کی سوانح کے حیات افراد ابواب سے زندگی کی نمود ہوتی ہے، انسان آزادی فکر اور آزادی عمل کے نشے سے سرشار اور غیر قدرتی سماج کے عذاب الیم سے آشنا ہوتا ہے۔ پاکستان کے ریزہ ریزہ قومی، مذہبی، سماجی اور سیاسی مناظر کے آسیبی بھنور میں غوطے کھاتے، آج آپ سے ’’اتاترک، قوم اور جمہوریہ کا ظہور‘‘ کی کہانیSHAREکرنے خود کو باز نہیں رکھ سکتا۔
ترقی پسند دانشور فرخ سہیل گوئندی آپ کو کمال اتاترک کی آمد سے قبل کے’’ترکی‘‘ سے متعارف کراتے ہیں۔ گوئندی نے اپنی تحریری روایت اور معیار کے عین مطابق اس تعارف میں بھی قاری کو جکڑ لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے! ’’1587ء میں ترکی میں پریس تو قائم ہوا تھا لیکن شیخ الاسلام نے اس پریس میں صرف یہودی اور عیسائی لٹریچر چھاپنے کی اجازت دی تھی کیونکہ شیخ الاسلام کے نزدیک پرنٹنگ پریس ایک شیطانی مشین تھی، اس لئے اسلامی کتب اور دیگر موضوعات کی اشاعت ممنوع تھی۔محمد سعید کے دوست ا براہیم متفرقہ نے جب پریس کا آغاز کیا اور سائنسی علوم کی اشاعت شروع ہوئی تو اس پر ترکی میں مذہبی رجعت پسندوں کی طرف سے شور اٹھا کہ پرنٹنگ مشین سے اسلام خطرے میں ہے........!‘‘ مزید بتاتے ہیں’’جمہوریت اور زوال کے حامی علماء نے سر جری کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اسے بھی کفر قرار دیدیا۔ انسانی جسموں کی چیر پھاڑ کو غیر اسلامی قرار دیدیا حتیٰ کہ ان رجعتی علماء نے موسمی وبائو کے خلاف طبی تدابیر کو قدرت کے معاملات میں مداخلت قرار دیا اور اعلان کیا کہ تقدیر پر بھروسا کیا جائے۔(قارئین طالبان کی پولیو قطروں کے بارے میں مخالفت اور جس نظام زندگی کے وہ دعویدار ہیں اس کے تمام پہلوئوں کو ذہن میں تازہ کرلیں) چیچک سے بچائو کے ٹیکے لگانا کافرانہ عمل ہے ، ان کو فوری طور پر بند کردیا جائے۔ ان دنوں ترکی کے شہروں اور قصبات میں زوال سے نکلنے کے لئے ،حکمرانی اور جنگوں میں کامیابی کے لئے پیر خانوں سے تعویذ گنڈے بھی حاصل کئے جاتے تھے۔ دوسری طرف سلطان محمود دوئم نے ہسپانوی مسلمان حکمرانوں کی طرز پر دارالتراجم قائم کئے تاکہ جدید علوم سے سماج کو آراستہ کیا جاسکے۔ ترکی زیادہ تر سمندروں میں گھرا ملک ہے، توہم پرست یعنی عقیدہ پرست سٹیم سے چلنے والی کشتیوں کے بھی مخالف تھے۔ سلطان محمود دوئم نے ان رجعتی عقیدوں پرستوں کے بت توڑ تے ہوئے اسٹیم کی کشتیوں کو متعارف کروایا۔ سلطان محمود دوئم نے ہی کوٹ پینٹ پہن کر عام لوگوں کو جدید فیشن کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی‘‘۔
ابراہیم شناسی(1871۔1824)ایک ایسا ترک اخبار نویس تھا جس نے اپنے اخبار’’ترجمان‘‘ اور’’تصویر افکار‘‘ کا اجراء کرکے جدید قوم کے ظہور کی بنیاد ڈالی۔ مذہبی رجعت پسندوں نے ایسے دانشوروں کو نہ صرف سولی چڑھوایا، ان جدید افکار کو کا فرانہ قرار دے کر کسی بھی نوعیت سے ان کے ابلاغ اور اظہارکو ممنوع قرار دلوادیا۔ ان لوگوں نے سرکاری احکامات کے ذریعے’’حریت‘‘ ، ’’وطن‘‘، ’’آئین‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ جیسی سیاسی اصطلاحوں اور الفاظ کی ممانعت جاری کروائی۔ ان الفاظ کو ترک لغت سے بھی نکلوادیا۔ یہ لوگ زمانہ رفتہ کی داستانوں پر خود بھی گزارہ کرتے اور ترک قوم کو بھی جبراً اسی راہ پر چلانے کی غیر فطری سعی میں مصروف رہتے، چنانچہ’’ایسے میں ترک دانشوروں کی فکری، علمی اور سیاسی جدوجہد ترکی کی بنیاد بنی جس کی عملی اور فیصلہ کن قیادت مصطفےٰ کمال پاشا اتاترک کے حصے میں آئی‘‘۔مصطفےٰ کمال پاشا کی قیادت میں جنگ آزادی کی جدوجہد نے ایک نئی قوم کے ظہور کی حقیقی تشکیل کی۔ یکم نومبر1922ء کو اتاترک نے اتحادی افواج کے کٹھ پتلی خلیفہ کی نام نہاد حکومت کے خاتمے کا اعلان کردیا اور 17 نومبر کو سلطان عبدالمجید استنبول سے فرار ہوگیا‘‘۔ بس اس کے بعد 1922ء سے لے کر 1938ء کی ایک حیرت انگیز انسانی قیادت کے وژن اور عمل کا قصہ کنررس کی اس کتاب’’اتاترک.....قوم اور جمہوریہ کا ظہور‘‘ میں بند ہے جس سے آپ اپنی بصیرت کے دریچے وا کرسکتے ہیں۔10 نومبر 1938ء کی صبح 9 بجے جب کمال اتاترک کے بستر سے لگے کھڑے علی نے کہا’’دیکھیے ، تاریخ کا ایک حصہ دنیا سے گزررہا ہے‘‘۔ ایک لمحے کے لئے انہوں نے آنکھیں کھولیں،پھر موندلیں ، ان کا سر تکیے پر ایک جانب لڑھک گیا۔
جب پاکستان کی دھرتی پہ کسی کمال ا تاترک کی آمد کے خواب کی تردید پر صاد کیا جاتا ہے، وہ اس حسین خواب کی تردید نہیں برصغیر کے مسلمانوں کے مقدر کا ماتم ہوتا ہے۔ ملک دو حصے ہوگیا، یہاں کی مذہبی جماعتوں نے طیب اردگان کے بارے میں اس اسلام کے سپاہی کا تاثر دیا جسے یہ لوگ یہاں کے عوام پہ مسلط کرنے کی شاید آخری جنگ لڑرہے ہیں، وقت کے ہاتھوں ان کی تدفین ناگزیر ہے مگر جانے کتنی نسلیں ابھی’’ قرارداد ‘‘ مقاصد کی سان پر اپنی آزادی کے خواب قربان کرتی رہیں گی!
خدا گواہ ہے ،آپ خود ترکی جاکر دیکھ لیں، طیب اردگان کے طرز حیات، لباس، عبادات، معاشرت سے لے کر ترکی کے ذرے ذرے پر عمل پذیر اسلام، عبادات کا انداز ،معاشرت، فنون لطیفہ، بین الاقوامی نظریات اور پالیسیاں کسی شے کا یہاں کی اس’’ مذہبی قیامت‘‘ سے کوئی تعلق نہیں جس کا جھنڈا پاکستان کی تمام مذہبی جماعتوں نے اپنے اپنے انداز میں بلند رکھا، مخلوق بے بس اور ریاست ان کے خوف اور دبائو سے عاجز آچکی، پاکستان مستقبل کے خوف زدہ نشان کے آخری نکتے پر اپنے مستقبل کا انتظار کررہا ہے!دھرنے پارلیمنٹ، قانون یا آئین کی نفی سے نہیں، عوام کے دکھی سمندر کا جوار بھاٹا ہے، سازش ہے یا نہیں؟ یہ تم جانو یا دھرنے کے وہ لیڈرز، ان کے ساتھ جو لوگ ہیں وہ تیس چالیس ہزار ہیں، دیگر سیاسی جماعتوں کے ہزاروں حامیوں سمیت ان کی تعداد کروڑوں میں ہے، دراصل یہ حامی اپنی تکالیف اور مصائب کے ردعمل میں اپنا وزن ان دھرنوں میں ڈال چکے، اسلام آباد میں 14۔اگست سے آج بروز منگل 9۔ اگست تک موجود ان ہزاروں افراد کے ذہنوں میں آئین و قانون سے بغاوت یا فحاشی کے اجراء کا کوئی تصور نہیں،عوامی ردعمل کے اس سیلابی ریلے کے بارے میں پی پی کے دانشور قمر زمان کائرہ نے یونہی خبردار نہیں کیا کہ ’’ملک میں جاری بحران کی وجہ سے پوری قوم فکرمندہے، مسئلے کے حل میں حکومت کی ہٹ دھرمی رکاوٹ بنی ہوئی ہے....... اگر حکومت یہ سمجھتی ہے ، یہ سوچ رہی ہے کہ احتجاج کرنے والی دونوں جماعتیں تھک جائیں گی تو حکومت کو ان کے عزائم آج پچیس دن بعد سمجھ آجانے چاہئیں۔وہ تھکنے والے اور جھکنے والے نہیں ہیں۔ حکومت اگر اس چکر میں ہے کہ پارلیمان سے ان کی حمایت میں کوئی قرار داد آجائے جس کی بنیاد پر وہ طاقت استعمال کرلیں تو یاد رکھیں یہ بہت بڑی غلطی ہوگی۔ اس معاملے کو جتنا طول دیا جائے گا جتنی تاخیر ہوگی اس سے اتنا ہی نقصان ہونے کا احتمال ہے‘‘۔
اب آپ سن لیں! یہ دھرنے ’’ہولناک تسلسل‘‘ کے ساتھ جاری رہیں گے!یہ قیاس آرائی یقین کی حد تک ہے، اس پر بھی عرض وہی ہے، ریڈ زون ہو یا اس سے بھی آگے کی کوئی شے! پاکستان میں اتاترک کے امکانات معدوم ہیں۔ باقی واللہ اعلم بالصواب!
تازہ ترین