قدرت نے میری ہتھیلی میں سفر کی لکیریں کھینچتے ہوئے ان کا ایک جال سا بچھا دیا۔ میں یہ سوچ کر خوش ہوا کرتا تھا کہ خوب جی بھر کے دنیا دیکھوں گا۔ اکثر تصویریں ، کیلنڈر اورفلمیں دیکھتے ہوئے منصوبے بنایا کرتا تھا کہ اگر سفر کے اتنے بہت سے موقع ملے تو ایک نہ ایک روز جاکر یہ سارے مقام، آج کی دنیا کے یہ سارے عجائبات دیکھوں گا۔ ایک حد تک ہوا بھی یہی۔ مصر میں دریائے نیل کی ریت تلے دبے ہوئے بڑے بڑے محل برآمد ہوئے جن کے ساتھ تاریخ کی کتنی ہی کہانیاں بھی دریافت ہوئیں۔ میں نے وہ بھی دیکھا۔ آتش فشاں کی پگھلی ہوئی چٹانوں کے لاوے میں دفن پامپے کے عالی شان محلات کے کھنڈر بھی دیکھے۔ آسمانوں کی بلندیوں کے چھونے والے پہاڑ اور میدانوں میں زندگی بن کر دوڑنے والے دریا دیکھے۔ کہیں حیرت ہمراہ چلی اور کہیں عبرت۔ کہیں تہ در تہ پھیلے ہوئے منظردیکھتے دیکھتے نگاہ تھک گئی اور کہیں پرت در پرت کھلنے والی کہانیاں سنتے سنتے عقل دنگ رہ گئی۔ مگر ایک منظر ایسا بھی دیکھا جس نے دل کو بڑے دکھ دئیے۔ اور منظر بھی ایسا کہ ساتھ ساتھ چلا اور میں نے چاہا بھی کہ یہ پیچھے چھوٹ جائے، نہ چھوٹا۔ وہ تھا اپنے برِصغیر کے اس سرے سے اُس سرے تک پھیلا ہوا غریبی کا منظر اور مفلسی کاایسا نظارہ جو کبھی کبھی تو آنسوؤں میں چھپ گیا۔ کیسی سرزمین ہے کہ میں جب تک اسی میں پلا بڑھا، ہمیشہ یہی سمجھا کہ ساری دنیا اسی ڈھب سے جیتی ہے۔ اپنے کروڑوں ہم نفسوں کی طرح میں نے بھی یہی جانا کہ یہی ہے جو کچھ آس پاس ہے، یہ جو میرے اطراف میں ہورہا ہے، اسی کا نام زندگی ہے۔ مجھے اپنے بچپن کے وہ دن یاد ہیں جب ہر جمعرات کو میرے والد ایک ایک پیسے کی ریزگاری تیاررکھتے تھے، اس کے بعد فقیروں کی آمد شروع ہوتی تھی۔ ہرایک کے ہاتھ پر ایک پیسہ رکھا جاتا تھا اور وہ سلام کرتا اور دعائیں دیتا چلا جاتا تھا۔ مجھے وہ فقیرہرجمعرات کو ایک جیسے نظرآتے تھے۔ انہیں دیکھ کر نہ کوئی حیرت ہوتی اور نہ ذہن میں کوئی پھانس چبھتی۔ یوں لگتا کہ دنیا میں سب اپنی اپنی طرح جی رہے ہیں۔ ان ہی میں یہ فقیر بھی شامل ہیں اور صبح سویرے اپنی اوڑھنی کے آنچل میں کھیتوں سے توڑا ہوا تازہ ساگ لانے والی وہ دیہاتنیں بھی شامل ہیں جوایک پیسے کے بدلے وہ ساگ ہماری جھولی میں انڈیل جاتی تھیں۔ غرض یہ کہ ایک نظام تھا جو چلے جارہا تھا۔ اس میں نہ کوئی نرالی بات تھی نہ عجیب بات۔ یہ تو خیرفقیروں اور دیہاتنوں کی بات ہوئی، سب ہی اپنے اپنے طور پر زندگی بتا رہے تھے اور کہہ سکتے ہیں کہ اپنے حال میں مگن تھے۔ اس وقت ذہن کے کسی دور دراز گوشے سے بھی یہ خیال نہ گزراکہ اس غریبی میں دکھ ہی دکھ ہیں۔ بڑی تکلیفیں ہیں اور بڑی محرومیاں ہیں۔ تن پہ لتّا بس کہنے کو ہے، سر پر پھونس کا چھپّرنام کا چھپّرہے۔ سرکاری اسپتال کے برآمدے میں پڑے ہوئے مریضوں اوران پر حملہ کرنے والی مکھیاں اڑانے والے عزیز و اقارب کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ دنیا میں کتنے ہی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں بیماروں کو ہاتھ کے ہاتھ شفا دی جارہی ہے اور جہاں سردھڑ کی بازی لگائی جا رہی ہے کہ کوئی علاج کے بغیر مرنہ جائے۔ بس یہ راز ہے کہ ہمارے ہاں کتنے ہی کام رک جاتے ہیں، حکمرانوں کی حکمرانی جاری وساری رہتی ہے۔ ملک کے ملک غریبوں سے بھرے پڑے ہیں اور اوپر والوں کو اطمینان ہے کہ نہ ان کے لشکر کسی روز اٹھیں گے اور نہ ان کے غول کبھی اپنا وہ حق مانگیں گے جن کی ان کو خبر ہی نہیں۔ یہ بے خبری نہ ہوتی تو کچھ سرپھرے لوگ کسی سویرے اور کسی اجالے کے خواب بیان کر کرکے اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع نہ کرتے۔ ہمیں اس بانسری کے بجنے کا ارمان نہ ہوتا جسے ہمارے بڑے چین کی بنسی کہا کرتے تھے۔
خبریں بڑے دکھ دیتی ہیں۔ ہر روز کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی آفت ٹوٹتی ہے اور کتنے ہی لوگ چشم زدن میں مرجاتے ہیں۔ ان دنوں چھتوں کا گرنا اور گھر والوں کا دب کرمرجانا جیسے روز کا معمول ہو گیا ہے۔ ابھی بارشوں نے زور نہیں پکڑا تھا کہ چھتیں گرنے کی خبروں کا تانتا بندھ گیا۔ پچھلے دنوں ٹیلی وژن پر ایک شخص کی میت دکھائی گئی جسے پولیس کی گولی لگی تھی وہ تو الگ قصہ ہے۔ مرنے والے کے بارے میں جس خبرنے دل کو بہت دکھایا وہ یہ کہ مرحوم کی بیٹی کی شادی ہونے والی تھی اور وہ اس کی خاطر مکان بنانے کے لئے اینٹیں جمع کررہا تھا۔ مکان بنانے کے لئے پیسے جمع کرنے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اینٹیں جمع کرنے کی تفصیل جانی تو یوں لگا کہ وہ ساری اینٹیں میرے ہی سر پرآرہیں۔ یہ معمول بن گیا ہے کہ لوگ اینٹیں جمع کر کے آس پڑوس کے لوگوں کو اکٹھا کرکے دیواریں خود اٹھاتے ہیں جنہیں وہ سیمنٹ کی بجائے گارے سے چنتے ہیں۔ اسی طرح مل ملا کر چھت ڈال لیتے ہیں۔ مجھے حال ہی میں اندرون سندھ جانے کا اتفاق ہوا، جگہ جگہ ایسے مکان نظرآئے جن کی دیواریں نہ صرف یہ کہ مٹی گوندھ کر چنی گئی تھیں بلکہ اکثر دیواریں ٹیڑھی تھیں۔ ویسی ہی چھتیں بھی ناقص تھیں۔ مسئلہ سارا یہ ہے کہ سیمنٹ اور لوہے کے لئے اُس ظالم شے کی ضرورت ہوتی ہے جو ان غریبوں کو آٹھ آٹھ آنسو رلاتی ہے، یعنی پیسہ جس نے آنا کم کردیا ہے۔ گرانی، بے روزگاری اور بچّوں کی افراط نے ہاتھ تنگ کردئیے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ لوگ خود ہی ٹیڑھے بکڑے مکان بناتے ہیں اور چھتوں کا گرنا اور پورے پورے کنبوں کا کچل کر مرجانا عام بات ہو گئی ہے۔
(بات بات میں برطانیہ کا حوالہ دینا برا لگتا ہے لیکن سوچتا ہوں کہ خود اپنا قصہ سناہی دوں۔ ہمارے مکان کی چھت پرانی ہوکر بارشوں میں ٹپکنے لگی تھی۔ نئی چھت ڈالنے کے لئے ایک کمپنی سے معاملہ طے کیا۔ پتہ چلا کہ کمپنی پرلازم ہے کہ بلدیہ یا کونسل کو مطلع کرنے کے بعد کام شروع کرے چنانچہ کونسل کا ایک انجنیئر ہمارے پاس آیا اور کہا کہ میں اس دوران کام کا معائنہ کرتا رہوں گا۔ آخر میں اس نے کہا کہ مکمل ہونے پر جب تک میں منظوری نہ دے دوں، کمپنی کو ادائیگی نہ کرنا اور ہوا بھی یہی) ہمارے ملک میں تو خیر کس کو پڑی ہے کہ ہر تعمیر کا معائنہ کرے اور اس کی پائیداری کو یقینی بنائے۔ ایک ذرا سا چھینٹا پڑتا ہے تو مکان گرنے لگتے ہیں اور لوگ نہ صرف دب کر بلکہ بجلی کا جھٹکا لگنے سے مرنے لگتے ہیں۔
جو دکھ ہے وہ اس بات کا کہ ایک روز سانحے ہوتے ہیں، دوسرے روز بھلا دیئے جاتے ہیں۔ نہ کوئی سبق سیکھا جاتا ہے نہ کوئی روک تھام ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال سال کے سال آنے والے سیلاب ہیں۔ تباہی مچاتے ہوئے آتے ہیں اور راہ میں آنے والی ہر شے کو حقارت سے روندتے چلے جاتے ہیں۔ پھر وہی ہر سال کی طرح حکام معائنے کے لئے نکلتے ہیں۔ اپنے دکھوں کا رونا رونے والوں کے سامنے حکام کی آمد سے پہلے امدادی کیمپ سجائے جاتے ہیں، مستعد عملہ سینہ تان کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ وہ آتے ہیں۔ نعرے لگتے ہیں۔ وعدے ہوتے ہیں کہ جب تک ایک ایک انسان کو دوبارہ بسا نہیں دیا جائے گا، حکومت چین سے نہیں بیٹھے گی۔ یہ کہہ کر حاکم روانہ ہوجاتا ہے اور اس کے جاتے ہی سارا امدادی کیمپ لپیٹ لپاٹ کر اگلے پڑاؤ کی طرف بھیج دیا جاتا ہے۔ پھر کیا ہوتا ہے۔ سیلابی ریلا یوں دانت بھینچ کرآتا ہے جیسے کرتا دھرتا لوگوں کی حرکتوں پر برہم ہو۔ ریلا اکیلا نہیں آتا۔ اس کے ساتھ سانپ بھی آتے ہیں جو کاٹتے بھی ہیں۔ بس یہ بُرا کرتے ہیں کہ غریبوں کو کاٹتے ہیں، انہیں کچھ نہیں کہتے جن کیلئے ذرا دیر پہلے زندہ باد کے نعرے لگے تھے۔ سوچتا ہوں کہ اور کوئی کرے یا نہ کرے ، سانپ ہی کچھ انصاف کریں۔