• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت کچھ جل چکا ہے اور بہت کچھ بہہ گیا ہے۔ بے لگام خواہشات کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور اِس کی راہ گزر میں اخلاق اور قانون کے جو مینار ثبت تھے ، وہ منہدم ہونے لگے ہیں جبکہ چڑھتے ہوئے دریا بستیوں کو نگلتے جا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تبدیلی کا نعرہ بلند کرنے والے ’’رہنماؤں‘‘ نے پورے ایک ماہ ہماری قوم کو جس درجے ذلیل و خوار کیا ہے اور اﷲ اور رسولؐ کے نام پر مذہبی جذبات میں جس پیمانے پر اشتعال پیدا کیا ہے اور عوام کو رات گئے تک سولی پر چڑھائے رکھا ہے ، اِس عمل کے خلاف فطرت کی سخت اور شدید تعزیریں حرکت میں آ گئی ہیں۔ اقتدار کے اُن سوداگروں نے پاکستان کی ریاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اور وطن کا امیج تار تار کر ڈالا ہے۔ اب کسی شخص کی عزت ، نہ کسی ادارے کا احترام اور وقار اُن کے دست ِستم سے محفوظ رہ سکا ہے۔ ایک سول نافرمانی کی سی کیفیت پیدا کرنے اور مملکت کی عظمت اور قوت کا ہر نقش مٹانے کی مذموم کوششیں ہو رہی ہیں۔ اِن خود ساختہ قائدین نے جو زبان استعمال کی ، وہ تو لکھنؤ کی بھٹیارنیاں بھی استعمال کرتے ہوئے شرما جائیں۔ کسی ثبوت کے بغیر گھٹیا ترین الزامات کی سنگ باری کرتے رہنا، اُن کا شیوہ بن چکا ہے اور وہ یہ بات بالکل فراموش کر بیٹھے ہیں کہ ایک روز حشر میں اُنہیں اپنی تمام تر بہتان تراشیوں کا جواب دینا ہو گا۔
پاکستان کے دارالحکومت میں اپنی قیادت کے حکم پر دھرنا دینے والے جس طرح پارلیمنٹ کے لان میں داخل ہوئے ، وزیراعظم ہاؤس کے اندر پہنچنے اور پی ٹی وی پر قبضہ کرنے اور ایوانِ صدر کا گیٹ توڑنے کی سرتوڑ کوشش کرتے اور پاک سیکرٹریٹ کے ایک حصے پر قابض ہو گئے، اِن مناظر سے پاکستان کے دشمنوں کے چہرے کھل اُٹھے کہ اُن کی کاوشیں بر آئی ہیں۔ مسلمانوں کا وہ واحد ملک جس کی فوج دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے اور ایٹمی طاقت سے بھی مسلح ہے ، وہ اِس قدر عدم استحکام سے دوچار ہونے والا ہے کہ اِس کے لئے ایٹمی صلاحیت کی حفاظت ناممکن ہو جائے گی۔ وہ پہلے اپنے مذموم ارادوں میں اب تک اِس لئے کامیاب نہیں ہو سکے تھے کہ فوج کو عوام کی حمایت حاصل رہی اور سیاسی جماعتوں نے بڑی پختگی کا ثبوت دیا۔ اُن کی اِس بالغ نظری سے پُرامن انتقالِ اقتدار کا پہلی بار ایک روح پرور منظر دیکھنے کو ملا جو غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا۔ مئی 2013ء کے انتخابات نے بلوچستان کو قومی دھارے میں شامل کر دیا اور وہاں بلوچ قوم پرستوں کی حکومت قائم ہو گئی اور بگڑتے ہوئے حالات معمول پر آنے لگے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف کی قیادت میں توانائی کے بحران پر قابو پانے اور گوادر سے خنجراب تک اقتصادی راہداری تعمیر کرنے کے لئے چین کے ساتھ مذاکرات کے مختلف دور چلے اور وہ پاکستان میں 35ارب ڈالر کے لگ بھگ سرمایہ کاری کے لئے پُرجوش نظر آیا۔ ہمارے خارجی اور داخلی دشمنوں کو بڑا دھچکا لگاکہ اگر ترقی اور تعمیر کا یہ سلسلہ چل نکلا ، تو پاکستان کو ایک عظیم اقتصادی طاقت بن جانے سے روکا نہیں جا سکے گا ، چنانچہ اُنہوں نے انتخابات اور فوج کو متنازع بنا دینے کی منصوبہ بندی کی اور اِس پر عمل درآمد کے لئے ایسے کردار تلاش کیے جو اقتدار کے بھوکے اور اپنی اَنا کے مارے ہوئے ہیں۔
جناب عمران خاں کو انتخابات میں اُترنے سے پہلے بعض بیرونی طاقتوں نے یقین دلایا تھا کہ وہ اِس بار پاکستان کے وزیراعظم بنیں گے۔ شہری نوجوانوں کی حمایت کے باوجود جب اُنہیں قومی اسمبلی میں صرف 34نشستیں حاصل ہوئیں ، تو وہ بہت سٹپٹا گے ، لیکن خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع مل جانے سے وہ قدرے نارمل رہے ، مگر چند ہفتوں بعداُنہوں نے انتخابی ٹریبونلز کے فیصلوں کا انتظار کیے بغیر انتخابات میں دھاندلی کا شور مچانا شروع کر دیا۔ اُدھر امریکی اخبارات میں یہ تجزیے شائع ہوئے کہ پاکستان کی معیشت سیڑھی پر چڑھنے لگی ہے ، اِس لئے غالب امکان یہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل اِس ملک میں اندرونی انتشار کو ہوا دیں گے۔ اِن اشاروں کے عین مطابق لندن میں سازش تیار ہوئی اور 35پنکچروں کی کہانی ایک پُر اسرار شخص اعجاز حسین نے تخلیق کی۔ باخبر ذرائع یہ رپورٹ کرتے رہے کہ عمران خاں، چوہدری شجاعت ، شیخ رشید اور علامہ طاہر القادری نے آپس میں ملاقاتیں کیں اور اسرائیل پسِ پردہ ایک اہم کردار ادا کرتا رہا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ عمران خاں کے سیاسی پیشوا جنرل پرویز مشرف اسرائیل کو تسلیم کرنے پر تُلے ہوئے تھے کیونکہ اسرائیل اُنہیں ’’مردِ موعود‘‘ سمجھتا تھا۔لندن پلان کے مطابق علامہ قادری پاکستان آئے اور اُن کی آمد سے پہلے ایک سازش کے تحت پولیس کے نام پر دس بارہ لاشیں گرا دی گئیں۔ اہم واقعات کے ایک رازداں کہہ رہے تھے کہ میر مرتضیٰ بھٹو اور سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے درمیان بڑی مشابہت پائی جاتی ہے کہ گولیاں کہیں اور سے چل رہی تھیں اور الزام پولیس پر آ رہا تھا۔
علامہ قادری اور کپتان عمران خاں ایک ہی روز اسلام آباد روانہ ہوئے اور بالآخر ’’معاہدے‘‘ توڑتے ہوئے ریڈ زون میں جا دھمکے اور لٹھ بردار فورس نے پارلیمان اور ایوانِ صدر تک جانے کے راستے بند کر دیے۔ کپتان نے تیسرے دن انکشاف کیا کہ تیسری طاقت کا ایمپائر 48گھنٹوں میں اُنگلی اُٹھا دے گا۔ وہ جان بوجھ کر یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ فوج ہماری پشت پر ہے۔ بدقسمتی سے وہ جنگ جو پاکستان کے خلاف لڑی جا رہی تھی ، اِس میں بعض ٹی وی چینلز بھی شامل ہو گئے اور اُنہوں نے بے پرکی خبریں نشر کرنا شروع کیں اور ایک ایسی فضا پیدا کرنے کی شعوری کوشش کی کہ نوازشریف حکومت چند گھنٹوں کی مہمان ہے۔ حالات جب زیادہ کشیدہ ہوئے ، تو ہنگامی طور پر کورکمانڈرز کانفرنس طلب کی گئی ، اِس میں کیا کچھ زیرِ بحث آیا اور اِس کا ماحول کیسا تھا ، اِس کے بارے میں عالمی اخبارات کے اندر خبر رساں ایجنسی رائٹر کی رپورٹ شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی جو بڑی شر انگیز تھی۔ اِس میں کہا گیا تھا کہ گیارہ میں سے پانچ کورکمانڈر وزیراعظم سے استعفیٰ لینے کے حق میں تھے ، حالانکہ کورکمانڈرز کانفرنس میں پندرہ سولہ اعلیٰ افسر شریک ہوتے اور آرمی چیف کے فیصلوں پر نیک دلی سے عمل کرتے ہیں۔ رائٹر کی رپورٹ دنیا کو یہ باور کرانا چاہتی تھی کہ فوج کی اعلیٰ قیادت انتشار کا شکار ہے ، اِس لئے ایٹمی اثاثوں کا نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ہاتھوں میں جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے اور پاکستان کو بھی عراق اور شام بنایا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے بعض سیاسی حلقوں کے اندر بھی پانچ جرنیلوں کی کہانی سرگوشیوں میں بیان کی جاتی رہی۔ اُنہیں یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ ہم اپنی فوج کے امیج کو نقصان پہنچا رہے ہیں جبکہ عسکری اعلیٰ قیادت نے جمہوریت کے ساتھ اپنی وابستگی کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔ دراصل انتخابات میں دھاندلی کا شوشہ مغرب کی طاقتوں نے چھوڑا ہے اور وہی پاکستان کی فوج پر اپنا دباؤ بڑھانا چاہتی ہیں۔ ہمارا بہترین مفاد اِسی میں ہے کہ ہم انتخابات میں دھاندلی کے گرداب سے جلد ازجلد باہر نکل آئیں اور فوج دہشت گردوں کے خلاف جانوں پر کھیل کر جو آپریشن کر رہی ہے ، اِس میں دلجمعی سے پورا پورا تعاون کریں۔ڈی چوک میں جو ایک تماشہ لگا ہوا ہے ، اِسے اب ختم ہونا چاہیے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر جناب خورشید شاہ نے پارلیمان کے فلور پر آرمی چیف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دھرنے سجانے والوں کو شٹ اپ کال دیں کیونکہ پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے ، پاکستان کے بدخواہ چینی صدر کا دورۂ پاکستان ملتوی کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور دہشت گردوں کو اندرونی تعاون کے ساتھ نیول ڈاکیارڈ پر حملہ کرنے کا موقع مل گیا ہے۔
آج کے ہنگامہ خیز ماحول میں جیو نیوز کے ساتھ پیمرا اور کیبل آپریٹرز جو سلوک روا رکھے ہوئے ہیں ، مجھے وہ ہر اعتبار سے انصاف ، قانون اور اخلاقیات کے خلاف نظر آتا ہے۔ جیو سے سات آٹھ ماہ پہلے جو غلطی سرزد ہوئی تھی ، اُس نے اِس کی سزا بھگت لی ہے اور اپنا پیشہ ورانہ معیار قابلِ رشک حد تک بلند کر لیا ہے۔غیر قانونی پابندیوں اور اِس کے دفتروں پر حملوں کے باعث اُسے اربوں کا نقصان ہو چکا ہے اور کارکن شدید مشکلات کا شکار ہیں ، اِس لئے حکومت کے تمام اداروں کو آزادیٔ اظہار کے تحفظ میں اپنا آئینی کردار پوری ذمے داری سے ادا کرنا اور توازن قائم رکھنا ہو گا کیونکہ ظلم اب ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا ہے جو انسانی ضمیر کو جھنجوڑ رہا ہے اور وقت کی تبدیلی کا مژدہ سنا رہا ہے۔
تازہ ترین