• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے یوم پیدائش کے موقع پر اس مرتبہ 11 ستمبر کو ان کا مزار عام لوگوں کے لیے بند کردینا پاکستان کے موجودہ غیر یقینی حالات میں ایک غیر معمولی واقعہ ہے ۔ اس واقعہ سے وجودی فلسفی ’’ نطشے ‘‘ کی وہ بات یاد آتی ہے ، جو وہ دیوانگی کی کیفیت میں لوگوں کو مخاطب کرکے کہتا جاتا تھا اور قہقہے لگاتا جاتا تھا ’’ اے بے خبر لوگو ! تمہیں پتہ ہے کہ تمہارے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے ۔ ‘‘ اگرچہ مزار کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سکیورٹی خدشات کے پیش نظر مزار کے احاطے میں عوام الناس کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی ہے لیکن یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کہ ریاست پاکستان مزار قائد پر سکیورٹی کے انتظامات نہیں کر سکتی ہے ۔ پاکستان کی تاریخ میں کئی مواقع ایسے آئے ، جب دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر مزار قائد کو بند کر دیا گیا لیکن شاید پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ بابائے قوم کے یوم پیدائش کے موقع پر لوگ فاتحہ خوانی کے لیے ان کے مزار پر نہیں جا سکے ۔ صبح صرف ایک گھنٹے کے لیے مزار کو قرآن خوانی ، گورنر اور وزیر اعلیٰ سندھ کی حاضری اور دیگر رسمی کارروائیوں کے لیے کھولا گیا تھا ۔ مزار 28 اگست 2014ء سے دہشت گردی کے خطرات کی وجہ سے مسلسل بند ہے ۔ 6 ستمبر کو یوم دفاع کے موقع پر مزار کو ایک دن کے لیے کھولا گیا تھا لیکن غیر معمولی سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے تھے ۔ گذشتہ روز جب میں وہاں سے گذر رہا تھا ، مزار کے ارد گرد سکیورٹی اداروں کا محاصرہ تھا ۔ مزار کے احاطے میں مکمل سناٹا تھا اور ارد گرد کی شاہراہوں پر بندوق بردار سکیورٹی اہلکاروں نے چیکنگ کے نام پر لوگوں کو روکا ہوا تھا اور ان کی تلاشیاں لی جا رہی تھیں ۔ پولیس کی رکاوٹوں کی وجہ سے ٹریفک میں بھی خلل پڑ رہا تھا ۔ وہاں سے گذرتے ہوئے مجھے بانی پاکستان کی 11 اگست 1947ء کی وہ تقریر یاد آ رہی تھی ، جو انہوں نے پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں کی تھی ۔ بابائے قوم کے ان الفاظ کی گونج کہیں سے سنائی دے رہی تھی ’’ مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں ، آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں ، آپ اپنی مساجد اور دیگر عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں ۔ مملکت کا اس بات سے کچھ لینا دینا نہیں کہ آپ کا تعلق کس مذہب ، ذات ، رنگ و نسل سے ہے ۔ ‘‘ مساجد ، مندروں ، گرجا گھروں اورگردواروں سمیت عبادت گاہوں میں بے خوف ہو کر جانا تو دور کی بات ، یہ کیا ہو رہا ہے کہ ہم اس عظیم لیڈر کے مزار پر بھی نہیں جا سکتے ، جنہوں نے یہ مملکت اس لیے بنائی تھی کہ لوگ اپنے عقائد ، رسوم اور تہذیب و ثقافت کے مطابق پر امن ماحول میں زندگی گذار سکیں ۔کراچی میں اس وقت جو حالات ہیں ، ان کا اندازہ اس وقت لگا لیا جاتا تو بہتر ہوتا ، جب بابائے قوم محمد علی جناحؒ کو 11 ستمبر 1948ء کو زیارت ( بلوچستان ) سے بیماری کی حالت میں ایک طیارے کے ذریعہ کراچی لایا گیا تھا اور ماڑی پور ایئربیس پر ان کا طیارہ اترا تھا ۔ اس وقت وہ گورنر جنرل پاکستان تھے اور ان کے استقبال کے لیے ایئر پورٹ پر کوئی اہم شخصیت موجود نہیں تھی حالانکہ کراچی اس وقت پاکستان کا دارالحکومت تھا اور نئی مملکت کے سارے حکمران یہاں موجود تھے ۔ ایئربیس سے بابائے قوم کو ان کی رہائش گاہ ’’ فلیگ اسٹاف ہاؤس ‘‘ جس ایمبولینس میں لایا گیا ، وہ راستے میں خراب ہو گئی تھی ۔ سخت گرمی میں بابائے قوم ماڑی پور روڈ پر ویرانے میں اپنی زندگی کی آخری سانسیں لیتے رہے ۔ جوں جوں بانی پاکستان کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں ، توں توں نئی مملکت کے لیے ایک عظیم بحران کا غبار اسی ماڑی پور روڈ سے اٹھ رہا تھا ۔ فلیگ اسٹاف ہاؤس پہنچنے کے کچھ گھنٹوں بعد یہ اعلان کر دیا گیا کہ بانی پاکستان رحلت فرما گئے ہیں لیکن ان کے آخری لمحات میں ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ، اس سے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ مملکت پاکستان کو کس طرف لے جایا جائے گا ۔ کراچی میں گذشتہ تین عشروں سے جاری دہشت گردی کو اگر نہیں روکا جا سکا ہے یا نہیں روکا گیا ہے تو اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے ۔ مگر معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ مملکت پاکستان کے وجود اور یکجہتی کی علامت مزار قائد پر اب لوگ نہیں جا سکتے ہیں ۔ یہ انتہائی تشویش ناک امر ہے ۔کراچی میں ویسے تو کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے ، لیکن یہ تصور میں بھی نہیں تھا کہ مزار قائد بھی غیر محفوظ ہو جائے گا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مزار قائد کو اس وقت عام لوگوں کے لیے بند کر دیا گیا ، جب کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے ۔ 5 ستمبر 2013ء کو اس آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا ۔ وزیر اعلیٰ سندھ کو بظاہر اس آپریشن کی کمان سونپی گئی تھی لیکن آپریشنل کمیٹی کے سربراہ ڈی جی رینجرز سندھ ہیں ۔ اس آپریشن میں 30 ہزار سے زیادہ گرفتاریاں کی گئی ہیں ۔ سیکڑوں ’’ دہشت گردوں ‘‘ کو مقابلے میں مار دیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود اب دہشت گرد اور قاتل سر عام اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں ہے ، جب بے گناہ لوگوں کا بلا جواز قتل نہیں ہوتا ۔ 5 ستمبر 2014ء کو آپریشن کا ایک سال مکمل ہو گیا ہے اور اس دوران ساڑھے تین ہزار سے زیادہ لوگ دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں ۔ ان میں تقریباً 170 پولیس افسران اور اہلکار بھی شامل ہیں ۔ اس ٹارگٹڈ آپریشن سے پہلے بھی کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف کئی آپریشنز ہو چکے ہیں اور ہر آپریشن کے بعد دہشت گرد پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر سامنے آتے ہیں ۔ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آپریشنز اس لیے ہوتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف عوامی اور سیاسی سطح پر ہونے والی صف بندی کو توڑا جائے اور لوگوں کو دیگر مسائل میں الجھا دیا جائے ۔ کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے ، یہ مملکت خداد داد پاکستان کو چلانے کا ایک ایسا انداز ہے ، جس کا ادراک ہم بحیثیت قوم کر ہی نہیں سکے ہیں ۔کراچی میں حالیہ ٹارگٹڈ آپریشن کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بانی پاکستان کا مزار گذشتہ 15 دنوں سے عام لوگوں کے لیے بند ہے ۔ مجھے اس موقع پر پاکستان میں ایک سابق امریکی سفیر کا وہ بیان یاد آ رہا ہے ، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’ پاکستان کی آخری جنگ کراچی میں لڑی جائے گی ۔ ‘‘ کراچی میں تین عشروں سے جاری خونریزی اور بدامنی کے تناظر میں مزار قائد کی بندش کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے ۔اتنے طویل عرصے تک مزار قائد کو پہلے کبھی بند نہیں رکھا گیا ۔ 11 ستمبر 1947ء کو ماڑی پور روڈ پر بانی پاکستان کی ایمبولینس کے خراب ہونے کے واقعہ اور 11 ستمبر 2014ء کو مزار قائد کو جانے والی شاہراہ قائدین پر عام شہریوں کی تلاشی کے تکلیف دہ واقعات کے درمیان ہمیں اپنی تاریخ اور اپنے رویوں کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ 66 سال پہلے ماڑی پور روڈ سے اٹھنے والا بحران بالآخر شاہراہ قائدین کوبھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ۔ اب ہمارے پاس وقت نہیں رہا کہ ہم سچ کو چھپاتے رہیں ۔
تازہ ترین