• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سعادت حسن منٹو ادب میں درجہ اول کا استاد کاریگر تھا۔ اس کے قلم کی ہر ضرب کاری تھی اور کاٹ گہری لیکن وہ ایسا سادہ اور پرکار تھا کہ پڑھنے والے نے پلک جھپکی تو پھر ہاتھ نہیں آتا۔ خود اس کے ساتھ یہ ہاتھ ہوا کہ ’’منٹو کے منتخب افسانے‘‘ مرتب کرنے والوں نے منٹو کو ان افسانوں تک محدود کر کے رکھ دیا جن پر فحاشی کے الزام میں مقدمے چلائے گئے۔ ’نیا قانون‘ اور ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ جیسے کچھ افسانے البتہ نصابی ضروریات کے لئے شامل کر دئیے جاتے ہیں۔ منٹو کے ہنر کا بڑا حصہ ابھی تک اس انتظار میں ہے کہ سنجیدگی سے اس کی معنویت دریافت کی جائے۔ منٹو کی ایک قدرے غیر معروف کہانی کا عنوان ’’قادرا قصائی‘‘ ہے۔ ایک طوائف عیدن بائی کا قصہ ہے۔ اس افسانے کا انجام،بہت اختصار کے ساتھ، کچھ اس طرح ہے۔ ’’ظفر شاہ عیدن کے عشق میں بری طرح گرفتار تھا۔ وہ اس سے شادی کرنے کے عوض اپنی ساری جائیداد اس کے نام منتقل کرنے کے لئے تیار تھا۔ عیدن بائی نہ مانی۔ ظفر شاہ نے کئی بار کوشش کی مگر ہر بار اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک رات ظفر شاہ نے دیکھا کہ اندھیری گلی میں عیدن ایک نہایت بدنما آدمی کے پائوں پکڑے التجائیں کر رہی ہے کہ خدا کے لئے مجھ پر نظر کرم کرو۔ تم اتنے ظالم کیوں ہو۔ ظفر شاہ نے پہچان لیا کہ وہ شخص قادرا قصائی ہے۔ عیدن بائی کو دھتکار رہا ہے۔ جا… ہم نے آج تک کسی …کو منہ نہیں لگایا۔ مجھے تنگ نہ کیا کر۔ قادرا اسے ٹھوکریں مارتا رہا اور عیدن اسی میں لذت محسوس کرتی رہی ‘‘۔اخبار کا صفحہ تفصیل کا متحمل نہیں ہوتا ۔ یوں سمجھ لیجئے کہ منٹو نے انسانی نفسیات کی ایک کج روی بیان کی ہے۔ نفسیات، فرد کی ہو یا اجتماع کی، گتھیاں پیچ در پیچ جاتی ہیں۔کج روی اپنی جگہ لیکن انسانی رشتے میں یگانگت اور پائیداری کی بنیاد مساوات اوراحترام پر رکھی جاتی ہے۔ جرمن قوم یورپ میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ تھی۔ہٹلر جیسے مسخرے کے جال میںپھنس گئی۔ ٹالسٹائی ،دوستوفسکی اور چیخوف جیسے نابغہ روزگا ر ذہن پیدا کرنے والے روس کو ا سٹالن نے فوجی بوٹ کے نیچے رکھ لیا۔ کچھ اسی طرح کا تماشہ ان دنوں ہمارے ہاں بھی کھیلا جا رہا ہے۔ یہ نہیں پوچھئے گا کہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں عیدن بائی کہاں ہے اور قادرا قصائی کون ہے۔ چھوڑیئے ،کوئی اچھی بات کرتے ہیں۔ انتظار حسین کا ذکر چھیڑتے ہیں۔ وہ ایک خوش آوازپرندہ ہے۔ کچے امرود پر چونچ مار کے چہکارتا ہے۔ ہم میوے کی رنگت اور گدراہٹ میں کھو جاتے ہیں ۔وہ اڑان بھر کے اگلی شاخ پہ جا بیٹھتا ہے۔ اسد محمد خان کی بات کرتے ہیں۔ وہ اپنے رنگ کا انوکھا لاڈلا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کو احترام دیتے ہیں ۔ راجستھان کے اس پٹھان نے اردو کو مالامال اور پڑھنے والوں کو نہال کر دیا ۔ ظفر اقبال کا ذکر کرتے ہیں ۔ظفر نے اپنی دیہاتی ریاضت سے اردو شعر کو مانجھ مانجھ کے ایسا بلور کر دیا کہ ایک طرف سے دیکھو تو محض چٹکلا اور دوسری طرف سے دیکھو تو کلی کی چٹک بیان کی ہے۔ کیسا مبارک زمانہ ہے جس میں ایسے نعمت انسان موجود ہیں۔ لیکن زمانہ عدالت نہیںمحض کچہری ہے۔ کچہری میں جذبے کا گزر کہاں، مثل مقدمہ دیکھنا پڑتی ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفی نے مؤقرانگریزی معاصر میں ایک مضمون لکھا ہے۔ جنرل (ر) غلام مصطفی ہماری عسکری تاریخ کا ایک معتبر حوالہ ہیں۔ 37 برس پر پھیلے تاب دار کیریئر میں نقطہ عروج یہ تھا کہ ہمارے حساس ترین قومی اثاثو ں کی حفاظت کے لئے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تعمیر کیا۔ اس کام میں ایسی پیشہ ورانہ مہارت دکھائی کہ دنیا نے یک زبان ہو کر حرف تحسین کہا۔ کیوں نہ ہو ،یہ جنرل صاحب کا تخصیصی شعبہ تھا۔ کوئی ممبر پارلیمنٹ جنرل صاحب کو نہیں سکھا سکتا کہ بٹالین کی تربیت کیسے کرتے ہیں۔ بریگیڈ کی موزو ں تعیناتی میں کن عوامل کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ ڈویژن کی قیادت کیسے کی جاتی ہے۔ اب دوسرا پہلو دیکھتے ہیں ۔جنرل (ر) غلام مصطفی نے 1970 ء میں کمیشن حاصل کیا۔ تب لیفٹیننٹ جنرل (ر) یعقوب علی خان مشرقی پاکستان کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے۔ جنرل یعقوب ہمارے ملک کے محترم ترین افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ صدیق سالک روایت کرتے ہیں کہ جنرل یعقوب نے کہا ’’ میری تربیت سپاہ گری کی ہے ،سیاست کی نہیں۔جب ہندوستان کشمیر سے ایک پہاڑی ڈویژن مغربی بنگال بھیجتا ہے تو میں فوراً بھانپ جاتا ہوں کہ اس کا اصل مدعا کیا ہے…جب مجیب الرحمن کوئی سیاسی چال چلتا ہے تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کہتا ہے‘‘۔ واضح رہے کہ جنر ل یعقوب کو چھ نکات کا سامنا تھا اور کہا یہ جا رہا تھا کہ ساڑھے پانچ نکات مان لئے گئے ہیں۔ آدھے نکتے پہ اختلاف ہے ۔ سوال یہ ہے کہ 44 برس میں ہم نے کیا سیکھا؟سیکھنے کا نکتہ یہی تھا کہ ہم میں سے کچھ نے سپاہ گری کی تربیت پائی ہے اور کچھ نے سیاست میں ایک عمر صرف کی ہے۔ قوم کو دونوں مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ آئین ، جمہوریت اور پارلیمنٹ جیسی اصطلاحات کے لئے واوین اور اسمائے صفت استعمال کرتے ہوئے جنرل غلام مصطفی نے احتیاط کا دامن چھوڑ دیا۔ تسلیم کہ سیاست میں تقدیس کا سکہ نہیں چلتا۔ مان لیا کہ پارلیمنٹ کے گرد نور کا ہالہ نہیں۔ نکتہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ پاکستان کے شہریوں کی حکمرانی کا استعارہ ہے۔ پارلیمنٹ جواب دہ ہے۔ ہماری تاریخ میں سب مسائل پیدا ہی اس لئے ہوئے کہ ہم نے جواب دہی کا اصول تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ تاریخ کا ایک صفحہ پھر سے پڑھ لیتے ہیں ۔ ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کے لئے جولائی1946ء میں انتخابات ہوئے۔ مسلم لیگ پاکستان کے نام پر ووٹ مانگ رہی تھی اور کانگریس مخالفت کر رہی تھی۔ پاکستان ایک مطالبہ تھا۔ 3جون 1947 ء کوتقسیم ہند کا منصوبہ تسلیم کر لیا گیا۔ تب صوبوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان میں کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ بنگال ، پنجاب اور سندھ کی اسمبلیوں نے پاکستان کے حق میں رائے دی۔ صوبہ سرحد میں پاکستان کے لئے استصواب ہوا۔ کوئٹہ میونسپل کمیٹی اور قبائلی عمائدین نے پاکستان کے حق میں رائے دی۔ پاکستان صوبوں کی رائے سے بنا۔ یہ ایک وفاق ہے۔ اسے پارلیمانی جمہوریت چاہئے۔ پارلیمنٹ کے اندر چاروں صوبے موجود ہیں ۔ باہر سڑک پر ایک صوبے کی آواز ہے۔ یہ کسی فرد کی کوتاہی یا ادارے کی بالادستی کا سوال نہیں ۔ پاکستان کے لئے پارلیمانی جمہوریت ناگزیر ہے۔ اس اصول سے گریز کیا جائے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ مسئلے کی ایک صورت تو یہ بھی ہے کہ پاکستان کے وزیر اطلاعات کو یہ اعلان کرنے کی ضرورت پڑتی ہے کہ تمام ٹیلی ویژن چینلز کوا سکرین پہ آنے کا حق ہے ۔ یہ اشارہ سمجھئے۔ یہ صحافت اور کیبل آپریٹر کا مجادلہ ہے۔ جنرل غلام مصطفی سے سہو ہوا ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں موجود قوتوں کو ’’چالاک حزب اختلاف‘‘ قرار دیا ہے۔ اگر پارلیمنٹ حزب اختلاف ہے تو اقتدار میں کون ہے؟ اس مقام پر دلیل مائوف ہے، صرف شعر کا سہارا باقی ہے۔ ارادہ تھا کہ پرویز رشید کو مجید امجد کی ایک معروف نظم کی کچھ سطریں سنائوں جو ہمارے شاعر نے 1972ء کی ان تاریک راتوں میں لکھی تھی جب ہم اپنے قصبے میں ریڈیو کے گرد بیٹھے جنیوا کنونشن کی وساطت سے پیغام سنتے تھے ’’میرا نام …ہے۔ اگر میرا کوئی دوست سنتا ہو تو میرے گھر والوں کو بتا دے ’میں خیریت سے ہوں ‘۔ ہمارے جھنگ واسی نے لکھا تھا ’بھائی تو کس سے مخاطب ہے۔؟ ہم کب زندہ ہیں؟‘ پھر خیال آیا۔ اس اقتباس میں نمک پاشی کا احتمال ہے۔ زخموں پر نمک چھڑکنے والے دوست نہیں ہوتے۔ سو، مجید امجد کی نظم موقوف، اختر حسین جعفری کی کچھ سطریں نذر ہیں۔ ان میں اہل وطن کی تکریم بیان کی گئی ہے۔
کل جو لشکر یہاں تک آئیں گے
پوچھنا ان سے دشمنی کا سبب
آسماں وہ انہیں دکھا دینا
میں جسے معتبر سمجھتا ہوں
دیکھئے، محبت کرنے والی عیدن بائی کے دل کی حرارت آپ سے بیان کر دی۔ اگر آپ قادرا قصائی کی ٹھوکروں پہ ایسے ہی لہلوٹ ہیں تویہی عرض کیا جا سکتا ہے ۔ کیا رکھا ہے مقتل میں اے چشم تماشائی…؟
تازہ ترین