• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شاعر نے کیا خوب کہا طرز بیدل میں ریختہ کہنا ...اسد اللہ خان قیامت ہے۔قیامت کا تذکرہ حالیہ سیلاب سے چل نکلا۔آفات قدرتی و سماوی ہمیشہ سے انسانوں کا تعاقب کرتی رہی ہیں۔انسان ہمیشہ سے ان آفتوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر قدرت کے آگے ہمیشہ بے بس و لاچار نظر آیا۔ہم ایک اسے خطے میں جی رہے ہیں جہاں موسمی تغیر و تبدل اپنا رنگ بطریق احسن دکھا رہا ہے۔زعما کہتے ہیں کہ یہ سب آفات انسان کی خود ساختہ ہیں،انسان خود اپنے لئے آفات کو دعوت دیتا ہے۔ہم نے ماحول کے ساتھ وہ کیاکہ آج ماحولیاتی تبدیلی ہمیں آنکھیں دکھا رہی ہے۔ مہذب دنیا نے سائنسی ترقی کے نام پرایسی خوفناک ایجادات کیں اورپھرایسی ضرر رساں گیسوں کا اخراج ہوا کہ آسمان پر بھی سوراخ کردیا۔آج اوزون سورج سے زمین کی طرف آنے والی بالائے بنفشی شعاعوں کو روکنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔گویاآسمان پر تھگلی لگانے کی بھی ضرورت نہیں۔ ہمارے پڑوسی بھارت نے تونرالی منطق نکالی،زمین کا بٹوارہ تو ہوا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس نے آبی وسائل کا بھی ایسا بٹوارہ کیا کہ الامان والحفیظ۔ستلج، بیاس راوی سب سمیٹ لئے گئے۔جو دریا ہمارے نصیب میں آئے ان کے منابع بھارت میں ہیں اور وہ ہمہ وقت ان پر نئے ڈیم ،اور نہریں نکانے کی سوچ بچار میں مصروف رہتا ہے ۔جب بارشوں کی زیادتی ہو ،دریا لبا لب بھر جائیں تو سیلابی پا نی کارخ پاکستان کی جانب کردیا جاتا ہے۔ہم نے گزشتہ 67سالوں میں صرف 41 کے قریب چھوٹے اور بڑے ڈیم تعمیر کئے مگر بھارت میںڈیموں کی تعداد350کے قریب ہے۔
کبھی کسی نے سنا ہے کہ یورپ میں بہنے والے دریائے ڈینیوپ کی وجہ سے یورپ کے ممالک ڈوب گئے ہوں،یہ دریا یورپ کے بہت سے ملکوں سے گزرتے ہیں ۔مگر کبھی کسی ملک نے ان پر اپنا حق نہیں جتایا۔نتیجہ یہ کہ وہ سب سمند ر میں جاکر مل جاتے ہیں۔
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
ہمارے ہاں سیلابوں کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ آفات قدرتی ہوتی ہیں اور انسان چاہتے ہوئے بھی انہیں ،نہیں روک سکتا،مگر ان قدرتی آفات کے لئے بروقت مناسب اقدامات کرکے نقصان کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی سمندری طوفان آتے ہیں،جس پر بظاہر قابو پانے کے لئے کوئی حکمت عملی تیار نہیں کی جاسکتی مگر اس کے باوجود وہ ایسی آفات کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے تئیں بھرپور انتظامات کی کوشش کرتے ہیں تاکہ کم سے کم جانی نقصان ہوسکے۔جبکہ ہمارے ہاں صورتحال تو یہ ہے کہ لوگوں نے دریاؤں کی زمین پر قبضہ کرکے نئی آبادکاریاںبنائی ہوئی ہیں۔ہمارے دریا اور آبی گزر گاہیں سب ناجائز تجاوزات کی زد میںہیں۔لوگوں نےدریائے سندھ پرایسی ایسی جگہوں پر سکونت اختیار کی ہوئی ہے جہاں سال کے 6ماہ دریا پوری آب و تاب کے ساتھ بہتا ہے جبکہ جب وہ پانی اترتا ہے تو دریا کے ارد گرد بسنے والے اس جگہ پر قبضہ کرنے کے لئے امڈ آتے ہیں۔سیلاب سے زیادہ اموات انہی علاقوں میں ہوئی ہیں۔کہیں تو ہم نے دریاؤں کے کنارے درسگاہیں ہی تعمیر کردی ہیں اب دریائے سوان کو ہی دیکھ لیں۔ ہم نے دریائے سوان کے پیٹ میں ایک یونیورسٹی تعمیر کردی ہے،اللہ نہ کرے کسی ناگہانی سیلاب میں یہ یونیورسٹی بہہ کر ماڑی انڈس نہ پہنچ جائے۔یہ جو پانی کے ذخائر مل رہے ہیں ،ہمیں چاہئے کہ ہم مختلف بند اور آبی ذخائر تعمیر کریں اور اس پانی کو برے وقت کیلئے ذخیرہ کریں،یہ ہماری بقا کے لئے ضروری ہے۔ہیڈ تریموں،تونسہ بیراج،گدواور سکھر سمیت تمام بیراجوں میں پانی کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش وہی ہے جو تعمیر کے وقت رکھی گئی تھی۔ہم نے آنے والے حالات کا اندازہ لگاتے ہوئے یہ زحمت نہیں کی کہ ان بیراجوں کی توسیع کے لئے ہنگامی اقدامات کئے جائیں۔پورے جنوبی پنجاب کے آگے بند کی ماند کھڑے ہوئے تریموں کی حالت ایسی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت بے رحم موجوں کے سامنے یہ ہمت ہار جائے گا اور پانی کی تیز موجوں کے ساتھ بہہ جائے گا۔صورتحال بالکل ایسی ہی ہے۔حکومت پنجاب کو چاہئے کہ جہاں چین اور ترکی جیسے دوست ممالک سے میٹرو،بلٹ ٹرین او ر دیگر منصوبوں پر سرمایہ کاری کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں ،وہیں ان بیراجوں کی بھی حال پرسی کرلیں تو بہتر ہوگا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ کے ان اقدامات کی وجہ سے بیرونی دنیا سے لوگ ہم سے سبق سیکھنے آئیں۔
1970 میں بھی سیلاب آیا تھااور اپوزیشن احتجاجی تحریک چلانے پر مصروف تھی اور آج پھر یہی صورتحال ہے ،ملک میں آفت کا سماں ہے۔ابلتے ہوئے دریالہلہاتی فصلوں اور کھڑی بستیوں میں گھسنے پرآمادہ ٔ فساد ہیںاور جناب خان صاحب اور شیخ السلام ا اپنے دھرنوں میں مصروف ہیں ۔دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہویا درمیاں رہے
افتاد پڑی ہے ان مجبور بے کس کسانوں اور عام شہریوں پر جن کی عمر بھر کی پونجی سیلاب کی نذر ہوئی یا ہونے کو ہے ۔ایسے موقع پر تما م قوم کو یکجان ہو کر یکسوئی سے اس آفت کا مقابلہ کرنا چاہئے،یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیر اعلی پنجاب ، وزیر اعظم اورچیف آف آرمی اسٹاف سمیت سب سیلاب زدگان کی دل جوئی میں مصروف ہیں، فوج بہادر جوان شہریوں کی حفاظت کے لئے کمر بستہ ہیں اور تواور جناب وڈاسائیں ...جناب قائم علی شاہ بھی توڑی بند کے معائنے پر تشریف لے گئے اور انہوں نے چیف انجینئر محکمہ انہار کی خوب گوشمالی کی کہ اگراسـ’’ بند‘‘ کو کچھ ہوا تو بچو تمھاری خیر نہیں۔
دکھ کا مقام ہے کہ ہم ہر بار ایسی آفت کا مقابلہ کرنے کے بعد پھر سبق بھول جاتے ہیں تاآ نکہ ایک نیا سیلاب ہمیں آکر جھنجھوڑنے لگتا ہے، 2010 میں آنے والے سیلاب کے بعد اگر ہم نے کبھی کوئی سبق سیکھا ہوتا تو آج ہم اتنے پریشان نہ ہوتے میں حیران ہوں کہ انگریز 1939میں ہیڈ تریموں کی تعمیر میں مصروف تھا ،حالانکہ وہ جانتا تھا کہ ہندوستان میں اس کے دن تھوڑے ہیں۔ہم نے انتہائی چوکس اور مستعد سسٹم ورثے میں پائے ،ہر نہر پر دس میل کے بعد محکمہ انہار کا ایک ریسٹ ہاؤس اور اس کا اپنا برقی نظام کہ سیلاب یا خطرے کی صورت میں بذریعہ تار اطلاع متعلقہ لوگوں تک پہنچائی جائے۔مگر افسوس ہم نے ہر سسٹم کے ساتھ کھلواڑ کیا ۔میں درد مندی سے جناب وزیراعظم سے کہوں گا کہ اپنی اچھی ٹیم تشکیل دیجئے،ان خوشامدی ابن الوقت لوگوں سے دور رہئے اور اچھے لوگوں کا انتخاب کریں اور ان سے مشورہ کیجئے۔سیلاب کے بعد سیلاب زدگان کی آباد کاری،ان کے نقصانات کا ازالہ آئندہ غذائی ضروریات کا مناسب تخمینہ لگانا اور اپنے دریاؤ ں کا نظام بہتر کرنا، خطرات کی مناسب پیش بندی کرنا ضروری ہے۔وگرنہ بہت دیر ہوجائے گی۔
اے آنکھ اب تو خواب کی دنیا سے لوٹ آ
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
یہ امر خوش آئند ہے کہ جناب وزیراعظم اور وفاقی کابینہ نے اس مشکل کی گھڑی میں غیروں سے مدد مانگنے کے بجائے اپنے وسائل پر انحصار کا عندیہ دیا ہے۔آپ سے اسی دانشمندی کی ہی توقع تھی،اٹھئے اور اس قوم کو اس نہج پر گامزن کیجئے کہ کل آپ جناب بابائے قوم کے درست جانشین بننے کا اہل ثابت کریں۔یاد رکھئے کہ فرمان خداوندی ہے کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔
تازہ ترین