• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روزنامہ نیوز کے کالم نگارعاصم ظفر خان نے6ستمبر2014بروز ہفتہ، اپنے کالم میںدھرنا بحران کے دوران الیکٹرانک میڈیا کے کردار کا احاطہ کیا اور اپنی تحریر کا اختتام ان الفاظ میں کیا ۔
" The circus is now ending. Or perhaps already ended. Democracy has survived. But Journalism died'.
ـ’’ سرکس اب ختم ہو رہا ہے ۔ یا غالباً پہلے ہی ختم ہو چکا ہے ۔ جمہوریت بچ گئی ہے۔ تا ہم صحافت اپنی موت مر چکی ہے‘‘۔
پاکستانی صحافت پر کیا گزری ۔ممکن ہے اس پر ایک سے زیادہ آراء موجود ہوں۔ تاہم درحقیقت الیکڑانک میڈیا نے اپنی ساکھ کو بڑی حد تک مجروح کیا ہے۔بلاشبہ اسلام آباد میں جاری دو دھرنوں کے حوالے سے میڈیا کا کردار زیر بحث آ رہا ہے اور ضرور آنا چاہیے۔ نہ صرف دانش ور اور ملکی حالات پر نگاہ رکھنے والے مبصرین اس کردار کو گہری نگاہ سے دیکھ رہے ہیں بلکہ عام لوگ بھی گھروں اور دفاتر میں اس کردار پر بحث مباحثہ کرنے لگے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ جمہوری معاشروں میں احتجاج کا حق فرد کو بھی حاصل ہوتا ہے، جماعت کوبھی اور معاشرے کے مختلف طبقات کو بھی۔ اس حق کی ضمانت پاکستان کا آئین بھی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس وقت پاکستان میں جمہوری نظام قائم ہے اور حکومت خواہش کے با وجود اس طرح کے احتجاج پر قدغن لگانے کی سکت نہیں رکھتی۔ مزید براں میڈیا کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ آزادانہ ماحول میں احتجاجی تحریک یادھرنوں کی رپورٹنگ کرے اور حالات کی اصل تصویر پاکستان کے عوام تک پہنچائے۔ تبصرہ نگاروں اور اہل دانش کا بھی استحقاق ہے کہ وہ اپنے اپنے نکتہ نظر کے مطابق صورتحال کا جائزہ لیں اور عوام کو اپنی رائے سے آگاہ کریں۔
لیکن جس طرح احتجاج کو قانون ، قاعدوں ، ضابطوں اور جمہوری روایات کاپابند ہونا چاہیے۔ اس طرح میڈیا سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ رپورٹنگ اور ٹاک شوز میں ذمہ داری کے تقاضوں کو ملحوظ رکھے۔ اگر احتجاج لا قانونیت میں بدل جائے تو وہ انتشار ، افراتفری اور انارکی کوہوا دے گا۔ جس کا نتیجہ جمہوری نظام کی بساط لپٹنے کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔اسی طرح میڈیا اگر قومی مفاد ، جمہوریت کے تقاضوں اور ذمہ دارانہ حدود سے تجاوز کرئے گا تو وہ بھی فکری انتشار اور معاشرے میں بے یقینی کو ہوا دے گا۔ موجودہ بحران کے تناظر میں اگر ہم دیانت دارانہ نگاہ سے دیکھیں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ جہاں دھرنا دینے والی جماعتوں نے آئین و قانون کے تقاضوں کو پا مال کیا اور کر رہی ہیں۔ اسی طرح میڈیا کا ایک حصہ بھی توازن قائم نہیں رکھ سکا اور کسی نہ کسی وجہ سے اس نے اپنا پورا وزن لا قانونیت، انتشار اور غیر جمہوری قوتوں کے پلڑے میں ڈال دیا۔ بلاشبہ اس طرح کے بحرانوں میں تمام کاروباری مفادات اور شخصی مقبولیت سے منہ موڑ کر قومی و ملکی مفاد کی راہ پر چلتے رہنا ایک کٹھن کام ہے ۔لیکن آزمائش کی گھڑی میں ہی کھرے کھوٹے کی پہچان ہوتی ہے۔ موجودہ دھرنا بحران کے تناظر میںالیکڑانک میڈیاکے حوالے سے جیو کا کردار ایک مثالی نمونے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے ۔گرچہ یہ چینل طویل عرصے سے ایک امتحان میں مبتلا ہے۔ اسے ناروا بندش کے باعث شدید مالی مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ ان حالات میں بھی جیو نے کسی مصلحت اور مفاد کو خاطر میں لائے بنا اپنا پورا وزن جمہوریت اور جمہوری اداروں کے پلڑے میں ڈال دیا۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جس طرح پارلیمنٹ میں مختلف سیاسی جماعتیں باہمی اختلافات بھلا کر جمہوریت کے لیے یک جاں ہو گئیں ۔ اسی طرح میڈیا کے محاذ پر جیو نے تمام تحفظات کو ایک طرف رکھتے ہوئے پوری قوت کیساتھ آئین ، جمہوری نظام اور سسٹم کے حق میں آواز اٹھائی۔ جیو کے علاوہ بھی کچھ چینلز نے اسی مثبت اور تعمیری طرز فکر کا مظاہرہ کیا۔ جس کی وجہ سے ان کے قد کاٹھ میں بہت اضافہ ہوا۔
تاہم افسوسناک امر ہے کہ کچھ ٹی وی چینلز نے نہ صرف یہ کہ قومی تاریخ کے اس اہم موڑ پر ساری روایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے افراتفری اور انتشار کی قوتوں کا ساتھ دیا بلکہ وہ جمہوریت کے خلاف آمریت کے پرچم بردار بن گئے۔ کھلے بندوں فوج کو مداخلت کرنے ، ٹیک اوور کرنے اور حکومت کو گھر بھیج دینے پر اکساتے رہے۔ معاملہ یہیں پہ ختم نہیں ہوا۔ الزامات کی بوچھاڑ میں زبان و بیان کے تمام قرینے فراموش کر دئیے گئے اورصحافت کے اخلاقی تقاضوںکو پس پشت ڈال دیا گیا ۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ کچھ لوگ اصول ، نظریے ، قاعدے ، قانون اور دستور کے حوالے سے بات کرنے کے بجائے محض ذاتی دشمنی کی بنیاد پر ٹی وی اسکرین کو تماشا بنا بیٹھے۔ الیکٹرانک میڈیا نے اس دوران جس طرح پوری قوم کو ذہنی اذیت اور ہیجان میں مبتلا رکھا وہ انتہائی افسوسناک امر ہے۔
یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ کیا ان چینلز کے لئے کوئی ضابطہ اخلاق نہیں ؟ کیا لائسنس حاصل کرتے وقت ان چینلز نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کا عہد نہیں کیا اور کسی طرح کی کوئی ضمانت نہیں دی ؟ ایک بار پھر پیمرا انتہائی بے بس و لاچار دکھائی دیا۔وفاقی حکومت پیمرا کی اصلاح احوال کا دعوی کرتی رہی ہے اور ضابطہ اخلاق کے نفاذ کی یقین دہانی کرواتی رہی ہے۔ تا حال ضابطہ اخلاق کا نفاذ یقینی بنایا گیا اور نہ ہی پیمرا کو توانا اور متحرک بنانے کے لئے اقدامات کئے گئے ہیں۔ تاہم درحقیقت اس معاملے میں حکومت کو ہی کلی طور پر مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔بعض معاملات میں حکومت کے ہاتھ بھی بندھے دکھائی دیتے ہیں۔ عدلیہ کی جانب سے حکومت کو چئیر مین پیمرا کی تعیناتی سے روک دیا گیا۔ مزید براں پیمرا کیجانب سے کئی ٹی وی چینلز کو سینکڑوں شو کاز نوٹسزجاری کیے گئے ۔بیشتر پر عدلیہ حکم ہائے امتناعی دے کر پیمرا کے ہاتھ عملی طور پر باندھ چکی ہے۔اسکے باوجود یہ حکومت ہی کی ذمہ داری ہے کہ بے بسی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے کوئی راہ نکالے اور اپنی رٹ قائم کر کے پوری قوت سے بروئے کار آئے۔
قابل ذکر امر ہے کہ آج تک پیمرا کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر صرف ایک چینل کے خلاف ایکشن لیا گیا، مقدمہ کا فیصلہ ہوا اور سزا بھی دی گئی۔ وہ چینل جیو ہے۔ تاہم سزا پانے اور کروڑوں روپے جرمانہ کی ادائیگی کے با وجود جیو تا حال بندش کی سزا بھگت رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے با وجود حکومت ابھی تک جیو کو ملک کے تمام حصوں میں بحال کروانے میں نا کام رہی ہے۔اس معاملے میں بھی حکومت کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی اشدضرورت ہے۔
یہ ہماری تاریخ کا عجیب موڑ ہے کہ دھرنا دینے والے قتل و غارت گری کی باتیں کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ پر قبضہ کے لئے اکساتے ہیں، وزیر اعظم کو گریبان سے پکڑ کر ایوان وزیر اعظم سے نکالنے کے نعرے لگاتے ہیں۔ سول نا فرمانی کی تلقین کرتے اور ٹیکس نہ دینے پر ابھارتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ پی ٹی وی پر قبضہ کرتے اور فاتحانہ انداز میں حکومت کو للکارتے ہیں اور میڈیا کا بڑا حصہ" مجبور "ہے کہ یہ ساری با غیانہ تقریریں پورے اہتمام سے سنائے اور پوری قوم کو یر غمال بنا کر عملاً دھرنوں میں لا بٹھائیں۔ 14 اگست سے اب تک ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے بیشتر وقت دھرنوں ، با غیانہ تقریروں اور اشتعال انگیز نعروں کی نذر کیا اور ملک و قوم کے حقیقی مسائل پر توجہ نہ ہونے کے برابر رہی ۔ سیاست اپنی جگہ ۔مطالبات بھی اپنی جگہ ۔جمہوری معاشروں میں یہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے ۔تاہم میڈیا کے طرز عمل نے ایک معمولی سر گرمی کو غیر معمولی بنادیا اور یوں لگا کہ سیاست ،ریاست پرحاوی ہوگئی ۔افسوس کہ چین جیسے دوست ملک کے صدر کا دورہ بھی اس تماشے کی نذر ہو گیا۔
ان شاء اللہ پاکستان اس بحران سے نکل آئے گا اور یقینا جمہوریت زیادہ توانا بن کر ابھرے گی۔ لیکن میڈیا کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان ضرور بن گیا ہے ۔عمران خان ، طاہر القادری اور حکومت وقت اپنا اپنا حساب کتاب کرتے رہیں گے کہ کس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ لیکن میڈیا کو اجتماعی طور پر اس سوال کا جواب ضرور تلاش کرنا چاہئے کہ کیا اس کا کردار ایک مہذب جمہوری ریاست کے معیار اخلاقیات کے مطابق تھا یا نہیں۔ کس نے کیا کھویا اس کا اندازہ تو کچھ عرصہ بعد ہو گا لیکن ایک بات طے ہے کہ میڈیا کے ایک حصے کے طرز عمل کی وجہ سے کم از کم الیکڑانک میڈیا نے بہت کچھ کھویا ہے اور ہمیںروزنامہ نیوز کے کالم نگار عاصم ظفر خان سے اتفاق کرنا پڑتا ہے۔
تازہ ترین