اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کا ایک مہینہ مکمل ہو چکا ہے ۔ اس ایک مہینے میں ہمیں بحیثیت قوم یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ ہم نے کیا کھویا کیا پایا ۔ ان دھرنوں سے ہمیں بحیثیت قوم یہ پتہ چل گیا ہے کہ انقلاب یا تبدیلی اس طرح رونما نہیں ہوتے ، جس طرح عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کہہ رہے ہیں ۔ جمہوریت بھی کرپشن ، لوٹ مار اور بیڈ گورننس سے نہیں چل سکتی ۔ تاریخ کے تجربات اور عہد جدید کے حالات کا ادراک کئے بغیر ہماری سیاسی قیادت رہنمائی کا حق ادا نہیں کر سکتی اور نہ ہی وہ قوم کو بحرانوں سے نکال سکتی ہے ۔ حالیہ سیاسی بحران سے ہمیں معروضی حقائق کی وقت کے تقاضوں کے تناظر میں ازسر نو تشریح کرنے کا موقع میسر آیا ہے۔ عام حالات میں شاید ان باتوں کا ہمیں اس طرح ادراک نہ ہوتا ۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری تبدیلی اور انقلاب کا نعرہ لے کر آئے اور لوگوں نے اس نعرے کی پذیرائی کی ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں اور یہ تبدیلی نہ وہ ہے، جس کی عمران خان بات کررہے ہیں اور نہ ہی یہ تبدیلی وہ ہے جس کی ڈاکٹر طاہر القادری بات کررہے ہیں ۔ تبدیلی اس طرح رونما ہوتی ہے اور نہ انقلاب اس طرح آتے ہیں ۔ انقلاب کے لئے معروضی حالات کا ہونا ضروری ہے ۔جب لوگوں میں بہت مایوسی ہو، ان کے مسائل بے پناہ ہوں ، ان مسائل پر کوئی توجہ نہ دے رہا ہو، معاشرے پر اشرافیہ کا مکمل قبضہ ہو اور لوگوں کے پاس کوئی دوسرا راستہ موجود نہ ہو، تب انقلاب برپا ہوتے ہیں یا تبدیلی رونما ہوتی ہے ۔ ان معروضی حالات کے ساتھ ساتھ ایسی قیادت کا ہونا بھی ضروری ہے جس کی جڑیں عوام میں ہوں اور وہ لوگوں کے دکھوں اور مسائل کو سمجھتی ہو ۔ اس سے بھی زیادہ ضروری ایک وفاقی سیاسی پارٹی کا وجود ہے ،جو ملک کے ہر حصے میں اپنا گہرا سیاسی اثر و رسوخ رکھتی ہو ۔ معروضی حالات ، عوام سے جڑی ہوئی سیاسی قیادت اور وفاقی سیاسی پارٹی انقلاب کے بنیادی اجزاء ہیں اور ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں ۔ اگر انقلاب یا تبدیلی کے لئے معروضی حالات موجود ہوں لیکن مطلوبہ سیاسی قیادت اور سیاسی جماعت موجود نہ ہو تو پھر انقلاب یا مثبت تبدیلی کی بجائے انتشار پیدا ہوتا ہے اور معاشرہ پیچھے کی طرف چلا جاتا ہے ۔
تاریخ انسانی میں بے شمار انقلابات آئے ۔ فرانس ، روس ، چین ، ویت نام ، ایران ، جنوبی افریقہ کے انقلاب سمیت جدید تاریخ کے دیگر کئی انقلاب کا ذکر کیا جا سکتا ہے ۔ میرے خیال میں انقلاب ایران آخری انقلاب تھا ۔اب دنیا میں اس طرح کا انقلاب نہیں آئے گا اگر کوئی انقلاب آیا تو وہ روایتی انقلابوں سے مختلف ہو گا ۔ تیونس ، مصر ، الجزائر ، اردن ، شام اور عراق سمیت مختلف عرب ممالک میں ہم نے حال ہی میں بڑی بڑی عوامی تحریکوں کا مشاہدہ کیا ۔ حکومتوں کے تختے بھی الٹ گئے لیکن اس صورت حال کو تبدیلی یا انقلاب سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان تحریکوں یا حکومتوں کا تختہ الٹنے کے نتیجے میں متعلقہ ممالک کے اندر نہ تو امن قائم ہو سکا اور نہ ہی یہ طے ہو سکا کہ آئندہ ان ممالک کو کس طرح کے نظام ہائے حکومت کے تحت چلایا جائے گا ۔
پاکستان میں بھی مختلف تحریکیں چلیں ۔ آزادی کے بعد سابقہ مشرقی پاکستان میں بنگلہ زبان کی تحریک چلی ۔ ایوب خان کے خلاف طلبہ کی تحریک بھی بہت اہم تحریک تھی ،جو تین سالہ ڈگری کورس اور یونیورسٹی آرڈی نینس کے خلاف تھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک ، جنرل ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک ، بعد ازاں آئی جے آئی ، اے آر ڈی سمیت کئی تحریکیں چلیں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی ایک لانگ مارچ کیا تھا ۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی آزاد عدلیہ کی تحریک ہماری نئی نسلوں کی یاد داشت میں موجود ہے ۔ ان تحریکوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ بیشتر تحریکیں اپنے مقاصد سے ہٹ گئیں ۔ ہو سکتا ہے کہ ان تحریکوں کے حامی انہیں کامیاب قرار دیتے ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ ساری تحریکیں ناکام ہوئیں ۔ خاص طور پر پی این اے کی تحریک کا یہاں ذکر ضروری ہے ، جس کے نتیجے میں پاکستان میں طویل ترین مارشل لا نافذ ہوا۔ آج ملک میں ہمیں بحیثیت قوم جس تباہی کا سامنا ہے ، وہ اسی پی این اے کی تحریک کا منطقی نتیجہ ہے ۔ لہٰذا تبدیلی اور انقلاب کا نعرہ لگانے والوں کو چاہئے کہ وہ تاریخ ، موجودہ عالمی حالات اور اپنے ملک کے زمینی اور تاریخی حقائق کے تناظر میں تبدیلی اور انقلاب کے اپنے تصورات پر نظر ثانی کریں ۔
سیاسی تحریکیں کامیاب ہوں یا ناکام ، وہ اپنے اثرات ضرور چھوڑتی ہیں ۔ یہ اثرات کبھی مثبت ہوتے ہیں اور کبھی منفی۔ ان دھرنوں کے اثرات مثبت بھی ہیں اور منفی بھی ۔ مثبت اثرات یہ ہیں کہ سیاسی قوتوں نے یہ محسوس کر لیا ہے کہ جمہوری اداروں کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی ہے ۔ پہلی مرتبہ اس ملک کی تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت کے لئے متحد نظر آئی ہیں یہ اور بات ہے کہ یہ اتحاد کچھ مخصوص مفادات کے لئے ہے ۔ ان دھرنوں سے ملک کی سیاسی قیادت کو بھی یہ احساس ہوا ہے کہ اب روایتی سیاست کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کو نہیں چلایا جا سکتا ۔ اب شعوری کوشش کی جائے کہ سیاسی جماعتوں کو جمہوری انداز میں ازسر نو منظم کیا جائے اور سیاسی جماعتوں کے منشور پر عمل درآمد کیا جائے ۔ اب یہ بھی احساس پیدا ہو گیا ہے کہ جو سیاسی جماعتیں عوام سے کٹی ہوئی ہیں یا جن کی تنظیم نہیں ہو گی ، وہ آئندہ عام انتخابات میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گی ۔ ان دھرنوں سے عوام میں بھی سیاسی شعور بیدار ہوا ہے اور ان کی تبدیلی سے متعلق امنگیں اور خواہشات اجاگر ہوکر آئی ہیں ۔ دھرنوں کے دوران اگرچہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جمہوریت کے تحفظ کے عزم کا اظہار کیا گیا لیکن اس بات کو بھی تسلیم کیا گیا کہ کرپشن ، لوٹ مار اور بیڈ گورننس بھی ہے ۔ جمہوریت کی حمایت بہت اچھی بات ہے مگر اس کے پیچھے ان لوگوں نے بھی یہ ہی کیا ہے یہ دراصل ان کو اپنے آپ کو بچانے کے لئے ہے ۔ ایسی صورت حال میں جمہوریت کو زیادہ دیر نہیں چلایا جا سکتا ۔ سیاسی قیادت کو یہ بھی احساس ہو گیا ہے کہ احتساب کے بغیر جمہوریت ممکن نہیں ہے ۔ ان دھرنوں کے منفی اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں ۔اس عرصے میں ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔ پاکستان کے حوالے سے دنیا میں سیاسی طور پر ایک غیر مستحکم ملک کا تاثر پیدا ہوا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے ۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ دھرنوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے سیاسی بحران میں پاکستان کی فوج مکمل طور پر غیرجانبدار رہی ہے اور اس کی طرف سے کسی قسم کی مداخلت نہیں ہوئی ہے ۔ یہ ایک مثبت بات ہے ، جو پاکستان کو ایک جمہوری ملک بنانے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے ۔ اگر فوج کی مداخلت کے حالات پیدا ہو جاتے تو پاکستان میں سیاسی استحکام لانے کا خواب پھر طویل عرصے تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکتا ۔ آج کے حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ (ن) ، تحریک انصاف اور ایم کیوایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے انداز سیاست اور اپنی حکمت عملیوں کے بارے میں دوبارہ سوچنا پڑے گا ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت اردگرد کے حالات اور دنیا میں رونما ہوتی ہوئی تبدیلیوں کا ادراک نہیں کرتیں اور وہ ان عوامل پر زیادہ توجہ دیتی ہیں جو معروضی حالات سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے فکری اور شعوری ارتقاء کے لئے اپنی تنظیموں کے اندر حالات پیدا کرنا ہونگے۔ اس کے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکیں گی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تحریک نے ملک کی موجودہ قیادت خاص طور پر وہ قیادت اور وہ پارٹیاں جو پچھلے 30سال سے اس ملک میں جمہوریت کے نام پر کچھ مخصوص خاندانوں اور افراد کے لئے سیاست کررہی ہیں ان کی روایتی سیاست پوری طرح عوام کے سامنے آچکی ہے وہ اب غیر متعلق ہوتی جارہی ہے۔ ملک میں خاص طور پر پنجاب میں ایک بہت بڑا خلاء پیدا ہوا ہے۔ خلا کبھی رہتا نہیں ہے۔ آج ملک میں عمران خان سب سے زیادہ مقبول سیاستدان ہیں اور جس طرح انھوں نے روایاتی سیاست کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے وہ آج ہر گھر میں موجود ہیں ۔ خاص طور پر پنجاب اور نوجوانوں میں ایسے میں عمران خان کوخاص طور پر ضرور سوچنا چاہئے کہ انہوں نے کیا کھویا اور کیا پایا ۔ اگر وہ انتخابات میں دھاندلی کے ایشو پر اس طرح کا ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد اور عام لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے سیاسی دباؤ ڈالتے تو انہیں زیادہ بہتر نتائج ملتے ۔ اس ساری صورت حال کا گہرائی سے تجزیہ کرکے اب سیاسی جماعتوں کو آگے بڑھنا ہو گا ۔ ورنہ انقلاب یا تبدیلی تو نہیں آئے گی بلکہ ملک میں انتشار پیدا ہو گا ۔