• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملکی سلامتی اور وقار کو اولین ترجیح دینا وہ مسلمہ آفاقی اصول ہے جسے بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں پڑنی چاہئے مگر منگل کے روز پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے اس اصول اور عزم کو ایک بار پھر دہراکر واشگاف لفظوں میں واضح کردیا ہے کہ ملکی سلامتی اور قومی مفاد کے منافی کام کرنے والے عناصر کیلئے معافی کی کوئی گنجائش نہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں خزانہ اور داخلہ کے وفاقی وزیروں، مشیر برائے سلامتی ، آئی ایس آئی کے سربراہ اور اعلیٰ حکام نے اگرچہ کسی کا نام نہیں لیا مگر انکے مخاطب وہ تمام عناصر تھے جن کا طرز عمل پیر 22؍اگست کے واقعہ جیسا ہے۔ اس روز ایک تقریر میں ملک کے اداروں کیلئے نازیبا اور قومی سلامتی کے منافی الفاظ اور نعروں کا استعمال کیا گیا اور لوگوں کو میڈیا کےدفاتر پر حملوں پر اکسایا گیا۔ سیاسی و عسکری قیادت کے اجلاس نے واضح کیا کہ دوسرے ملک میں بیٹھ کر کسی فرد کو کراچی کا امن تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ پیر کے روز رونما ہونے والے واقعہ نے ایک جانب متعلقہ پارٹی کےمتعدد لیڈروں اور کارکنوں سمیت پاکستان بھر کے محب وطن عناصر کو سخت ذہنی صدمے سے دوچار کیا تو دوسری طرف دنیا بھر کے میڈیا اور خود پاکستانی چینلوں کی توجہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے ہٹا کر ان افسوسناک نعروں کی طرف مبذول کرادی جن پر تشویش کااظہار ملک کے مختلف شہروں بالخصوص سندھ میں ہونے والے عوامی مظاہروں، سیاسی پارٹیوں کے مذمتی بیانات اور صوبائی اسمبلیوں میں آنے والی قراردادوں کی صورت میں ہوا ہے۔ ملک کی چوتھی بڑی سیاسی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ کے لندن میں مقیم قائد الطاف حسین کی تقریر اور بعض میڈیا ہائوسز پر حملوں کے تناظر میں پارٹی کی کراچی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نےمنگل کے روز ایک پریس کانفرنس میں اظہار معذرت کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ ایم کیو ایم کو اب پاکستان سے چلایا جائے گا، کسی کارکن یا قائد کو پاکستان مخالف نعرہ نہیں لگانے دیں گے۔ انہوں نے اس ضمن میں پارٹی قائد کی ذہنی کیفیت اور خرابی صحت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس پر توجہ دینے کی ضرورت اجاگر کی۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اور نسرین جلیل سمیت متعدد رہنمائوں نے پاکستان دشمن نعرے سے لاتعلقی اور بار بار معافی مانگنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ بعد کی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت سمیت کئی لیڈروں نے پارٹی اور سیاست سے علیحدگی اختیار کرلی جبکہ ٹوئٹ پر بھی پارٹی کے رہنمائوں نے پاکستان زندہ باد کے نعرے درج کئے۔ دوسری جانب ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے رہنما واسع جلیل کا لندن سے کہنا ہے کہ معاملات حسب سابق چلتے رہیں گے ۔ ایم کیو ایم کے باغی دھڑے پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے ڈاکٹر فاروق ستار کی پریس کانفرنس کو ڈرامہ اور ذہنی دبائو کا سرٹیفکیٹ دے کر الطاف حسین کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش قرار دیا ہے۔’’ متحدہ ‘‘ کے آئین پر دسترس رکھنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ پارٹی کے سپریم لیڈر کی حیثیت سے تمام پالیسی فیصلوں پر ان کی توثیق لازمی ہے۔ دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کی اصل طاقت سیکٹر انچارج ہیں جن سے قائد تحریک کا ٹیلیفون پر مسلسل رابطہ رہتا ہے۔ پارٹی کی مجموعی صورت حال یہ ہے کہ حب الوطنی کے منافی نعروں پر پارٹی کے اندر بھی شدید ردعمل ہوا ہے۔ مگر ایسے لوگ بھی ہیں جو پارٹی قائد کیلئے جان دینے کو تیار رہتے ہیں۔ ان حالات میںمعاملات کو پوری احتیاط سے ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے۔اہم سیاسی رہنمائوں کے اس مشورے کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ مشکوک اور سماج دشمن عناصر کی سرگرمیوں کا نوٹس لیتے ہوئے یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ بے گناہ اس کی لپیٹ میں نہ آئیں۔ یہ مشورہ بھی توجہ طلب ہے کہ پارٹی پر پابندی لگانا مناسب نہیں ہوگا۔ تاہم پارٹی کے لوگوں کو ملکی مفاد کے تقاضوں کے حوالے سے اعتماد میں لیکر ایسی دانستہ یا نادانستہ چیزوں کی روک تھام کی موثر تدابیر ضرور کی جانی چاہئیں جو بار بار بعض شوشوں کی صورت میں پاکستان دشمن قوتوں کے لئے سازگار ماحول بنانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔

.
تازہ ترین