• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت کے ذمہ نجی پاور کمپنیوں کو واجب الادا گردشی قرضے ایک بار پھر 287 ارب روپے سے تجاوز کرگئے ہیں جن میں ہر ماہ تقریباً 28.6 ارب روپے کا اضافہ ہورہا ہے۔ اس سے قبل وزیراعظم میاں نواز شریف نے گزشتہ سال اقتدار سنبھالتے ہی مجموعی 480 ارب روپے کے سابقہ گردشی قرضوں کی ادائیگی کردی تھی۔ حکومت بجلی کی پیداواری لاگت اور صارفین کو بجلی سپلائی کے نرخوں کے فرق کے لئے ہر سال زر تلافی کی شکل میں بھاری رقوم واپڈا اور پیپکو کو ادا کرتی ہے۔ گزشتہ سال 2013-14ء کے لئے حکومت نے بجٹ میں زر تلافی کی مد میں 150 ارب روپے رکھے تھے جبکہ رواں مالی سال زر تلافی کے لئے بجٹ میں 25 ارب روپے ماہانہ یعنی 300 ارب روپے سالانہ رکھے گئے ہیں۔ 287 ارب روپے کے موجودہ گردشی قرضے حکومتی زر تلافی کی ادائیگی کے علاوہ ہیں یعنی مجموعی گردشی قرضے 587 ارب روپے ہیں اور 300 ارب روپے زر تلافی کی ادائیگی کے بعد حکومت کو مزید 287 ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کرنا ہے۔ واضح ہو کہ گزشتہ ایک سال میں پاکستان کے مقامی اور بیرونی قرضوں میں 11.63% اضافہ ہوا ہے جو جولائی 2014ء میں 15.8 کھرب روپے تک پہنچ چکے ہیں جبکہ گزشتہ سال یہ قرضے جولائی 2013ء میں 14.16 کھرب روپے تھے۔17 جون 2014ء کو نجی پاور کمپنیوں نے اپنے واجبات کی عدم ادائیگی پر NTDC کو نوٹس جاری کئے تھے اور ایک ماہ بعد یعنی جولائی میں یہ کمپنیاں واجبات کی ادائیگیوں کے سلسلے میں دی جانے والی حکومتی ضمانتوں کے ذریعے اپنی رقوم بینکوں سے وصول کرنے کی مجاز تھیں، بصورت دیگر حکومت کو ڈیفالٹ تصور کیا جاتا جس سے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں میں حکومتی ساکھ متاثر ہوتی لیکن موجودہ سیاسی بحران کے پیش نظر ان کمپنیوں نے حکومت کی ضمانتوں سے وصولی کا حتمی نوٹس کچھ عرصے کے لئے موخر کردیا ہے تاہم سیاسی بحران کے خاتمے کے بعد یہ کمپنیاں اپنے واجبات کی عدم ادائیگی کی صورت میں سپریم کورٹ جانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث پاور کمپنیوں کے لئے بجلی کی پیداوار جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے کیونکہ ان کمپنیوں کو اپنے بجلی گھر چلانے کے لئے فرنس آئل اور گیس کے واجبات کی ادائیگیوں کے سلسلے میں سخت مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ پی ایس او کے سابقہ بورڈ آف مینجمنٹ کے رکن کی حیثیت سے مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ سرکولر ڈیبٹ کی وجہ سے تیل کے بلوں کی بروقت ادائیگیاں نہ ہونے کے باعث پی ایس او کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت پی ایس او کے واپڈا، حبکو اور کیپکو پر فرنس آئل کی سپلائی کی مد میں 160 ارب روپے جبکہ ریلوے، کے ای ایس سی اور پی آئی اے پر 9 ارب روپے واجب الادا ہیں، اس طرح یہ ادارے پی ایس او کے مجموعی طور پر 169 ارب روپے کے نادہند ہیں جس کے باعث پی ایس او کو تیل کی امپورٹ کے لئے بینکوں میں ڈیفالٹ کا سامنا ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں گردشی قرضوں کے مستقل خاتمے کے لئے سفارشات پیش کی تھیں اور بتایا تھا کہ 2006ء تک ملکی گردشی قرضے اپنی حد میں تھے لیکن جب آئی پی پیز کی مہنگی بجلی (14 روپے سے 17 روپے فی یونٹ)کی پیداوار ملک کی مجموعی بجلی کی پیداوار سے 30% سے تجاوز کرگئی تو گردشی قرضے بڑھنے شروع ہوگئے۔ 2012ء میں آئی پی پیز کی مہنگی بجلی کی پیداوار ملکی بجلی کی مجموعی پیداوار کا 40% یعنی تقریباً 8000 میگاواٹ سے تجاوز کرگئی تھی جس سے پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی اوسط لاگت میں نہایت اضافہ ہوا۔ بجلی کے نرخ نہ بڑھانے کے عوض حکومت نے 2008ء سے 2013ء تک واپڈا کو 1.4 کھرب روپے کی زر تلافی دی تھی جو قومی خزانہ کسی طرح برداشت نہیں کرسکتا۔ موجودہ بجلی کی فی یونٹ لاگت 14.70 روپے ہے جبکہ حکومت صارفین سے 8.81 روپے وصول کررہی ہے، اس طرح حکومت صارفین کو بجلی پر 5.9 روپے کی زر تلافی دے رہی ہے جو مجموعی طور پر 250 ارب روپے سالانہ بنتا ہے۔ حکومت نے پہلے مرحلے میں ڈھائی روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اطلاق 300 یونٹ تک استعمال کرنے والے صارفین پر نہیں ہوگا لیکن آئی ایم ایف سے لئے گئے 5.3 بلین ڈالر کے قرضے کی شرائط میں بجلی کے نرخوں میں دی جانے والی حکومتی زر تلافی کو 3 سالوں میں بتدریج ختم کرنا شامل ہے۔
گردشی قرضوں کی دیگر وجوہات میں بجلی کی چوری،کرپشن،ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں بدانتظامی، فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کرنا، پن بجلی اور متبادل توانائی سے بجلی کا کم حصول، ناقص پیداواری صلاحیت کے حامل بجلی گھر، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن کے ناقابل برداشت نقصانات اور واپڈا کی جانب سے بجلی کے بلوں کی عدم وصولی کے باعث تیل سپلائی کرنے والی کمپنیوں کو بلوں کی عدم ادائیگی سے سرکولر ڈیبٹ میں مسلسل اضافے ہورہا ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ گردشی قرضوں میں اضافے کی ایک اہم وجہ آئی پی پیز کی فرنس آئل سے پیدا کی گئی مہنگی بجلی ہے لہٰذا ملک میں بجلی کی اوسطاً لاگت کم رکھنے کے لئے حکومت کو آئی پی پیز سے 30% یعنی 6000 میگاواٹ سے زیادہ بجلی نہیں لینا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو بجلی کی اوسط لاگت کم کرنے اور سستی و صاف بجلی پیدا کرنے کے لئے ہائیڈرو پروجیکٹ منصوبوں کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوگا جبکہ بجلی کی پیداوار میں اضافے کے ساتھ صارفین کو بجلی کے استعمال میں کفایت شعاری کی ترغیب بھی دینا ہوگی تاکہ بجلی کے بے جا ضیاع کو روکا جاسکے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سی این جی کے گاڑیوں میں استعمال کو کم سے کم کرکے اسے صنعتی پہیئے کو چلانے کے لئے استعمال کیا جائے۔ اس کے علاوہ گیزرز اور ٹیوب ویلوں کو سولر انرجی پر منتقل کرنا ہوگا جبکہ ونڈ انرجی اور سول نیوکلیئر انرجی جو صاف اور سستی بجلی کا بہترین ذریعہ ہے، کی پیداواری استطاعت کو بھی بڑھانا ہوگا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ صارفین کو سستی بجلی کی فراہمی کے لئے قومی پاور ہائوسز جلد از جلد کوئلے پر منتقل کرے جس کے لئے 2 بلین ڈالر کی لاگت سے کوئلے سے 5000 میگاواٹ سستی بجلی (8 روپے فی یونٹ) پیدا کر نے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ بجلی کی موجودہ لاگت 14 روپے فی یونٹ ہے۔ پاکستان میں فرنس آئل سے تقریباً 41%، ہائیڈرو اور نیوکلیئر سے 31%، قدرتی گیس سے 27% اور کوئلے سے صرف 1% بجلی پیدا کی جاتی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو 175 بلین ٹن کے بلیک گولڈ کوئلے کے ذخائر سے مالا مال کیا ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں کوئلے اور دیگر متبادل ذرائع سے سستی بجلی کا حصول نہ ہونے کے برابر ہے جس کے باعث بجلی کی اوسط پیداواری لاگت انتہائی زیادہ ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں کوئلے سے 69%، ہائیڈرو اور نیوکلیئر سے 18%، گیس سے 12% اور فرنس آئل سے صرف 1% بجلی پیدا کی جاتی ہے جبکہ پولینڈ، جرمنی اور ایشیاء کی سب سے بڑی معیشت چین اپنی 60% سے 70% بجلی کی ضروریات کوئلے سے پوری کرتے ہیں۔ ملک میں سرکولر ڈیبٹ کے مستقل خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ بجلی پیدا اور سپلائی کرنے والے قومی اداروں کی تنظیم نو کرکے کارپوریٹ سیکٹر سے پروفیشنلز سربراہان لائے جائیں، اداروں سے حکومتی مداخلت ختم کی جائے اور اداروں کے سربراہان کو کرپشن، بجلی کی چوری کی روک تھام اور بلوں کی وصولی کے لئے سخت اہداف دیئے جائیں تاکہ وہ سخت اقدامات کے ذریعے ان اداروں کی مالی حالت بہتر بناسکیں جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھی بجلی کی چوری کی روک تھام کے لئے سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے بصورت دیگر گردشی قرضوں کا ناسور اسی طرح پھیلتا رہے گا۔ موجودہ حکومت نے چین کے تعاون سے سستی بجلی کے کئی بڑے منصوبے تشکیل دیئے ہیں جن سے 10 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی کی پیداوار متوقع ہے۔ امید ہے کہ سستی بجلی کے ان نئے منصوبوں سے ہمارا انرجی مکس بہتر ہوسکے گا جس سے نہ صرف بجلی کی پیداواری لاگت میں کمی آئے گی بلکہ بجلی کی مد میں دی جانے والی حکومتی زر تلافی اور گردشی قرضوں میں بھی کمی آئے گی۔
تازہ ترین