• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بارہا سیاست دانوں، ججوں اور جرنیلوں کو دھمکیاں دینے کےبعد گزشتہ روز الطاف حسین نے ہرزہ سرائی کی اس حد کو چھو لیا جہاں آج تک پاکستان کا کوئی ناراض سے ناراض لیڈر بھی نہ پہنچا تھا۔ خان عبدالغفار خان پاکستان سےبرملا اختلاف کرتے تھے مگر انہوں نے کبھی پاکستان کی بقا اور سلامتی کے خلاف کوئی بات نہ کہی۔
جب موج مستی میں ڈوبے جرنیل یحییٰ خان نے 25مارچ 1971کو قومی اسمبلی کا بلایا ہو ااجلاس ملتوی کر دیا تو ڈھاکا میں لاکھوں کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے ناراض شیخ، مجیب الرحمن نے آخر میں جے بنگلہ اور جے پاکستان کا نعرہ لگایا۔ چند ماہ بیشتر جب آصف علی زرداری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف خوب گرجے برسے تو بھی انہوں نے آخر میں اپنی شعلہ افشانی کا اختتام پاکستان کھپے ،پاکستان زندہ باد پر کیا۔ نقل کفر، کفر نہ باشد کے مصداق ایم کیو ایم کے قائدالطاف حسین کی ہرزہ سرائی کی دوچار جھلکیاں ملاحظہ کر لیجئے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ ان کی زہر میں بجھی ہوئی باتیں کس قدر قابل مذمت اور قابل نفرت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ پاکستان ساری دنیا کے لئے سر درد ہے اور پاکستان ساری دنیا کے لئے دہشت گردی کا مرکز ہے۔کون کہتا ہے کہ پاکستان زندہ باد، میں تو کہتا ہو ں پاکستان ۔۔۔‘‘
یہ وہ الفاظ ہیں جو آج تک پاکستان کے کسی بڑے سے بڑے دشمن نے بھی نہیں کہے۔ ایسے انداز تو نریندر سنگھ مودی کے پاکستان کے خلاف دھمکیوں میں بھی کبھی شامل نہیں ہوئے۔ پاکستان کے خلاف اس زہر افشانی کے بعد لندن کی عطر بیز فضائوں میں شب و روز جام و مینا سے دل بہلانے والے قائد نے بھوک ہڑتالی کیمپ میں جمع ہونے والے خواتین و حضرات سے کہا کہ کیا آپ اے آر وائی اور سما چینلز کے خلاف احتجاج کے لئے جا رہےہیں۔مجمع سے آواز آئی جو حکم آپ کا۔ اس کے بعد قائد تحریک نے کہا کہ آج چینلز کی خبر لو، پھر اپنے آپ کو تازہ دم کرو اور اس کے بعد کل رینجرز سینٹر جائو اور پھر سندھ سیکرٹریٹ کو تالہ لگا دو۔ مجمع سے چند خواتین کی آواز آئی۔ ‘‘بھائی کا ہو اک اشارہ ،حاضر ،حاضر لہو ہمارا ‘‘
ٹی وی چینلز پر چڑھ دوڑنے کا حکم دے کر دراصل الطاف حسین 12مئی2007کہ جو پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، کی تاریخ دہرانا چاہتے تھے۔ اسی روز معزول چیف جسٹس کی کراچی آمد کے موقع پر ایم کیو ایم نے درجنوں انسانوں کو چڑیوں کی طرح پھڑکایا ۔ وکیلوں کو زندہ جلایا اور چھ گھنٹے تک آج نیوز کے دفاتر کا محاصرہ کیا جہاں ٹی وی کے کارکنان زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے۔مگر گزشتہ روز الطاف حسین ایک بات بھول گئے کہ اب پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل راحیل شریف ہیں جنرل پرویز مشرف نہیں۔ 12مئی کو پولیس اور رینجرز اپنے اپنے مراکز میں پیچ و تاب کھاتے رہے جبکہ شہر کی سڑکوں پر ایم کیو ایم کے اسلحہ بردار دہشت گرد دندناتے رہے اور معصوم انسانوں کا شکار کرتے رہے ۔اس روز پولیس اور رینجرز کو قاتلوں کا ہاتھ روکنے کا نہیں انہیں فری ہینڈ دینے کا اشارہ تھا اسی یوم سیاہ کی سیاہ تر شام کو جنرل پرویز مشرف نے اسلام آباد میں جشن مناتے ہوئے ایم کیو ایم کو خون کی ہولی پر نہایت شرمناک الفاظ میں داد دی اور شاباش کہی۔ انہوں نے کہا جس کی طاقت ہو گی وہ اسی کا مظاہرہ تو کرے گامگر اس بار تحریک کا وار الٹا پڑا کیونکہ اب ان کا پالا اپنے سرپرست جنرل پرویز مشرف سے نہیں،جنرل راحیل شریف سے پڑا کہ جس نے سرحدوں کے تحفظ ہی کی نہیں پاکستان کے ہر شہری اور یہاں کے گلی کوچوں کے امن و امان کی قسم بھی کھائی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے رینجرز کو مزید فری ہینڈ دیتے ہوئے حکم دیا کہ تخریب کاروں کو فی الفور لگام دی جائے اور امن و امان قائم کیا جائے۔ کل شام ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے سربراہ فاروق ستار نے ایک پریس کانفرنس کی اور کہا کہ ہم گزشتہ شب کے واقعہ کی مذمت کرتے ہیں۔ معذرت کرتے ہیں بلکہ اظہارندامت کرتے ہیں۔ آئندہ ایم کیو ایم پاکستان کا لندن کے سیکرٹریٹ سے رابطہ اور واسطہ نہ ہو گا۔ ان کے بیان کی قلعی تو چند گھنٹوں میں واسع جلیل نے لندن سے یہ کہہ کر کھول دی کہ ایم کیو ایم کے بانی اور قائد تحریک الطاف حسین بھائی ہیں۔ ان کی ہدایات اور توثیق کے بغیر ایم کیو ایم پاکستان اور فاروق ستار کی کوئی حیثیت نہیں۔
گزشتہ شب رات گئے میں نے کراچی کی تازہ ترین صورت حال کا اندازہ لگانے کے لئے نہایت احتیاط اور اعتدال کے ساتھ بات کرنے والے سابق ایم این اے ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ ایم کیو ایم نے معذرت اور لندن سے لاتعلقی کا جو ڈرامہ رچایا ہے یہ بیل آئوٹ پیکیج کےعلاوہ کچھ نہیں۔ الطاف حسین اپنی ہرزہ سرائی سے ایم کیو ایم کو بہت نقصان پہنچا چکے تھے لہٰذا لندن ہی کی رضا مندی سے اس نقصان کی شدت کو کم کرنے کے لئے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر فاروق ستار ان کے کلاس فیلو ہیںوہ انہیں اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ گول مول بات کرنےکے بادشاہ ہیں۔ ان کا شیوہ ہے کہ ۔
باغباں خوش رہے، راضی رہے، صیاد بھی
سچی بات یہ ہے کہ فاروق ستار کی پریس کانفرنس کا لب لباب بھی یہی ہے کہ۔کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔
ان کی یہ مجال ہی نہیں، کہ وہ قائد تحریک کی مرضی کے بغیر ذرا سی لب کشائی سے کام لیں۔ فاروق ستار کے ڈرامائی اعلان کے دو فوری مقاصد ہیں ایک آج سندھ کے شہروں میں مئیر اور ڈپٹی مئیر کے انتخابات دوسرے عیدالاضحی کے موقع پر وہ25کروڑ روپے مالیت کی کھالوں سے محروم نہیں ہونا چاہتے۔
پاکستان کی گزشتہ تیس سالہ تاریخ گواہ ہے کہ بارہا سیاست دانوں نے اس طرح کے بیانات دیئے مگر پھر وہ حصول اقتدار کے لئے پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے نائن زیرو سر کے بل بھی گئے اور حساب کتاب وہیں دھرے کا دھر ا رہ گیا۔ اس بار گالی براہ راست ریاست کو دی گئی لہٰذا ہرزہ سرائی کا حساب کتاب بھی سیاست نہیں ریاست کو چکانا ہو گا۔
پاکستان کے سیاسی ،عسکری اور خفیہ ادارے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ گزشتہ تیس برس میں بانی تحریک نے کتنےجرائم کروائے۔ اجمل پہاڑی اور صولت مرزا نے کیا کیا اعتراف کئے مصطفی کمال نے کیا کیا انکشافات کئے اور بتایا کہ یہاں اپنوں کو بھی ٹھکانے لگا دیاجاتا ہے۔ وہ اس جماعت کے را سے جڑے قریبی تعلقات کے بارے میں شہادت دے چکے ہیں اور پاکستان میں متحدہ قائد کم از کم قتل کے 31مقدمات میں براہ راست ملزم کےطور پر نامزد ہیں۔ کیا ان کے مخالف یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ گزشتہ تیس برس میں الطاف حسین نے دہشت ،خوف، اور ٹارگٹ کلنگ کی سیاست کی ہے۔ ان کے مخالف کہتے ہیںالطاف حسین آج بھی را کےاحکامات کی پیروی کرتے ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر جب بھی کامیابیوں اور کامرانیوں سے سرفراز ہونے لگتی ہے تو را کے اشارے پر قائد تحریک کراچی میں فتنہ و فساد برپا کر دیتے ہیں، تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ کشمیر کی طرح کراچی میں بھی بدامنی ہے۔ پاکستان کےوزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پرامن شہریوں کو فسادات کی آگ میں جھونکنے، انہیں جلائو گھیرائو اور قتل و عارت گری پرا کسانے اور قتل کی کئی وارداتوں میں براہ راست ملوث ہونے کی بنا پر برطانوی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ الطاف حسین کو پاکستان کے حوالے کرے۔
1995میں اس وقت کے وزیر خارجہ ڈگلس برڈ سے اس زمانے کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے بھی یہی مطالبہ کیا تھا پھر اٹھارہ برس بعد عمران خان نے برطانوی حکومت کو باور کروایا کہ وہاں کا ایک شہری اپنی ہرزہ سرائی سے پاکستان کو کتنا نقصان پہنچا رہا ہے۔ اسے پاکستان کے حوالے کیا جائے،مگر ابھی تک برطانیہ میں اس پاکستانی مطالبے کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس بار پاکستان کےمطالبے کا کیا حشر ہوتا ہے۔ برسوں سے قائد تحریک نے زہر افشانی اور معافی تلافی کا کھیل تماشا جاری رکھا ہوا ہے۔ اب یہ تماشا ہمیشہ کیلئے ختم ہو جانا چاہئے۔


.
تازہ ترین