• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں موجودہ مالی سال کا وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے مالیاتی شعبے نے حالیہ برسوں میں قابل قدر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ آج کی نشست میں بینکوں اور اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعدادوشمار کی روشنی میں 2013 سے مارچ 2016 تک شعبہ بینکاری کی کارکردگی کا تجزیہ نذر قارئین ہے۔
(1) 2013میں بینکوں کا ٹیکس سے قبل مجموعی منافع 162رب روپے تھا جو2015میں بڑھ کر329ارب روپے ہو گیا۔ بینکوں کے منافع میں اس حیرت انگیز اضافے کی پاکستان کی تاریخ میں تو کیا پاکستان جیسے دنیا کے کسی بھی ملک کی حالیہ تاریخ میں بھی ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔
(2) ملکی قوانین کے تحت پاکستان میں پاکستانی روپے میں بچت اور معیاری کھاتے صرف نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر ہوتے ہیں چنانچہ بینک اس بات کے قانوناً پابند ہیں کہ وہ کھاتے داروں کو اپنے منافع میں شریک کریں۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ اسٹیٹ بینک کی معاونت سے بینک طویل عرصے سے کھاتے داروں سے کئے ہوئے معاہدےسے انحراف کرتے رہے ہیں۔ یہی نہیں، اسٹیٹ بینک نے 27ستمبر2013کو یہ غیر قانونی احکامات دیئے گئے کہ بینک کھاتے داروں کو دی جانے والی کم سے کم شرح منافع کو شرح سود کی راہداری سے منسلک کردیں۔ ان احکامات سےبینکوں کو موقع مل گیا کہ وہ کھاتے داروں کو ان کے جائز حق سے محروم کرتے رہیں۔ 2013میں بینکوں کا ٹیکس سے قبل منافع162 ارب روپے تھا اور انہوں نے اپنے بچت کھاتے داروں کو تقریباً 6.5سالانہ کا منافع دیا تھا۔ 2015 میں بینکوں کا یہ منافع329 ارب روپے ہوگیا مگر بچت کھاتے داروں کو صرف تقریباً 5فیصد سالانہ منافع دیا گیا۔ جولائی 2016 میںیہ شرح مزید گرکر صرف تقریباً 3.75فیصد ہوگئی۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بینک نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر کھولے گئے کھاتوں پر دی جانے والی شرح منافع کم کرکے اپنا منافع بڑھارہے ہیں اور کھاتے داروں کا استحصال کررہے ہیں۔
(3) مندرجہ بالا پالیسیوں کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک اور دوسرے بینک آئین پاکستان کی شقوں 3،38(ای) اور227کے علاوہ بینکنگ کمپنیز آرڈیننس کی شقوں کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔
(4)بینکوں کے کھاتےداروں کو دی جانے والی شرح کو پست رکھنے کی وجہ سے وطن عزیز میں بچتوں کی حوصلہ شکنی ہورہی ہے چنانچہ ملک کا قرضوں پر انحصار بڑھ رہاہے۔
جی ڈی پی کے تناسب سے مالی سال2004میں پاکستان میں داخلی بچتوں کی شرح 15.7 فیصد تھی جو مالی سال 2016 میں کم ہوکر صرف تقریباً 8.2 فیصد رہ گئی۔
( 5) 2013میں بینکوں کے مجموعی قرضہ جات کا حجم 4110ارب روپے تھا۔ مارچ2016میں یہ حجم بڑھکر 4782 ارب روپےہوگیا جو کہ صرف 672ارب روپے کے اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اسی مدت میں بینکوں کی جانب سے کی گئی سرمایہ کاری کے حجم میں 3108ارب روپے کا زبردست اضافہ ہوا۔ اس سرمایہ کاری کا بڑا حصہ حکومتی تمسکات میں لگایا گیا تاکہ بجٹ خسارے کو پورا کیا جاسکے اور ٹیکس چوری ر وکنے کی ضرورت نہ پڑے۔ تجارتی بینکوں کا صنعت، تجارت، زراعت اور مائیکرو فنانس وغیرہ کے لئے قرضوں کی فراہمی میں دلچسپی نہ لینا اور تجارتی بینک ہوتے ہوئے حکومتی تمسکات یعنی ٹریزری بلز اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرتے چلے جانے سے معیشت کی شرح نمو سست ہورہی ہے ، ملک میں روزگار کے کم مواقع میسر آرہے ہیں جبکہ بینک نقصان کا خطرہ مول لئے بغیر اپنا منافع بڑھاتے چلے جارہے ہیں۔ حالیہ تاریخ میں پاکستان جیسے کسی دوسرے ملک میں تجارتی بینکوں کے اپنے اصل کام سے منہ موڑ نے کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ یہ پالیسی معیشت کے لئے زہر قاتل ہے۔ 2008میں بینکوں کے قرضوں کا حجم ان کی سرمایہ کاری کے حجم کا تین گنا تھا جبکہ مارچ2016میں بینکوں کی سرمایہ کاری کا حجم ان کے قرضوں کے حجم سے 2639ارب روپے زیادہ ہوگیا۔
(6) کھاتے داروں کو ان کی رقوم پر کم شرح ملنے اور بینکوں کا حکومت کو بڑے پیمانے پر بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے غیر پیداواری قرضے دیتے چلے جانے سے ملک میں غریب اور امیر کا فرق بڑھ رہا ہے۔ اس فرق کے بڑھنے کی ایک اہم وجہ پاکستان میں ٹیکسوں کا استحصالی نظام بھی ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غریب اور امیر کی آمدنی کا فرق بڑھنے سے پاکستان میں معیشت کی شرح نمو سست ہورہی ہے اور جرائم کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔
(7) پاکستان میں کاروبار کرنے والے پانچ بڑے بینکوں کا بینکاری کی صنعت کے مجموعی منافع میں حصہ60فیصد ہے۔ جب یہ بینک حکومتی شعبے میں کام کررہے تھے اس وقت بینکوں کے کھاتے داروں کا اتنے بڑے پیمانے پر استحصال اور حکومت کو بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے اتنے بڑے پیمانے پر قرضے فراہم کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
(8)2000ء کے معیار کے حساب سے بینکوں نے جنوری 2001سے جون2016تک اپنے کھاتے داروں کو دی جانے والی شرح گراکر تقریباً 1400ارب روپے کم دیئے۔ بینک بلوچستان اور گلگت میں بہت کم قرضے دے رہے ہیں۔
(9)بینکوں کا کھاتے داروں کو اپنے منافع میں شریک نہ کرنے اور قرضوں کی معافی کے اسٹیٹ بینک کے سرکلر29کے غیر اسلامی ہونے کے ضمن میں ہمارا دائر کردہ مقدمہ گزشتہ ساڑھے سات برسوں سے شرعی عدالت میں زیر التوا ہے جبکہ بینکوں کی جانب سے غلط طریقوں سے قرضے معاف کرنے اور اسٹیٹ بینک کے سرکلر29 کے انصاف و قانون کے تقاضوں اور پارٹنر شپ ایکٹ سے متصادم ہونے کے ضمن میں مقدمہ گزشتہ تقریباً 9برسوں سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اگر مندرجہ بالا گزارشات کی روشنی میں تیزی سے اقدامات نہ اٹھائے گئے تو نہ صرف یہ کہ معیشت مشکلات کا شکار رہے گی بلکہ پاک چین اقتصادی راہداری سے بھی ملک کی قسمت نہیں بدلے گی۔

.
تازہ ترین