• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حالیہ سیلاب نے پاکستان کی معیشت کو متاثر ہی نہیں کیا بلکہ نئی اور فوری منصوبہ بندی کی ضرورت کو بھی شدت سے اجاگر کردیا ہے۔ ہمارے ہاں تمام منصوبہ بندی نوکر شاہی کرتی ہے۔ آج تک ناقص فیصلوں یا غیر ذمہ داری پر نوکر شاہی کے کسی بھی پردھان کو سزا نہیں دی گئی۔ 2010ء کے سیلاب کے بعد کمیشن بنا جنہوں نے بڑی محنت سے سیلاب میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے والے افراد کی نشاندہی کی اور آئندہ کی منصوبہ بندی کے لئے تجاویز بھی دیں مگر ہوا کیا 2010ء سے 2014ء تک اس رپورٹ پر کسی بھی ادارے نے کوئی مزید مشاورت نہیں کی اور نہ ہی کوئی ایسا فیصلہ سامنے آیا جو سرکار کی سنجیدگی ظاہر کرتا ہو، اب اس دفعہ بھی جب سیلاب آیا تو شور مچ گیا، وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ اس سیلاب کا تو کسی کو پتہ ہی نہیں تھا اس کی شدت کا کیسے علم ہوتا ۔دوسری طرف محکمہ موسمیات کا دعویٰ ہے کہ زیادہ بارشوں کے بارے میں تمام متعلقہ اداروں کو بروقت بتادیا گیا تھا کیونکہ نوکر شاہی ایسے معاملات سے صرف نظر کرتی رہی ہے اور اس معاملہ میں کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ اس لئے افسران منصوبہ بندی ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ سرکار کی مکمل ناکامی ہے جس سے عیاں ہوتا ہے کہ 2010ء کے سیلاب سے حکمرانوں نے کچھ بھی نہیں سیکھا۔اب یہ دورے اور پھیرے کس کام کے کہ ان سے نقصان کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ اس موقع پر فوج ہر شعبہ میں سول حکومت کی مدد کررہی ہے مگر حکومت کی کارکردگی عوام کو کوئی سہولت اور آسانی فراہم کرنے سے محروم ہی دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ سیلاب کی وجہ سے زرعی پیداوار پر اثر بھی پڑا ہے پھر ان زمینوں کی تیاری پر بھی ایک عرصہ درکار ہوگا۔ آمدورفت کے ذرائع بھی متاثر ہوئے ہیں۔ لوگوں کا نقصان پورا ہونے میں وقت لگے گا ، سرکار وقتی طور پر امداد دے کر زندگی رواں کرسکتی ہے مگر اسکولوں اور دیگر سرکاری عمارتوں کا جو حال ہوا ہے اس کے لئے خاصے بڑے سرمایہ کی ضرورت ہے۔ اس وقت تمام ترقیاتی کام عموماً شہروں میں ہورہے ہیں جس کی وجہ سے معاشرتی بے چینی میں اضافہ ہورہا ہے ، ان حالات میں سیاسی بے چینی ملک کے مستقبل کے تناظر میں بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
دوسری طرف اس سیلاب کا مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس سیلابی پانی کے ساتھ جو مٹی آئی ہے وہ پیداوار میں اضافہ کا باعث بن سکتی ہے ۔کاشتکاروں کو امداد کیلئے آسان قرضوں کی فراہمی، گائوں سے منڈی تک سڑکوں کی تعمیر نو ،علاقائی مارکیٹ میں کاروباری لوگوں کے لئے سہولتوں میں اضافہ ان حالات میں بہت ہی ضروری ہوگیا ہے۔ سرکاری اسکولوں کے لئے نئی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور اس کے لئے تعلیمی ڈھانچہ میں ضروری ردوبدل لازمی ہوگیا ہے۔ نوکر شاہی تمام معاملات پرانے انداز میں چلانے کی خواہش مند ہوگی۔ ان تمام معاملات کے لئے نجی اداروں کی مدد لینی ضروری ہے۔ نوکر شاہی کا جادو اب پرانا ہوچکا ہے اس کو محدود کرنا ضروری ہوگیا ہے۔پاکستان میں سیاست کا سیلاب بھی زوروں پر ہے۔ یہ عجیب سیاست ہے جس میں فریقین ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کو تیار نہیںجس کے باعث مذاکرات میں سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ دونوں طرف نجیب الطرفین لوگ ہیں، ہماری سیاست کے بارے میں کچھ جملے بڑے بامعنی رہے ہیں، ذرا غور کریں ہمارے سیاسی نیتوں کے بارے میں کیا کچھ کہا جاتا ہے۔’’ایک سنتا نہیں ہے تو دوسرا سمجھتا نہیں ہے‘‘۔ اب دوبارہ یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ کوئی بھی سوچنے اور جھکنے پر تیار نہیں اب سیاسی جرگہ اس دھرنے والوں اور سرکار کو رام کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ کپتان کی طرف سے مسلسل الزام تراشی ہورہی ہے۔وہ بنا کسی ثبوت کے الزام پر الزام لگاتے جارہے ہیں۔ سارا زور زبانی جمع خرچ پر ہے، ابھی تک کپتان نے ان معاملات میں قانونی راستہ اختیار نہیں کیا۔ کپتان اصل میں دھاندلی کے خلاف جنگ کرتا نظر آرہا ہے مگر وہ کن لوگوں کے ساتھ مل کر یہ جنگ لڑرہا ہے۔ اس کوشش میں ملک کے تمام لوگ اس سے متفق ہیں۔ سرکار کا یہ کہنا بھی درست نہیں کہ سابقہ انتخابات شفاف تھے، یہ بات سرکاری طور پر تو مناسب ہے مگر نظام ایسا ہے کہ ایسا دعویٰ کرنا بہت مشکل ہے جبکہ وہ تمام لوگ جو وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے ہیں یہ بھی کہتے ہیں کہ جناب دھاندلی ہوئی ہے اور قانون اپنی حیثیت منواتا نظر نہیں آتا۔ ایسے میں انصاف کے لئے کپتان کا دھرنا بالکل بے تکا بھی نہیں مگر وہ مذاکرات میں بھی کوئی موثر کردار ادا کرتے نظر نہیں آتے۔ اب تو سیاسی جرگہ بھی فریقین میں تبادلہ خیالات کروارہا ہے شاید دونوں فریق ایک دوسرے کا حوصلہ اور ہمت آزما رہے ہیں، ایسے میں عوام کو دونوں طرف سے مایوسی ہی مایوسی ہے؎
وہ جو منزلوں پہ لا کر کسی ہم سفر کو لوٹیں
انہی رہزنوں میں تیرا کہیں نام آ نہ جائیں
لیکن دھرنے والوں کا منصوبہ غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے مکمل ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس پس منظر میں اہم سوال یہ ہے کہ پھر انقلاب اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والے اپنے موقف پر کیوں اڑے ہوئے ہیں ۔دھرنوں اور سیلاب نے ملک کو دوراہے پر کھڑا کردیا ہے۔ صوبائی حکومتیں بے چارگی کا شکار ہیں۔ مرکزی سرکار میں کابینہ کا کردار نظر نہیں آرہا، اسمبلی اور سینٹ کے لوگ اپنی مجبوری بتانے کو تیار نہیں کہ ان حالات میں جب وہ جمہور کے لئے اتنے زیادہ فکر مند ہیں اور جمہوریت کو بچانے کے لئے سب متحد ہیں پھر بھی کونسی پردہ داری ہے کہ وہ کسی ایسے فریق کا نام لینے کو تیار نہیں جو ان کی بات سنتا نہیں۔ پھر سرکار قانون پر عملدرآمد کے لئے کوئی واضع پالیسی نہیں رکھتی۔ اب صورتحال بڑی مخدوش ہوچکی ہے، ایسے میں فوج سے مدد اور مشاورت بقائے باہمی کے لئے ضروری ہے پھر عدلیہ کا اعتماد بھی ضروری ہے۔ جب بیماری بہت بگڑ جائے تو علاج کیلئے دوسرے طریقے بھی صحت کے لئے استعمال ہوسکتے ہیں، وقت کم ہے، سب لوگ اپنے اپنے مطلب کے لئے میدان عمل میں مصروف ہیں۔
تازہ ترین