• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹوئٹر پر آیا پیغام پڑھا، ایک جھٹکا سا لگا۔ یوں تو پہلے کبھی ہوانہیں ۔یہ اس طرح کا پیغام بھیجنے والا کون ہے؟ نام تو تھا نہیں، شناختی نام نا آشنا ۔یوں بھی ٹوئٹر ہو یا دوسرے سوشل نیٹ ورک، اِن سے کم ہی دلچسپی ہے۔ اور جو ہے وہ بھی قریبی دوستوں تک محدود، ان کی خیریت اور دلچسپیاں پتہ چلتی رہتی ہیں، کبھی کبھی ’گفتگو‘ بھی ہوجاتی ہے۔ اس سے زیادہ افادہ ان کا کبھی سمجھ نہیں آیا۔ مگر یہ پیغام بھیجنے والا یہ پتہ نہیں کون ہے، اور اس طرح کا؟ یہ اندازہ ضرور ہوگیا کہ پی ٹی آئی کےکوئی صاحب ہیں کہ pti_mirِ@اِن کی شناخت تھی، پیغام پڑھ کر اندازہ ہوا، میر پتہ نہیں وہ ہیں یا نہیں، پی ٹی آئی سے اُن کا تعلق ضرور ہے۔ اور غیر ذمہ دار وہ حد سے زیادہ ہیں۔اس سے زیادہ غیر ذمہ داری کیا ہوسکتی ہے کہ کسی کو گالیاں دی جائیں،بلاجواز۔اور یہ کہ پی ٹی آئی سے اپنی وابستگی بھی ظاہر کی جائے۔قرائن تو یہی کہتے ہیں کہ ان کا اس تنظیم سے تعلق ہے۔ اس طرح کی گفتگو آج کل، بلکہ کافی عرصہ سے ،پی ٹی آئی کا طرہ امتیاز بنی ہوئی ہے۔ایسا زندگی میں کبھی ہوا نہیں۔ اتنی گندی گالیاں کسی نے بھی کبھی نہیں دیں۔ اپنی باون سالہ صحافتی زندگی میں شاید ہی کوئی ایسی سیاسی جماعت ہو جس کے خلاف نہ لکھا ہو، حکومت میں ہو یا باہر، ناراض ہوئے ضرور، شکایت بھی کی۔ مگر گالیاں؟ زندگی میں کبھی سنی نہیں اور اس طرح کی؟ یہ اعزاز صرف ایک ایسی جماعت کو حاصل ہوا ہے جس کے نام میں تحریک بھی شامل ہے اور انصاف بھی۔ اور جس کے عمل میں تحریک ہے نہ انصاف۔ دِل پر پتھر رکھ کر یہ پیغا م اپنے محترم دوست ڈاکٹر عارف علوی کی خدمت میں بھیج دیا۔ وہ ایک شریف النفس آدمی ہیں، پتہ نہیں کیوں پی ٹی آئی میں جا پھنسے ہیں۔ اُن کا فون آیا ، بہت معذرت کی۔ شرمندگی ہوئی کہ ان کو کیوں زحمت دی۔
مگر اور کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔ وہاں سننے والا اور کون ہے جسے یہ احساس ہو کہ تمیز کیا ہوتی ہے اور تہذیب کیا۔ یا یہ کہ ماں، ماں ہوتی ہے اِن کی ہو یا کسی اور کی۔ اور بہن، بہن ہوتی ہے۔ کسی بھی ماں بہن کی توہین، اِن کی شان میں گستاخی بے غیرتی کی انتہاہے، دوسرے کی ماں، میری بھی تو ماں ہے، ان کی بہن میری بھی تو بہن ہے۔ ان کی توہین برداشت کرنا مشکل نہیں نا ممکن ہے۔ مگر وہاں کس کو سنایا جائے، سو عارف علوی کو مطلع کیا ، جواب تو اس شخص کو بھی دیا تھا۔ پوچھا کیا کیا ہے؟ جواب اس کے پاس ایک ہی تھا، مزید گالیاں۔ اور توقع بھی کیا ہوسکتی ہے؟ وہ جو اِن کی تربیت کررہے ہیں اُن کا اپنا دہن بگڑ گیا ہے۔ کسی معقول گھر میں کہاں یہ اجازت ہو گی کہ کسی کو بھی ’’اوئے‘‘ کہہ کرمخاطب کرے۔ دُرَید ابھی پورے تین سال کا نہیں ہوا۔کسی نے اُس کے سامنے ’’گدھا‘‘ کہا۔ فوراً بولا ’’آنی! bad wordsنہیں بولتے‘‘ ۔ بچوں سے اس لئے آپ جناب سے بات کی جاتی ہے کہ وہ بھی یہی انداز اپنائیں،مگر پی ٹی آئی کےرہنما تو کسی کا لحاظ نہیں کرتے۔ ’’ اوئے نوازشریف،‘‘ ’’اوئے افتخار چوہدری‘‘، ’’اوئے فلاں‘‘۔ تم ہی کہو کہ یہ اندازِگفتگو کیا ہے۔ دھرنوں میں شریک یہی سیکھتے ہیں بلکہ اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ گالیاں دینے لگتے ہیں۔
ایک پیغام تلاش کرنے کیلئے ٹوئٹر کھولا۔ وہ پیغام تو ملا نہیں مگر ایسے کئی پیغام تھے جو نہیں ہونے چاہئے تھے۔ گالیوں سے بھرے ہوئے، مختلف اینکروں کے خلاف مختلف لوگوں کی طرف سے۔ ایک تصویر بھی تھی دو جانوروں کی، ان پر دو سینئر اینکروں کے نام لکھے ہوئے تھے۔ بہت دُکھ ہوا پی ٹی آئی کے حامیوں کی طرف سے یہ ناقابل برداشت پیغامات ان سب ہی اینکروں، صحافیوں کے خلاف گردش کرتے رہتے ہیں، جو کبھی پی ٹی آئی یا اس کے رہنما سے اختلاف کی جر أت کے مرتکب ہوئے ہوں۔ کئی ساتھیوں نے بتایا بھی ہے۔ سلیم صافی نے ایک کالم میں اپنے جذبات کا اظہار بھی کیا۔ ان کی بات ٹھیک ہے، کوئی بھی غیرت مند شخص بدتمیزیاں برداشت نہیں کرسکتا۔ کرنی بھی نہیں چاہئیں۔ کسی کو یہ حق کیسے دیا جاسکتا ہے کہ وہ انتہائی محترم شخصیات کی شان میں گستاخی کرے۔
ہم کہاں جارہے ہیں، ہم کیا سیکھ رہے ہیں ، ہمیں کدھر لے جایا جا رہا ہے، ہمیں کیا سکھایا جارہا ہے ان کو کوئی احساس ہے؟۔ سوشل میڈیا نو عمروں اور بچوں کی دسترس میں بھی ہے۔ اُنہیں کیا سبق ملے گا؟ وہ کیا سیکھیں گے؟ اور اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟ معاشرے پر اس طرح کی باتوں کے منفی اثرات قوم کو کدھر لے جائیں گے؟
لکھتے ہوئے خیال آیا قارئین کو بتائوں کہ کیا پیغام آئے تھے، دوبارہ پیغامات دیکھے تو بہت گھن آئی۔ یہ جو نئے پاکستان کے مدعی بن رہے ہیں ، کیا وہ نیا پاکستان ایسا ہوگا؟ کیا اُن کے نئے ملک میں اس طرح کی زبان استعمال ہوگی؟ کیا وہاں کسی کی عزت و آبرو محفوظ ہوگی؟ اِن پیغامات میں سے ایک بھی اس قابل نہیں ہے کہ اسے شائع کیا جاسکے۔ اخبارات کے صفحات اِن الفاظ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ یہ سب ناقابل اشاعت ہیں۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ کچھ لفظ لکھ کر آگے نقطے لگا دیئے جائیں۔ اِن پیغامات میں ایک آدھ لفظ کے بعد صرف نقطے ہی رہ جائیں گے۔ اور اگر یہ ترکیب استعمال کی بھی جائے تو بھی اِن نقطوں سے تعفن ہی اُٹھے گا۔ وہ لفظ ہی ایسے ہیں۔ غلیظ، غلاظت سے بھرے ہوئے ذہن کے عکاس۔
تحریک انصاف کے قائدین کو اِن باتوں کا نوٹس لینا چاہئے۔ مگر شاید یہ ایک بڑا مطالبہ ہے ، خاص طور پر تحریک انصاف کے لوگوں سے۔ اُنہوں نے ایک ایسا رویہ اختیار کیا ہوا ہے جس کا تہذیب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اِن کی گفتگو ، اِن کی بات چیت، اِن کے انداز سے یہی پتہ چلتا ہے۔ اِن کے حامیوں کا یہ ناگفتہ بہ رویہ نیا نہیں ہے۔ بار بار مختلف لوگوں نے اِس کا تذکرہ کیا ہے۔ تحریک کے رہنمائوں میں اگر غیرت و حمیت ہوتی تو وہ بہت پہلے اِن باتوں کا نوٹس لیتے، اِن بدزبانوں ، دشنام طرازوں، کو لگام دیتے، مگر یوں ہوا نہیں ہے اور امکان بھی نہیں۔ صبح شام ’’اوئے نوازشریف، اوئے افتخار چوہدری‘‘ کا شوروغل کرنے والوں سے کسی بہتر روئیے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
اور اب انہوں نے وہ گھسا پٹا الزام بھی دہرا دیا کہ اینکروں نے پیسے لئے ہیں۔ پرانا الزام ہے، اور ہر ناراض شخص کے لئے مخالفین پر عائد کر نا انتہائی آسان۔ پہلے بھی کئی سیاستدان لگاتے رہے ہیں، ثبوت کسی نہیں دیا کہ الزام لگانا آسان، ثبوت دینا مشکل ہی نہیں نا ممکن۔ کچھ ہو تو ثبوت دیں۔ عمران خان انصاف کے دعویدار ہیں، ثبوت پیش کریں۔ اتنا تو وہ جانتے ہوں گے کہ بے بنیاد الزام لگا کر وہ ایک جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، تعزیراتِ پاکستان کے مطابق۔ فرض کریں یہاں ان کا مواخذہ نہیں ہو پاتا، کسی بھی وجہ سے، تو ایک اور مقام بھی ہے جہاں کوئی اپنے جرم کی سزا سے بچ نہیں سکے گا۔ دنیا کی انہیں کوئی فکر نہیں آخرت کا ہی خیال کر لیں۔ الزام تراشی سے گریز کریں تو بہتر ہے۔ اتنا تو ان کو پتہ ہوگا کہ بلا وجہ دشمنیاں پالنے سے ان کا کوئی بھلا نہیں ہو گا، نقصان ہوگا اور ہو رہا ہے۔
تازہ ترین