• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہاں تو! بات ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ہی سے شروع کرنا پڑے گی۔ 5؍ جولائی 1977ء کی صبح شاید پاکستان کے مقدر کو اندھیروں کی جانب دھکیلنے کی کوششوں کی ابتداء تھی۔ 4؍ اپریل 1979ء شب کا یہ اقدام پاکستانی قوم کے ضمیر اور عالم اسلام کی پیٹھ میں زہر میں بجھا خنجر تھا، جس کے ذریعے ہمالہ کو غم کے سہل رواں میں ڈبویا گیا تھا جس کے اشکوں کا سیلاب اس سمے تک تھمنے میں نہیں آ رہا،
پاکستان کے ریاستی آسیب کی اصل کہانی کا اُسی شب سے آغاز ہوا تھا، کوئی ماں تاریخ کے کسی اور ابن خلدون کو کبھی نہ کبھی جنم دے گی، جو ’’سوویت یونین کا مقدمہ‘‘ لکھ کر یہاں کے انسانوں کو سوویت یونین کے ٹوٹنے، بکھرنے، ختم ہونے کے مقدس دھوکے میں چھپے سچ سے آگاہ کرے گا، یہ پھانسی ایک ایسا دروازہ ہے جس سے باہر نکلنے کی قیمت چکانے کے لئے یہاں کے باشندوں کو، اب تک ہزار ہا انسانوں کے خون کی قربانی پر آمنا و صدقنا کہنا پڑا، ایک جانب فرقہ واریت کی سرخ آندھیوں کے بگولے تھے، دوسری جانب طالبان کے جان لیوا لشکر، درمیان میں پھانسی کا جھولتا رسہ پاکستانیوں نے اسے پکڑ کے دروازے سے باہر جانا چاہا، لگتا ہے ابھی ہمارے اس اجتماعی گناہ کا صدقہ قبول نہیں ہوا، رسہ جھول اور خون بہہ رہا ہے! تسلیم کیا جانا چاہئے، غیر فرقہ وارانہ (سیکولر) لبرل اور متوازن پاکستان کا خواب چکنا چور ہوا، ذوالفقار علی بھٹو کا مقصد ملک میں ایک تاریخی سماجی تبدیلی لانا تھا جو تبدیلی نہیں ہو سکی! فیصلہ اب بھی اپریل 1979ء کی پھانسی کے رسے سے بندھا ہوا ہے، دست تاریخ اس کو دائروں میں گھماتے گھماتے بالآخر ان کی گردنوں میں ڈالنے کی منطقی معروضیت کی تکمیل تک گردش دوراں اختتام پذیر ہونے دے گا۔ یہ ریڈ زون کیا ہے؟ ذوالفقار علی بھٹو کی جھولتی لاش سے طلوع ہونے والے عوامی شعور کی کرنیں، جنہیں تم آئین کی بالادستی، قانون کے عدم احترام، خانہ بدوشوں کی بستی، لشکریوں کے جتھے قرار دیتے ہو۔ تم جو یہاں کے انسانوں کی بیدار تذلیل سے انہیں ننگا کر دیتے ہو، تم تو رہے ایک طرف تمہارے بچوں کا سرکاری پروٹوکول غیرت مند مائوں کی کوکھ سے پیدا ہونےوالوں کے بازوئوں میں غیض و غضب کی بجلیاں بھر دیتا ہے، تم جو اندرون ملک اور بیرون ملک اربوں کی دولت ہتھیا کر بیٹھے ہو، تمہاری ملکی اور غیر ملکی جائیدادوں کی وسعت سے عام پاکستانی کی آنکھیں پتھرا جاتی ہیں، تم جو سسٹم کے بجائے ماضی کی بادشاہتوں کی طرح، ہر جگہ خود سر پر ہاتھ رکھنے کی نفسانی نیکی کے ذریعہ، پاکستانیوں کو اپنی رعایا اور غلام ہونے کا سندیسہ دیتے ہو، تم جن کی کوئی فکری اور سیاسی بنیاد نہیں، اس دھرتی کی ذہانت کے لئے بے عزتی اور توہین کا چلتا پھرتا اشتہار ہو، تم جو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس بلا کر، ایک دوسرے کی خامیاں نکالنے کی سماجی چکا چوند سے عوام کی آنکھوں کو بینائی سے محروم سمجھتے ہو، تمہارے بعض میڈیا پرسنز اپنے بعض وفا دار دوستوں کو بریفنگ دیتے ان کے ادراک اور ضمیر کو گہری نیند میں مبتلا سمجھتے ہیں، انہیں عوام کے ٹیکسوں پہ پلنے والی ریاست کی مجرمانہ غفلت جیسی یقین دہانیاں کرا کے، عوامی ردعمل کو جائز قرار دینے کا انداز اختیار کر کے، ملفوف طریقے سے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کو ’’سیلاب کی تباہی کا احساس کرنا چاہئے‘‘ جیسے ڈرامے رچاتے ہیں، انہیں تمہاری دولت کے انبار، تمہارے شہنشاہوں اور شہزادوں جیسے طرز حیات، عوام کی تمہارے تک رسائی کے حد درجہ ذلیل ترین مناظر، تمہاری لاکھوں کروڑوں کی دیہاڑیاں، تمہارا ریاستی اقتدار کے دورائیوں میں بے پناہ اسراف و تبذیر، تمہاری رعونتیں اور فرعونتیں یاد تک نہیں آتیں یہ میڈیا میں موجود، عوام اور دھرتی سے جڑے اپنے دوستوں کو ماضی کی مجاوری کے مقام سے رتی بھرا ِدھر اُدھر ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے، انہیں اپنے ’’مستقبل‘‘کے لئے تمہارا اسٹیٹس کو نظام ماں کی چھاتیوں کے حیات آور مرتبے کا حامل دکھائی دیتا ہے، انہیں تمہاری طرح نظام کے خلاف ’’ڈنڈا برداری‘‘ کی ڈھنڈیا مچتی دکھائی دیتی ہے، انہیں تمہاری طرح عوام اپنے سیاسی مزاروں کے کھونٹوں سے بندھے جانو نظیر پڑتے ہیں، تمہاری طرح ان کے دماغوں کے دماغی سیلز بھی دھندلاسے گئے ہیں، عوام اپنے سیاسی مزاروں کے کھونٹے سے بندھے جانور نہیں، وہ ان مزاروں کے رکھوالے اور محافظ ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے وہ تمام میڈیا پرسنز، جنہیں دستیاب اقتصاد نے محفوظ خندقوں کی سہولتوں سے آشنا کر دیا، وہ اپنی یادداشت درست کر لیں۔ عوام ان ڈکیتوں، لٹیروں، عہد شکنوں، عوامی غداروں اور نظریات فروشوں کے اول و آخر دشمن ہیں، یقیناً جنہوں نے ان کی خاطر شہادتیں دیں، زہر خورانی جن کی تقدیر میں لکھی گئی، جس کی پھانسی نے ان کی تکریم کا اعلان کیا وہ اس کے پاسبان ہیں۔ کوئی مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی کی قیادت کے منصب پر آ کے، انہیں جمہوریت، آئین قومی یکجہتی، مارشل لا جیسے موضوعات پر عقل دینے کی زحمت نہ کرے، جو 5؍ جولائی 1977، اور 4؍ اپریل 1979سے گزر گئے، ان کے پائے استقامت میں لرزش کی ایک لہر بھی نہ ابھری، آپ ان کے سامنے اپنی اتالیقی کا بوریا بستر لپیٹ کر رکھیں!
ریڈ زون، 37یا 34برس بعد ذوالفقار علی بھٹو کی جھولتی لاش سے طلوع ہونے والے عوامی شعور کی کرنیں ہیں، آخر آئین کی بالادستی، پارلیمنٹ کی حرمت اور قومی یکجہتی کے خواب کو کون سی موت آ پڑتی ہے جب ڈاکٹر طاہر القادری ہر بے گھر کو 25سال کی اقساط پر بلاسود گھر دینے کا وعدہ کرے، ضروری اشیائے خورد و نوش آدھی قیمت پر فراہم کرنے کا شیڈول دے، لوئر مڈل کلاس کے لئے بجلی، پانی اور گیس کے بلوں پر ٹیکس ختم کرنے اور مذکورہ یوٹیلیٹیز نصف قیمت پر فراہم کرنے کی پالیسی سامنے لائے۔
عمران خان جس کا نہ کوئی ذاتی گھر باہر ہے نہ ذاتی اکائونٹ، پاکستان کے بدنہاد افراد کی بے پناہ دولت پاکستان واپس لانے کی آس دلائے، اس سب میں آئین کی بالادستی، پارلیمنٹ کی حرمت اور قومی یکجہتی کو کون سی موت پڑتی ہے؟
کس قسم کا فالج یا لقوے کی بیماری لاحق ہوتی ہے؟ یہ سب کچھ ہوتا ہے، اس لئے کہ تمہیں کسی کے گلے میں پھندا ڈال کر اسے گلیوں میں گھسیٹنے کے نعرہ باز پسند ہیں، تمہیں قتلوں کی ایف آئی آر درج کرنے کے حق میں کتربیونٹ کرنے کے ماسٹر دغا باز قابل قبول ہیں، اس لئے کہ تم سب ذہناً اور تمہارے میڈیا پرسنز مجبوراً، واقعی ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں! تختہ دار کو عظمت بخشنے والے شخص نے ’’آخری قہقہ غریب عوام کا ہو گا‘‘ کا الوہی پیغام دیا تھا، ریڈ زون اسی الوہی پیغام کا پَرتو ہے۔ سو! بات پھانسی ہی سے شروع کرنا پڑے گی، اس کی میت کو عدل کا غسل دینا ہو گا، تب یہ ریڈ زون اور زمانے کے مزید ریڈ زونز ہمارے لئے نجات کا پروانہ جاری کریں گے۔ رہ گئے میرے جیسے پاکستانی قلمکار، مطمئن ہو جائیں ان میں ایک بھی سعادت حسن منٹو، دوستو فسکی،ٹالٹائی، وکٹر ہیو گو میکسم گورکی نہیں، 90فیصد سے زائد ہر قسم کے ایوان اقتدار کے ’’قلمی شرطے‘‘ ہیں، چند جو بچتے ہیں وہ اپنی ذات میں کوبرا سانپ کی پھنکار سے کم نہیں، ہمیں اپنی جنگ اپنے ریڈ زون میں لڑتے رہنا ہے! پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے اس گھڑی کا انتظار کریں جب پاکستانی عوام ایک ہی وقت میں بلاول بھٹو، فاطمہ بھٹو، ذوالفقار جونیئر کے گھروں کی جانب قدم ملا کر تاریخ کا لانگ ترین مارچ کر رہے ہوں گے!
بی بی شہید کے بعد جو وژنری ثابت ہوا، وہ رخصت پر جائے، وہ صد فی صد تاریخ ساز رہا، اب ایسا نہیں، ان کی پارٹی پالیسیاں غریب عوام سے لگا نہیں کھاتیں، چنانچہ تاریخ بھی ان کے ساتھ نہیں کھڑی!
تازہ ترین