• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے موجودہ حالات پر ہر صاحب احساس پریشان ہے ۔ دھرنوں کے نام پر جن حالات سے ہم نے پاکستان کو دوچار کردیا ہے اس کے بعد دشمن کو پاکستان سے متعلق سازش کی ضرورت نہیں ۔ پاکستان کا قیام اﷲ کی بہت بڑی نعمت تھی ہم نے اس کی ناقدری کی جس کے نتیجے میں کبھی خشک سالی ہمارے لئے وبال جان اور کبھی پانی کی زیادتی عذابِ عظیم۔
کپتان اور قادری کہتے ہیں کہ حکمرانوں کی بد اعمالیوں کے سبب یہ دن دیکھنے پڑرہے ہیں، مگر یہ حقیقت نہیں کہ جیسے ہم ویسے ہی ہمارے حکمران ؟ پرامن آزادی و انقلاب مارچ کی یقین دہانی کرانے کے بعد اسلام آباد کو ’’ یرغمال ‘‘ بنانے والوں کا کوئی عہد و پیماں بھی ہے ؟ سینکڑوں کنال کے گھر میں شہزادوں کی سی زندگی بسر کرنے اور ’’ ترین ‘‘ کے جہاز پر سوار رہنے والے کپتان ، سیدنا حضرت عمر ؓ کا نظام لانے کی بات کرتے ہیں ۔ بدعہدی اور طوفان بدتمیزی کے ذریعے ہم اس معاشرے کو تبدیل کر پائیں گے ؟ آئیں دیکھیں عہد اور خیر کسے کہتے ہیں ’’ دو نوجوان حضرت عمر ؓ کی محفل میں داخل ہوتے ہیں وہاں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو کر کہتے ہیں یا عمر ؓاِس شخص نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے ۔ عمر ؓ پوچھتے ہیں کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟وہ کہتا ہے ہاں امیر المومنین مجھ سے قتل ہو گیا ہے ان کا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔ میں نے منع کیا ۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر ہی مر گیا۔ عمر ؓ نے حسب نسب دیکھا نہ قاتل کا مقام و مرتبہ کہا قتل کا بدلہ قتل ہے ۔ وہ شخص کہتا ہے ا ے امیر المومنین ۔ اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اﷲ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔ میں اس کے بعد واپس آ جاؤں گا۔عمر ؓ کہتے ہیں کون تیری ضمانت دے گا تو واپس بھی آ جائے گا؟ مجمع پر خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اس کا نام تک جانتا ہو۔ کون ضمانت دے گا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ تو نہیں ، ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ اور کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اﷲ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر ؓ سے اعتراض کرے ۔ اس شخص نے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس کو قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں ؟ اس کو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا،خود عمر ؓ بھی سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں ۔اس صورتحال پر، سر اٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں معاف کر دو اس شخص کو ، نوجوان کہتے ہیں نہیں امیر المومنین ! جو ہمارے باپ کو قتل کرے اس کو چھوڑ دیں یہ نہیں ہو سکتا ۔ عمر ؓ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں اے لوگو ! ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟ ابو ذر غفاری ؓ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں میں ضمانت دیتا ہوں اس کی ، عمر ؓ کہتے ہیں ابوذر ؓ اس نے قتل کیا ہے ۔ ابوذر ؓ کہتے ہیں کوئی بات نہیں ۔ عمر ؓ جانتے ہو اسے ؟ابوذر ؓ نہیں ، تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو ؟ ابوذر ؓ میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں مجھے یقین ہے انشاء اﷲ یہ لوٹ آئے گا ۔عمر ؓ ، ابوذر ؓ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑے گا ۔
ابوذر ؓ فرماتے ہیں امیر المومنین اﷲ مالک ہے عمرؓ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے تاکہ بیوی بچوں کو الوداع کہہ سکے ۔ عصر کے وقت شہر میں منادی کی جاتی ہے ۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔ ابو ذر ؓ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر ابن خطاب ؓ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔خلیفہ دوم سوال کرتے ہیں کدھر ہے وہ آدمی ؟ ابوذر ؓ کہتے ہیں مجھے نہیں پتہ ، ابوذر ؓ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ ہو کا عالم ہے اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ؟ یہ سچ ہے کہ ابوذر ؓ ، عمر فاروق ؓ کے دل میں بستے ہیں۔ عمر ؓ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر ؓ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر ؓ کے حوالے کر دیں ۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ۔ اﷲ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔مغرب سے چند لمحے پہلے وہ شخص آ جاتا ہے ۔ بےساختہ حضرت ؓ کے منہ سے اﷲ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔ ساتھ ہی مجمع بھی اﷲ کی کبریائی بیان کرتا ہے عمر ؓ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے شخص ، اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا بگاڑ لینا تھا۔ کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی تیرا پتہ ۔ وہ بولا امیر المومنین ! اﷲ کی قسم بات آپ کی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر ۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفا ہی اٹھ گیا ہے عمر ؓ نے ابوذر ؓ کی طرف رخ کر کے پوچھا ابوذر ۔ تو نے کس بنا پر اس کی ضمانت دے دی تھی ؟ ابوذر ؓ نے کہا مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ تم کیا کہتے ہو ؟ نوجوانوں نے جن کا باپ قتل ہوا تھا روتے ہوئے کہا اے امیر المومنین! ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اٹھا لیا گیا ۔ خلیفہ وقت اﷲ اکبر پکار اٹھتے ہیں ، آنسو ان کی داڑھی کو تر کرتے نیچے گر نے لگے آپ ؓ نے فرمایا اے نوجوانو اﷲ تمہاری عفو و درگزر پر ، اے ابو ذر ؓ اﷲ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر اور اے شخص اﷲ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے اور اے ابن خطاب ؓ اﷲ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔ درج بالا واقعہ میں ہم سب بالخصوص اسلام آباد کی شاہراہ دستور کے ایک پار بیٹھے حکمرانوں اور دوسری طرف ’’ قبضہ گروپ‘‘ جس نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے کے لئے ایک سبق ہے ۔ ایک درس ان کے لئے بھی ہے جو کہیں دور خفیہ مقامات پر بیٹھ کر اپنے آپ کو بہت طاقتور سمجھ کر ’’ کٹھ پتلیاں ‘‘ نچا رہے ہیں ۔ یاد رکھئے ہم سب نے حیاء نہ کی اور اپنے حالات نہ بدلے ، کفران نعمت کی روش تبدیل نہ کی تو دنیا کو یہ کہنے کا حق حاصل ہو گا کہ پاکستان سے خیر اٹھا لی گئی ہے یادرکھئے خیر کی ضد شر ہے اور اہل شر کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔
تازہ ترین