• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں ادب کے ہاتھوں بہت تنگ ہوں۔ اس میں ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ آپ بے ادبی نہیں کر سکتے۔ ذہن میں کوئی طوفان سر اٹھا رہا ہو یا سینے میں لاوا ابل پڑنے کے لئے بے چین ہو، آپ پر لازم ہے کہ ادب کو ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ خیال رکھیں کہ آپ کہیں بے ادبی کے دائرے میں داخل نہ ہوجائیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شدید گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ دل و دماغ میں دھواں سا بھرنے لگتا ہے۔ کبھی کبھی تو جی چاہتا ہے کہ پھٹ پڑوں۔ کہہ دوں جو کچھ بھی جی میں ہے۔ ایک بار تو جی کڑا کرکے سچ بول ہی دوں۔ مگر، یہ ادب نامی بلا کبھی ہاتھ روک دیتی ہے اور کبھی قلم کا گلا دبا دیتی ہے۔ کیسی عجیب بات ہے، اور بہت کم لوگ اس پر غور کرتے ہیں، وہ یہ کہ اردو میں لٹریچر کو کچھ اور نہیں کہتے، ادب کہتے ہیں۔ دیکھنے میں ان دونوں میں کوئی تال میل نہیں۔ دنیا بھر میں جس شے کو لٹریچر کہتے ہیں اس میں افسانہ، ناول، نظم، غزل،تنقید اور تحقیق جیسی چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ سوچتا ہوں کہ ان تمام اصناف کی ایک ڈھیری بنا کر کسی سے پوچھا جائے کہ یہ کیا ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ یہی کہے گا کہ کتابیں ہیں، رسالے ہیں یا کاغذات ہیں۔ ان کا نام ادب کس نے اور کیوں رکھا ہوگا۔ ایک بار میں نے دانشوروں کے ایک اجتماع میں یہی سوال اٹھایا اور پوچھا کہ کیا کسی اور زبان میں لٹریچر کو ادب کہتے ہیں؟ ایک صاحب نے بتایا اور وہ بھی پورے یقین سے نہیں کہ جسے ہم عمرانیات کہتے ہیں، عرب ملکوں میں اسے ادبیات کہا جاتا ہے۔ سچ پوچھئے تو وہ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ ممکن ہے عرب ملکوں میں ادب سے مراد ہمارا والا ادب نہ ہو۔ تو پھر ہمارا والا ادب کیا ہے۔ اردو معاشرے میں لفظ ’ادب‘ کے معنی دلچسپ ہیں مثال کے طور پر تمیز، تہذیب، قرینہ، سلیقہ، لحاظ، مروّت، اٹھنے بیٹھنے کا ڈھنگ، چھوٹوں بڑوں کے ساتھ پیش آنے کے طور طریقے، یہ سارے کے سارے ادب آداب تصور کئے جاتے ہیں۔ پھر اس میں ناول، افسانے، نظمیں اور غزلیں کیونکر در آئیں۔ اس کاجواب آسان ہے۔وہ جو ہم لکھتے ہیں اس میں تمیز، تہذیب،سلیقہ، لحاظ اور مروت ہو تو جس نے بھی رکھا اسی کا نام ادب رکھا۔ بالکل یہی حال گفتگو کا ہے ۔ ادب سے خالی ہو تو بے ادبی ہے۔
اب یہ نہ پوچھئے کہ یہ باتیں میرے ذہن میں کیوں آئیں۔ ابھی دو چار روز ہوئے،ایک سیاست دان نے جنہیں وزارت سے ہٹایا گیا ہے، ایک بہت بڑی سیاسی پارٹی کے قائد کے بارے میں یہ الفاظ کہے’’وہ دھوبی کا ٹامی ہے،نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘۔ ٹامی والی بات کے جواب میں جو کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے ،سارا کا سارا بے ادبی کے خانے میں آتا ہے۔ ہاں اتنا ضرور کہاجا سکتا ہے کہ جہاں تک گھر کا معاملہ ہے، جس نے دلوں میں گھر کر لیا ہو،اوررہ گئی گھاٹ کی بات تو جو گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکا ہو وہ شیرا تو ہوسکتاہے ،ٹامی نہیں ۔
ہم نےتو سنا تھا کہ اردو نہایت مہذب اور شائستہ زبان ہے۔ اس میں ساری مٹھاس اس کی نفاست سے ہے۔ مجھے یاد ہے ایک بار آندھر اپردیش کے ایک وزیر اعلیٰ نے ارودزبان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس زبان میں لڑائی جھگڑا نہیں ہو سکتا۔ کوئی کہا کرتا تھا کہ اردو میں تو گالیاں بھی سسرالی رشتے داروں کے نام سے ہیں۔ پھر کیا سبب ہے کہ آپ جسے چاہیں دھوبی کا ٹامی کہہ دیں، کوئی آپ کو کچھ نہیں کہے گا۔ اس پر یاد آیا کہ یہ بات عام طور پر مشہور تھی کہ لالو کھیت میں کوئی دماغی مرض میں مبتلا ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ پاگل ہوگیا ہے اور ڈیفنس میں ہوجائے تو کہا جاتا ہے کہ نروس بریک ڈاؤن ہوگیا ہے۔ انگریزی بولنے والے گھرانوں میں باتوں باتوں میں قبض کہا جائے تو لوگ ناک سکیڑتے ہیں اور اگر constipation کہا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
ادب ،تمیز اور تہذیب کا اگرچہ سلیقہ مندی اور حسبِ مراتب سے گہرا تعلق ہے لیکن اس معاملے میں زبان غضب کی چغلی خور ہے ،اِدھر کھولی گئی، اُدھر سارے بھید کھول دیتی ہے۔ وہ جو ایک سچّے شخص کا قول ہے کہ کلام کرو تاکہ پہچانے جاؤ۔ یہ دانتوں کے بیچ جو ذرا سا فتنہ واقع ہے، یہ بولنے والے کی ذات اور ظرف، دونوں کاراز فاش کردیتا ہے۔ بڑے بوڑھے یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ایک خاموشی ہزار بلائیں ٹالتی ہے۔
اب میں پھر لفظ کی حرمت کی طرف لوٹتا ہوں۔ جو لوگ لغت دیکھتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ ایک ایک لفظ کے چھ چھ سات سات متبادل ہوتے ہیں۔ صحیح لفظ کا چننا بھی ایک فن اور ہنر ہے۔ رنگوں کی طرح بال جتنے باریک فرق سے ادا ہونے والا لفظ سارے مفہوم بدل ڈالتا ہے۔ ایک ہی بات دس آدمی کریں تو ان کے الفاظ جدا ہوں گے اور ان کا بات کہنے کا ڈھنگ مختلف ہوگا۔ اس کو لفظوں کا ہیر پھیر بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس عمل میں لفاظی اور زورِ خطابت کو بھی دخل ہے اور اس سے بڑھ کر سفارت کاری سے لے کر عیاری تک سارے ہی حربے استعمال ہوتے ہیں۔ سفارت کاری پر ایک روسی مصنف ترگنیف کی ایک کہانی یاد آئی جس میں و ہ ایک قہوہ خانے میں بیٹھا کرتا تھا جہاں بہت سے سفارت کار بھی آتے تھے۔ ترگنیف ان کی باتیں سنا کرتا تھا اور اس بات پر حیران ہوا کرتا تھا کہ وہ سب ہاں ہاں کہتے تھے لیکن مراد سب کی نہیں نہیں ہوتی تھی۔
یہاں میں اپنے عہد کے دانش ور غلام ربّانی کی ایک تحریر نقل کررہا ہوں۔ لکھتے ہیں۔’’الفاظ اینٹ اور پتھر کی طرح بے جان نہیں ہوتے۔ یہ جانداروں کی طرح پیدا ہوتے ہیں، بڑھتے ہیں اور مرجاتے ہیں۔ ان میں شریف بھی ہوتے ہیں اور رذیل بھی۔ سخت بھی ہوتے ہیں اور نرم بھی۔ کسی میں شہد کی مٹھاس ہوتی ہے اور کوئی کڑواہوتا ہے۔ ان میں سادگی بھی ہے اور پُرکاری بھی۔ انکسار بھی ہے اور شان و شکوہ بھی۔ یہ سفر بھی کرتے ہیں اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں اس طرح پہنچ جاتے ہیں جیسے کوئی اپنی جاگیر میں پہنچ جائے۔ لیکن سفر کی تکان اور زمانے کی گرد سے ان کا رنگ روپ بدل جاتا ہے اور پردیسی الفاظ میں اس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ ان کا پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے اور بعض وقت تو ان کے مزاج میں بھی فرق آجاتا ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ خواہ کسی حالت میں ہوں، سننے والے کو اپنی بیتی سناتے ہیں‘‘۔
تو میں لوٹتا ہوں اپنی پہلی بات کی طرف کہ یہ ادب کتنا ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو، بعض موقعوں پر ہاتھ ،قلم اور زبان کو روکتا ہے۔ ایسے موقع پر ادیب اپنے ترکش سے الفاظ کا وہ تیر نکالتا ہے جسے آپ چاہیں تو سفارت کاری کہہ لیں۔ وہ بات کہنے کا اپنا سلیقہ کام میں لاتا ہے اور اپنی بات کہہ بھی جاتا ہے اور وہ بات کسی پر گراں بھی نہیں گزرتی۔ یہ ادیب کی بڑی خوبی ہوگی لیکن میرا یہ اصرار اپنی جگہ کہ اپنی بات کھری کھری کہہ جانے میں جو خوبی اور جو سکون ملتا ہے وہ اس ادبی کرتب میں ہر گز نہیں۔ کبھی کبھی قلم تڑپتا ہے اور مضطرب ہوتا ہے کہ صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ میرے آگے ایک تماشا شب و روز ہوتا ہے، بات تو جب ہے کہ ایک بار ہمّت کر کے کہہ ہی دو ں کہ تماشہ گر حق پر نہیں۔ مگر یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی۔ ہاتھ آپ نے دھیما رکھا۔اسی کو کہتے ہیں، دُم ٹانگوں میں دبا لی ، ٹامی کی طرح۔
تازہ ترین