• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گذشتہ ہفتے محکمہ اطلاعات سندھ کے ایک افسر نے ، جو ہمارے دوست بھی ہیں ، فون کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری صحافیوں سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں اور وہ پیر کو بلاول ہاؤس میں آپ کے ساتھ لنچ کرنا چاہتے ہیں ۔ ایک صحافی اور سیاست کے طالب علم کی حیثیت سے مجھے ہمیشہ پاکستان کے ایک عظیم سیاسی خانوادے ( Political Dynasty ) کے نوجوان وارث بلاول بھٹو زرداری سے ملنے کا زبردست اشتیاق رہا ہے ، جس میں یہ دعوت ملنے کے بعد تجسس بھی شامل ہوگیا تھا ۔ ظہرانے کا انتظام بلاول ہاؤس کے اس لان میں کیا گیا تھا ، جہاں اکثر محترمہ بے نظیر بھٹو شام کے وقت بیٹھا کرتی تھیں اور لوگوں سے ملاقاتیں کیا کرتی تھیں ۔ مجھے بھی اسی لان میں محترمہ سے کئی ملاقاتوں کا شرف حاصل رہا ۔ کبھی کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو بلاول ہاؤس کے رہائشی حصے میں واقع اپنے ڈرائنگ روم میں بھی ملاقات کرتی تھیں ۔ اسی لان میں بلاول بھٹو زرداری کو میں نے سائیکل چلاتے ہوئے دیکھا تھا ۔ وقت گذرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا ۔ ابھی تھوڑی دیر میں وہی بلاول بھٹو زرداری پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے اسی لان میں ہم سے ملاقات کرنے کے لیے آ رہے تھے ۔ دیگر صحافیوں کے ساتھ میں وہاں بیٹھا ان کی شخصیت کے بارے میں اندازے لگا رہا تھا ۔ مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی عظیم ہستی کو بھی بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے اور مجھے بلاول بھٹو زرداری کے دادا رئیس حاکم علی خان زرداری کی شفقت بھی حاصل رہی ہے ۔حاکم علی زرداری بھی اپنے عہد کے لیجنڈتھے۔ میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری کی شخصیت پر ننھیال اور ددھیال میں سے کون سا رنگ حاوی ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری کی صحافیوں کے ساتھ یہ پہلی باقاعدہ ملاقات تھی ۔ وہ اس لان میں آئے اور تمام صحافیوں سے فرداً فرداً ملے ۔ تمام لوگوں نے ان سے اپنا تعارف کرایا ۔ ان کے ملنے کے انداز سے سب نے یہ محسوس کر لیا کہ ان کی تربیت ایک بڑے خانوادے کے فرد کی حیثیت سے ہوئی ہے ۔ ان کی شخصیت میں کوئی ’’ ہینگ اوور ‘‘ نظر نہیں آیا ۔ ان کے وہاں آتے ہی یہ اعلان کیا گیا کہ بلاول بھٹو صاحب کوئی پریس کانفرنس نہیں کریں گے ۔ یہ ملاقات صرف راہ و رسم بڑھانے کے لیے ہے ۔ لہذا وہ ہر ٹیبل پر جا کر صرف گپ شپ کریں گے لیکن وہ جس ٹیبل پر بیٹھتے ، صحافی ان سے کوئی نہ کوئی سوال کرنے لگتے ۔ سندھ کے وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنما یہ درخواست کرتے رہے کہ اس ملاقات کو سوال جواب کا سیشن نہ بنایا جائے تاہم ماحول کو دیکھ کر بلاول بھٹو زرداری نے وہ باتیں کیں ، جو صحافی سننا چاہتے تھے ۔ جب وہ گفتگو کر رہے تھے تو کبھی محسوس ہوتا تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا لہجہ ہے اور کبھی یہ محسوس ہوتا تھا کہ حاکم علی زرداری اور آصف علی زرداری کا لہجہ ہے ۔ صحافی یہ اندازہ لگانا چاہ رہے تھے کہ اس چھوٹی سی عمر میں ذہنی بلوغت کی انہوںنے کتنی منزلیں طے کی ہیں ۔ انہیں جلد اندازہ ہو گیا کہ بلاول بھٹو کا طرز استدلال اور ڈکشن ان کی عمر سے بہت بڑا ہے ۔ 18 ویں صدی کے جرمن فلسفی ’’ ایمانوئل کانت ‘‘ نے کہا تھا کہ ’’ غیر معمولی ذہین شخص (جینئس ) وہ ہوتا ہے ، جو تخیلات تک آزادانہ طور پر پہنچتا ہے اور ان کا ادراک کرتا ہے جبکہ عام لوگوں کو بات سمجھانی پڑتی ہے ۔ ‘‘ بلاول بھٹو زرداری کو بہت سی باتیں ورثے میں ملی ہوں گی لیکن وہ خود بھی بلا شبہ ایک جینئس ہیں ۔ وہ گفتگو میں جو لغت استعمال کر رہے تھے ، اس سے ہی پتہ چل رہا تھا کہ انہیں پاکستان کی اصل حکمران اسٹیبلشمنٹ اور اس کے حواریوں کی طاقت کا مکمل طور پر اندازہ ہے ، انہیں اپنے خانوادے ( Dynasty ) کے سیاسی تجربات کا بھی ادراک ہے اور نئے عہد کی سیاست کے تقاضوں کی بھی تفہیم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ لہجے میں تھوڑی سی جارحیت اور الفاظ میں تھوڑی سی ترشی بھی ہے ۔سکیورٹی خطرات کے باوجود بھی وہ عوام کے ساتھ رابطہ کرنے کے لیے زیادہ پر جوش نظر آئے۔ ’’ Dynasties ‘‘ میں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ۔ بھارت کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کا فلسفہ سیاست اپنے والد جواہر لعل نہرو کی ضد تھا ۔ جواہر لعل نہرو نے نرمی کے ذریعہ عوام اور سمجھوتے کے ذریعہ طاقت تک رسائی حاصل کی تھی لیکن اندرا گاندھی کا زمانہ سرد جنگ کے عروج کا زمانہ تھا ، اس لیے ان کی اپروچ زیادہ مختلف تھی ۔ بلاول بھٹو کی گفتگو میں یہ احساس موجود ہے کہ پاکستان کی جمہوریت مخالف قوتیں طاقت کا بے رحمانہ استعمال کرتی ہیں اور ملک میں ہونے والی دہشت گردی دراصل ان قوتوں کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری کا یہ کہنا کہ ’’ مئی 2013 ء کے عام انتخابات کا اصل چیف الیکشن کمشنر حکیم اللہ محسود تھا ۔ ‘‘ اس احساس کی نشاندہی کرتا ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری پاکستان کی قومیتوں کے تاریخی ، ثقافتی اور تہذیبی تشخص اور ان میں پائے جانے والے احساس محرومی کے بارے میں بھی زیادہ حساس ہیں ۔ جب وہ گفتگو کر رہے تھے تو ان کے دادا رئیس حاکم علی خان زرداری کی رہائش گاہ 25 ۔ ای آئی لائن پر ہونے والا عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی ) کا تاسیسی اجلاس یاد آ رہا تھا ۔ اس اجلاس میں خان عبدالولی خان ، غوث بخش بزنجو ، قسور رضا گردیزی ، رسول بخش پلیجو سمیت پنجاب اور دیگر صوبوں کے وہ سیاسی رہنما موجود تھے ، جو یہ سمجھتے تھے کہ ایک قومی جمہوری سوچ کی حامل سیاسی جماعت ہی پاکستان کے عوام کو نہ صرف متبادل قیادت فراہم کر سکتی ہے بلکہ ایک سمت بھی دے سکتی ہے ۔ ان کے خیال میں پیپلز پارٹی ایک سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ہے جبکہ پاکستان کے عوام کو قومی جمہوری خطوط پر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ۔ شاید بلاول بھٹو زرداری کو پاکستانی سیاست کے اس نقطہ نظر کا بھی ادراک ہے ۔ بلاول ہاؤس میں بیٹھے ہوئے میرے ذہن میں یہ سوال آ رہا تھا کہ کیا بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کو ایک سوشل ڈیموکریٹک کی بجائے نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی میں تبدیل کر سکتے ہیں ؟ یہ تو بہت آگے کا سوال تھا لیکن فوری سوال یہ تھا کہ کیا بلاول بھٹو زرداری Dynasty اور Legacy کی بنیاد پر سیاست کو آگے بڑھائیں گے جبکہ دنیا اس سیاست کے بارے میں شدید تحفظات کا شکار ہو چکی ہے ؟ فلپائن کی سینیٹ میں تو ’’ اینٹی پولٹیکل ڈائی نیسٹی بل ‘‘ بھی منظوری کے لیے پیش کر دیا گیا ہے ۔ اگرچہ بلاول بھٹو زرداری عظیم قربانیوں کی وجہ سے اپنی Dynasty پر فخر کر سکتے ہیں لیکن وہ بہت عملیت پسند بھی ہیں ۔ انہیں اس بات کا بھی شدت سے احساس ہے کہ بہتر کارکردگی کے بغیر عہد نو میں سیاست نہیں کی جا سکتی ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف سندھ میں ایک نئے ڈویلپمنٹ وژن پر کام کر رہے ہیں بلکہ ترقیاتی کاموں کی خود نگرانی کر رہے ہیں ۔ وہ ہر ضلع کے منتخب نمائندوں اورعہدیداروں کے ساتھ مسلسل اجلاس منعقد کر رہے ہیں ۔ ان اجلاسوں میں نہ صرف پارٹی عہدیدار اپنی شکایات کا اظہار کرتے ہیں بلکہ پارٹی کے مسائل پر بھی بات کرتے ہیں ۔ اس طرح عہدیداروں اور کارکنوں کے ساتھ پارٹی قیادت کا اسی طرح رابطہ استوار ہو گیا ہے ، جس طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کے زمانے میں تھا ۔ عہدیدار اور کارکن اپنے دل کی بات بھی کر لیتے ہیں اور اپنا غصہ بھی نکال لیتے ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری اسی خندہ پیشمانی سے عہدیداروں اور کارکنوں کی بات سنتے ہیں ، جس طرح محترمہ بے نظیر بھٹو سنتی تھیں ۔ ہمیں مستقبل کے بارے میں کوئی حتمی بات کرنے کا حق نہیں ہے لیکن اس وقت یوں محسوس ہوتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی واپسی ہو گئی ہے۔
تازہ ترین