• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا، اوئے طاہر عالم ،میں اپنے ہاتھوں سے تمہیں جیل میں ڈالوں گا۔ یہ ہے اس طرز تخاطب کی ایک جھلک جو پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان روزانہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر ہر اس پیشہ وارانہ شخص،سیاست دان یا افسر کے بارے میں استعمال کرتے ہیں جسے وہ اپنے عزائم کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ خود ساختہ نئے پاکستان کے اس نئے قائد کے اس نئے لب ولہجے کی کوئی بھی ذی شعور شخص حمایت نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس روئیے کی پاکستان کی تبدیل ہوتی سیاست اور جمہوریت میں کوئی گنجائش موجود ہے۔پاکستان کا آئین،قانون اور معاشرتی تہذیب کوئی بھی ایسی زبان درازی کی اجازت نہیں دیتی لیکن ایک بار پھر زندہ ہونے والے موجودہ نظریہ ضرورت میں عمران خان کو یہ استحقاق حاصل ہے کہ وہ بغیر ثبوت جس کی چاہیں پگڑی اچھالیں،جس پر جو مرضی تہمت لگا دیں۔ ان کی اس طرز سیاست کا احتساب توعوام ہی کریں گے کیوں کہ وہی سب سے بہتر منصف ہیں لیکن ہمیں تصویر کے دوسرے رخ کو بھی دیکھنا ہو گا کہ آخر پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی ایک سیاسی جماعت کے سربراہ قانون نافذ کرنے اور امن وامان کے ذمہ دار ادارے پولیس کے سربراہ اور دیگر اعلی افسران کے بارے میں اس قدر نفرت کا اظہار کیوں کر رہے ہیں۔وہ کیوں اتنے خائف ہیں کہ اپنے ہاتھوں سے ان افسران کے گریبان پکڑنے کے اعلانات کر رہے ہیں۔کیا ان افسران کا قصور یہ ہے کہ وہ حکومت وقت کے احکامات کے پابند ہیں اور ان کی طرف سے دی گئی ہدایات پر عمل درآمد ان کی ذمہ داری ہے۔جواب یقینا اتنا سہل نہیں ہے۔ اعلی افسران جسے معروف اصطلاح میں بیوروکریسی کہا جاتا ہے وہ حکومت کی نہیں ریاست کی نمائندہ ہوتی ہے لیکن گزشتہ 67 سال میں ہر منتخب اور آمر حکمران نے اسے موم کی ناک کی طرح اپنے لئے استعمال کیا ،بیوروکریسی کو حکومتی کل پرزہ بنایا گیا اور ہر جائز و ناجائز کام انہی کے دستخطوں سے کرایا گیا۔ تاریخ کے معروف استاد ڈاکٹر الہان نیاز اپنی ایوارڈ یافتہ کتاب’’دی کلچر آف پاور اینڈ گورننس‘‘میں تحریر کرتے ہیں کہ ریاستیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ایک جن میں قانون کی بالا دستی ہوتی ہے جنہیں اسٹیٹ آف لا کہا جا تا ہے اور دوسری جہاں حکمران اشرافیہ اعلی افسران کے ذریعے راج کرتی ہے جو بیوروکریٹک ایمپائر کہلاتی ہیں۔ برطانوی راج میں گوروں نے اس خطے میں 1785 سے 1947 کے دوران نہایت احتیاط اور جاں فشانی سے اسٹیٹ آف لاء قائم کی تھی۔اس دور میں امن وامان اور انتظامی ڈھانچے سمیت بہترین ما لیاتی نظام قائم تھا لیکن قیام پاکستان کے بعد حکمرانی کرنیو الی ایلیٹ کلاس نے بڑی بے رحمی سے اسٹیٹ آف لا کو بیوروکریٹک ایمپائر میں تبدیل کر دیا۔ پاکستان کے سیاسی کلچر کو بھی توڑ پھوڑ کر رکھ دیا گیا اور شہنشائیت کا طرز حکمرانی متعارف کرایا گیا۔ جس میں افسران کو ذاتی ملازم سمجھا جاتا ہے اور ریاست کو ذاتی جاگیر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان گورننس جیسے سنگین بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ دوسری طرف انہی خدشات اور تحفظات کو ذہن میں رکھتے ہوئے پانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپریل 1948 میں پشاور میں سول افسران سے خطاب کرتے ہوئے ان کے لے کچھ درخشاں اصول وضع کئے تھے۔قائد اعظم نے کہا تھا کہ سروسز کسی بھی ریاست کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں،حکومتیں قائم ہوتی ہیں،شکست سے دوچار ہوتی ہیں،وزرائے اعظم آتے اورچلے جاتے ہیں وزراء تبدیل ہوتے رہتے ہیں،لیکن آپ لوگ یعنی افسران اپنے عہدوں پر کام کرتے رہتے ہیں۔اس لئے آپ کے کندھوں پر نہایت اہم ذمہ داری عاید ہوتی ہے،آپ کو کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کرنی چاہئیے نہ ہی آپ کسی بھی سیاسی رہنما سے اپنی وابستگی قائم کریں،آپ لوگوں کا یہ کام نہیں اور نہ ہی آپ کو یہ سروکار ہونا چاہئے۔ یہ تھے وہ تاریخی الفاظ لیکن قائد کی رحلت کے ساتھ ہی یہ اس طرح بھلا دئیے گئے کہ غلام محمد کی صورت میں پہلے بیورکریٹ نے خود کو چیف ایگزیکٹو اور پھر گورنر جنرل کے عہدے پر فائز کر لیا۔ وزیر اعظم بننے والیچودھری محمد علی بھی اسی کلاس کے نمائندہ تھے جبکہ ایک اور بیوروکریٹ اسکندر مرزا جہاں پاکستان کے آخری گورنر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے وہیں وہ مملکت خداداد کے پہلے صدر بھی ٹھہرے۔ اس طرح پاکستان میں بیوروکریسی نے اقتدار کے ایوانوں میں اپنی جڑیں مضبوط کیں اور پھر پاکستان میں آنے والے ہر حکمران نے اعلی افسران کو اپنیاقتدار کو مضبوط بنانے کے لئے استعمال کیا۔ جس اعلی افسر نے حکم عدولی کی جرات کی اسے کھڈے لائن لگا دیا گیا۔
سابق سیکرٹریز اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن جاوید حسن علی،سہیل احمد، آئی جی ذوالفقار چیمہ،سابق ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ،سابق آئی جی افضل شگری، این آئی سی ایل کی تفتیش کرنیوالے ظفر قریشی اور حج اسکینڈل کی تحقیقات پر مامور حیسن اصغر جیسے اصول پرست افسران اس کی واضح مثال ہیں۔ حالیہ برسوں میں حکمرانوں نے اعلی افسران کو اپنے مذموم مقاصد کے لییاستعمال کرنے کا بہترین طریقہ یہ نکالا ہے کہ سینئرعہدے کی پوسٹ پر جونئیر افسر کو قائمقام چارج دے دیا جائے تاکہ اس پراحسان بھی رہے اور وہ بلا چوں چراں ہر جائز ناجائز حکم کی بجا آوری کو فرض سمجھے۔اس وقت اگرصوبہ پنجاب اور سندھ میں نظر دوڑائی جائے توگریڈ 22 کی پوسٹوں پر گریڈ 21 کے افسران اور گریڈ 21 کی پوسٹوں پر گریڈ 20 کے افسران تعینات ہیں۔ لاہور میں ایڈیشل آئی جی جیسی متعدد انتہائی اہم پوسٹیں صرف اس وجہ سے خالی پڑی ہوئی ہیں کہ اپنے ؛مطلب؛ کا افسر نہیں مل رہا۔ میرٹ کے دعوے کرنے والی موجودہ حکومت کا بھی تعیناتی کا معیار یہ ہے کہ سری لنکا کرکٹ ٹیم پر حملے کے ذمہ دار قراردئیے گئے پولیس افسران ڈی پی او کے اہم عہدوں پر فائز کئے جا چکے ہیں۔ کسی بھی اعلی افسر کی تعیناتی کے مروجہ طریقہ کار پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا بلکہ ذاتی پسند و ناپسند اور وفاداری ہی واحد معیار ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن سے لا علمی ظاہر کرنے والے خادم اعلی کو شاید ادراک نہیں کہ پنجاب کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ صوبے میں ایک ایس ایچ او کی تعیناتی بھی ان کی مرضی کے بغیر نہیں ہو رہی جبکہ ڈی پی او، سی پی او اور ای ڈی اوز کی رخصت کی درخواست تک دستخط کے لئے سی ایم ہاؤس جاتی ہے۔ جناب عوام تو پاکستان میں ماورائے عدالت قتل کو متعارف کرانے والے کردار عابد باکسر کو بھی ابھی تک نہیں بھولے۔ اپنی مرضی کے افسران ڈھونڈنے کے حوالے سے قحط کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ چند سال سے وفاقی دارالحکومت میں آئی جی کی گریڈ 21 کی پوسٹ کے لئے کوئی اہل افسر نہیں مل رہا اور گریڈ 20 کے افسر کو قائمقام چارج دے کر کام چلایا جا رہا ہے ۔
جبکہ ایسے افسران یقینا احسان کے بدلے ریاست کی بجائے حکمرانوں کی وفاداری کا دم ہی بھرتے ہیں۔ ان حالات میں ایسا ہی ہو گا کہ اپنی باری کا انتظار کرنے والا کوئی دوسرا سیاست دان اعلی پولیس افسر کو اسی طرح اوئے طاہر عالم کہ کر نہ صرف اس کی اور اس کے ادارے کی بے توقیری کرے گا بلکہ یہ عندیہ بھی دے گا کہ اگر موجودہ حکمران اعلی افسران کو اپنا ذاتی ملازم سمجھتے ہیں تو پھر مسند اقتدار پر اگر کل کو عمران خان کو بٹھا دیا جائے گا تو وہ بھی بیوروکریسی کو ریاست کا خادم بنانے کی بجائے اپنی ناک کا بال ہی سمجھے گا اور طاہرعالم جیسے ہراس اعلی افسر کو چن چن کر نشانہ بنائے گا جو سابق حکومتوں کے چہیتے رہے ہوں گے۔ لیکن میری عمران خان سمیت حکمران اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ہر صاحب اختیار سے درخواست ہے کہ حکمرانوں اور بیوروکریسی کے گھٹ جوڑ سے اس ملک کے ساتھ بہت کھلواڑ ہو چکا اس باب کو اب ہمیشہ کے لئے بند ہو جانا چاہئے۔افسران کی تعیناتی میرٹ اور اسٹا کوڈ کے مطابق یقینی بنائی جائے۔بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کرنے کے لئے اصلاحات کی جائیں اور پاکستان کو بیوروکریٹک ایمپائر سے واپس اسٹیٹ آف لاء کی طرف لے جایا جائے۔
تازہ ترین