• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
متحدہ ہندوستان کو تقسیم کرنے والا برطانیہ خود تقسیم ہونے سے بچ گیا۔تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی پر یقین رکھنے والی برطانوی سامراج سلطنت برطانیہ کے معاملے میں اس پالیسی سے خوف زدہ نظر آئے۔ اسکاٹ لینڈ کی آزادی کی مہم چلانے والی اسکاٹش نیشنل پارٹی کو تاریخی ریفرنڈم میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ریفرنڈم میں ا سکاٹ لینڈ کے باشندوں نے آزادی کے آپشن کو مسترد کردیا اور سلطنت برطانیہ کے ساتھ رہنے کو ہی ترجیح دی۔اچھا ہوا کہ عظیم سلطنت برطانیہ تقسیم نہیں ہوئی مگر اسی برطانیہ نے جس کی ہمیشہ سے پالیسی رہی ہے کہ (Divide and Rule) تقسیم کرو اور حکومت کرو کبھی کسی دوسرے ملک کے بارے میں ایسے جذبات نہیں رکھے جو اپنی تقسیم کے موقع پر دکھائی دئیے۔1971میں جب وطن عزیز دو لخت ہورہا تھا تب سلطنت برطانیہ کے کسی نمائندے نے نہیں کہا تھا کہ مشرقی پاکستان میں ریفرنڈم کرالیا جائے۔اس وقت توپوری دنیا سے یہی بازگشت سنائی دے رہی تھی کہ لوگوں کو ان کا بنیادی حق دینا چاہئے اور اگر وہ پاکستان سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں تو انہیں الگ ملک بنانے دیا جائے۔یہ برطانیہ ہی کابویا ہوا بیج ہے کہ پاکستان آج تک اندرونی و بیرونی خلفشار سے نبرد آزما ہونے میں لگا ہوا ہے۔ہندوستان کی غیر منصفانہ تقسیم سے کون نا آشنا ہے؟یہ ریڈ کلف اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے دئیے ہوئے تحائف ہی ہیں جن سے پاکستان آج نپٹنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔حتی کہ ملک میں جاری حالیہ بحران کا آغاز بھی لندن سے ہی ہوا۔جب کینڈین علامہ ،عمران خان و دیگر نے برطانیہ کے شہر لندن میں خفیہ ملاقات کرکے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔آنے والے دنوں میں اس منصوبے کی درپردہ حمایت کرنے والی بیرونی قوتیں بھی جلد بے نقاب ہونے والی ہیں۔مگر ملک کے اندر بیٹھے مٹھی بھر طاقتور ہاتھوں نے بھی قادری عمران پلان میں صورپھونکنے کی کوشش کی مگر بری طرح سے ناکام ہوئے۔کیونکہ اپنے ہی جیسے انسانوں پر طاقت کا استعمال کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ اللہ فرماتا ہے کہ ایک چال تم چلتے ہو ،ایک چال ہم چلتے ہیں مگر کامیاب صرف اللہ ہی کی چال ہوتی ہے۔آج کے پاکستان کو پھر خطرے میں ڈالا جارہا ہے۔
پاکستان کے حالیہ حالات میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کا کردار قابل ستائش ہے۔پہلی دفعہ محسوس ہوا کہ فوج سویلین بالادستی کا احترام کرتی ہے۔گو کہ کچھ افراد کی خواہش کچھ اور تھی مگر آرمی چیف نے نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ اقوام عالم کو پیغام دیا ہے کہ 2014کے پاکستان میں جمہوریت ہی بہترین طرز حکومت ہے۔مگر پاکستان کے حالات پر گہری نظر مرکوز کیے ہوئے عالمی میڈیا نے بھی ملک کے اداروں پر خوب تنقید کی ہے۔معروف جریدہ دی اکانومسٹ نے پاکستان کے حالیہ بحران پر لکھا ہے کہ یہ پاکستانیوں اور بیرونی سرمایہ کاروں ،دوستوں کے لئے ایک موقعہ ہے کہ ایک ادارے کے کردار پر دوبارہ نظر ثانی کی جائے۔پاکستان کے عوام کے ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم کا کثیر حصہ ایک ادارے کو دیا جاتا ہے مگر سقوط ڈھاکہ سب کے سامنے ہے۔دنیا کے سب سے مستند سمجھے جانے والے جریدے دی اکانومسٹ نے تو بہت سے چشم کشاء حقائق تحریر کئے ہیں مگر میں اپنے کالم کی سطور میں انہیں تحریر کرنے سے قاصر ہوں۔ایک مقام پر برطانوی جریدہ لکھتا ہے کہ عمران اور قادری کی حمایت کرنا بھی پاکستان اور پوری دنیا کے لئے شدید دکھ کا مقام ہے۔
یکم اکتوبر کے بعد دنیا کی بہترین فوج کی سپریم کمان میں پانچ نئے کمانڈر ذمہ داریاں سنبھال لیں گے،پاک فوج سے طویل عرصے تک منسلک رہنے والے ڈی جی آئی ایس آئی ،کور کمانڈر منگلا جنرل طارق سمیت دیگر تین سینئر جنرل ادارے کو خیر باد کہنے کو ہیں ۔بازگشت ہے کہ آنے والے دن ملک کے لئے بہتر ثابت ہوں گے۔جیوکی بھی طویل سزا اختتام کو پہنچ جائے گی۔ویسے حالیہ اقداما ت سے جنگ جیو گروپ سے زیادہ اب اس سے منسلک کئی ہزار گھرانوں کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔جس پر مقتدر قوتوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔مسلم لیگ ن کے سینئررہنما سینیٹر مشاہد اللہ درست فرماتے ہیں کہ غلطی کس ادارے سے نہیں ہوئی ،ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔جیوکو کچلنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے۔ وزیراعظم پاکستان 26ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرکے وطن واپس آئیں گے تو حالات کا اونٹ کسی نہ کسی کروٹ بیٹھ چکا ہوگامگر اب ہمیں حالات سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ملک کا ایک بڑا حصہ بدترین سیلاب جبکہ دوسری طرف وزیرستان آپریشن سے متاثرہ آئی ڈی پیز در بدر ہوچکے ہیں۔ان کے متعلق سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔بلاول بھٹو درست فرماتے ہیں کہ حکمرانوں کو ذاتی اختلافات چھوڑ کر سیلاب متاثرین کی فکر کرنے کی ضرورت ہے۔پنجاب کے سیلاب زدہ متاثرہ علاقوں میںمحترمہ بینظیر بھٹو کے نوجوان فرزند کادورہ قابل ستائش ہے۔وزیراعلی پنجاب شہباز شریف بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد حالیہ سیلاب میں کافی عرصہ بعد روایتی چستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دکھائی دئیے۔جو کہ خوش آئندہ امر ہے۔وزیر اعلی کا یہ کہنا بجا ہے کہ حکومتی سطح پر سیلاب کی روک تھام کے لئے طویل المعیاد منصوبہ بندی کی ضرورت ہے،مگر اب وہ حکومت میں ہیں انہیں خود اس معاملے پر ہنگامی اقداما ت کرنے چائیں۔ پنجاب حکومت اور پنجاب کابینہ کا ایک ماہ کی تنخواہ سیلاب متاثرین کو دینے کا اعلان خوش آئندہے۔مگر اس سے بڑھ کر اقدامات کی اب بھی ضرورت ہے۔صدشکر پاکستان ایک حقیقت ناقابل تردید ہے۔اگرچہ گزشتہ ساٹھ سال میں اس خطے نے جنگ کی غارت گری ،دہشت گردی اور بد اعتمادی سبھی کچھ دیکھا۔بحرانوں کا سامنا کیا،چار فوجی آمروں کے سامنے ڈٹا رہا،مگر اپنے وجود پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔یاد رہے کہ اب معروضی حالات بدل چکے ہیں۔قوم برے بھلے کی پہچان رکھتی ہے۔آج آئین و قانون مقدم ہیں ۔لیکن اس سب کے باوجود ایوان اقتدار میں موجود حکمرانوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ ان کی ایسی کونسی پالیسیا ں ہیں،وہ کون سی کمزوریاں ہیں،جو ان کے خلاف استعمال کی گئی ہیں۔میاں نوازشریف کو اپنی پالیسیوں پر غو ر کرنا ہوگا۔گزشتہ دنوں میں نے چوہدری مشاہد رضاکی موجودگی میں مسلم لیگ( ن) کے ارباب اختیار سے کہا تھاکہ آپ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے جذبات کے بجائے حکمت سے کام لیں۔وزیراعظم ہاؤس ہونے والی نشست میں چوہدری مشاہد رضا نے کیپٹن(ر) صفدر سمیت دیگر احباب کی موجودگی میں برملا کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ میاں نوازشریف کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جارہا ہے مگر پاکستان کے بہتر مفاد میں یہ وقت جذبات کا نہیں بلکہ تدبیر سے کام لینے کا ہے۔
میاں صاحب آپ کویاد رکھنا چاہئے کہ اگر کوئی اقتدار کو اپنی ہی جیسی مخلوق پر حکم چلانے کے لئے استعمال کرتا ہے وہ فعل قبیح ہے اور اقتدار کی بلندیاں جلد اس سے روٹھ جاتی ہیں ،لیکن اگر کوئی صاحب اقتدار اپنے اختیار کو قومی بحران میں صائب فیصلے صادر کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے تو وہ فال نیک ہے اور وہی فیصلے اسے تاریخ میں امر کردیتے ہیں۔قوم کی اکثریت نے اگر آپ کو اقتدار سے نوازا ہے تو آپ کو بھی اکثریت کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنا ہونگے۔آپ کا فیصلہ درست ہے کہ چند ہزار افراد منتخب وزیراعظم کو رخصت نہیں کرسکتے مگر اس بحران سے نکلنے کے بعد یہ ضرور غور فرمائیے گا کہ آپ جن قوتوں سے مقابلہ کرتے ہوئے جمہوریت کی بالادستی کی بات کررہے ہیں وہ بہت مضبوط لوگ ہیں ۔آپ کومشرف سے لے کر بھارت تک ہر معاملے میں جذبات نہیںحکمت سے کام لینا ہوگا ۔ویسے آپ کے ہی بارے میں آغا شورش کاشمیری نے فرمایا تھا کہ ٹوٹ سکتا ہوں میں مگر لچک سکتا نہیں۔
تازہ ترین