• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ عرصہ قبل مجھے ایک دوست نے کسی سرائیکی شاعر کے کچھ اشعار سنائے تھے ، جن میں پانی کی قلت اور زیادتی سے ہونے والی ان تباہ کاریوں کو بیان کیا گیا تھا ، جن کا پاکستان کے لوگ اکثر شکار ہوتے ہیں۔ان اشعار میں ایک شعر کا مصرعہ کچھ اس طرح تھا ۔ ’’ تجھے سیلاب نے برباد کیا اور مجھے پیاس نے مار دیا ۔ ‘‘ پاکستان میں پانی سے جڑی ہوئی آفات کے حوالے سے ان اشعار میں لوگوں کے مصائب اور پاکستان کی صورت حال کا جس طرح تذکرہ کیا گیا ہے ، اس سے بہتر تذکرہ کہیں اور سننے یا پڑھنے کو نہیں ملا ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستان یا تو پانی کی قلت سے پیدا ہونے والے مسائل کا شکار رہتا ہے یا سیلاب کی تباہ کاریوں سے دوچار ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پنجاب میں پوری سرکاری مشینری سیلاب متاثرین کی امداد و بحالی میں مصروف ہے جبکہ سندھ میںتھر کے علاقے میں خشک سالی کے اثرات سے نمٹنے کیلئے سندھ حکومت اپنے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کرکےمالی وسائل ادھر خرچ کر رہی ہے۔اس تشویشناک صورت حال کا بنیادی سبب ناکافی تحت الساخت (infrastructure) اور خراب ’’ واٹر مینجمنٹ ‘‘ ہے ۔
اس وقت پاکستان سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں سے نبرد آزما ہو رہا ہے ۔ ہر دوسرے یا تیسرے سال سیلاب آتا ہے ۔ حکومت چاہے کوئی بھی ہو ، سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کو روکا نہیں جا سکاہے ۔ اس سال سیلاب سے آزاد کشمیر اور پنجاب میں زیادہ تباہی ہوئی ہے ۔تقریباً 300 افراد سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہوئے ۔ غریب لوگوں کے ہزاروں مویشی سیلاب کے پانی میں بہہ گئے ہیں اور لاکھوں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں پانی میں ڈوب گئی ہیں ۔ پنجاب کے بعض دیہی علاقوں میں دو میٹر سے بھی زیادہ سیلاب کا پانی کھڑا ہے ، اس میں گنے کی فصل بھی تباہ ہو گئی ہے جبکہ چاول کی فصل بھی بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔ جنوبی پنجاب میں کپاس ( cotton ) کی فصل ختم ہو گئی ہے ۔ یہ کپاس پاکستان کا نقرئی ریشہ ہے اور نقد آور فصل ہے اور اس فصل کا پاکستان کی معیشت کی ترقی میں اہم حصہ ہے ۔ زرعی پیداوار میں نقصان ہونے سے نہ صرف پیداوارمتاثر ہوتی ہے بلکہ پاکستان کی برآمدات پر بھی بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
پاکستان میں سیلاب اور خشک سالی سے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہ کاریوں کا ایک اور سبب یہ ہے کہ ہمارے ہاں موسمی پیشگوئی اور ہنگامی منصوبے بنانے کے لئے جدید اور خود کار سائنسی نظام وضع نہیں کیا گیا ، جیسا کے دوسرے ملکوں میں ہے ۔ اس بات کی نشاندہی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی اگلے روز سکھر بیراج کے دورے کے موقع پر بات چیت کرتے ہوئے کی ہے ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ پیشگی اقدامات سے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا جا سکتا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے پیشگی اقدامات کیوں نہیں کیے اور انہیں ایسا کرنے سے کس نے روکا تھا ۔ بنگلہ دیش میں ہمارے ہاں سے زیادہ سیلاب آتے تھے لیکن وہاں سے اب اس طرح کی تباہی کی خبریں نہیں آتیں ، جس طرح کی خبریں پاکستان سے دنیا کو ملتی ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ ہماری وفاقی اورصوبائی حکومتیں پیشگی اقدامات کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں ۔ ایک اور وجہ ہے ، جس کی بنیاد پر پیشگی اقدامات نہیں کیے جاتے ہیں ۔ اس پر اب پوری قوم کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گا ۔ وہ وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور بیوروکریسی کے لئے قدرتی آفات ’’ رحمت ‘‘ بن کر آتی ہیں ۔ ریسکیو ، ریلیف اور ری ہیبلی ٹیشن ( تھری آرز ) آپریشن میں حکومتیں اربوں روپے کا بجٹ مختص کرتی ہیں ۔کبھی کبھی بیرونی امداد بھی ڈالروں کی شکل میں آتی ہے ۔ اس تھری آرز آپریشن میں جو کچھ خرچ ہوتا ہے ، اس کا نہ تو کوئی حساب ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی احتساب ہوتا ہے۔حکمران اور بیوروکریسی کے لوگ ان قدرتی آفات میںکروڑوں اور اربوں روپے اپنی جیبوں میں ڈالتے ہیں ۔ اگر پیشگی اقدامات کر لیے جائیں تو پیسے کمانے کے مواقع ختم ہو جائیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ تباہی کے انتظامات ‘‘ کیے جاتے ہیں ۔ سندھ میں سیلابی ریلے کا زور ٹوٹنے سے کچھ لوگ مایوس ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ سے شکوہ ہے کہ سندھ میں بڑا سیلاب کیوں نہیں آیا ۔ اس کے باوجود بھی سندھ میں بڑے پیمانے پر ’’ تھری آرز آپریشن ‘‘ ہو گا اور کوشش کی جائے گی کہ پنجاب کے حکمرانوں اور بیوروکریسی سے پیچھے نہ رہا جائے ۔ یہ کرپشن ’’ تھری آرز ‘‘ تک محدود نہیں رہتیں بلکہ حفاظتی بندوں ، پشتوں ، شاہراہوں اور انفرا اسٹرکچر کی مرمت ، بحالی اور مضبوطی پر بھی سالانہ اربوں روپے ہڑپ ہو جاتے ہیں ۔قدرتی آفات سے وابستہ ’’مخصوص مفاد ‘‘ غریب لوگوں کو تباہی سے بچنے نہیںدیتا ۔
اب بہت ہو چکا ہے ۔ پاکستان میں سیلابوں اور خشک سالی کے حوالے سے پیشگوئی اور ہنگامی منصوبہ بندی کا ایک سائنسی نظام فوری طور پر وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ واٹر مینجمنٹ اور اس سے متعلق انفرا اسٹرکچر کے لئے بھی ہنگامی بنیادوں پر وسائل مختص کرنا پڑیں گے ۔ جتنے وسائل ’’ تھری آرز ‘‘ آپریشن میں خرچ ہو جاتے ہیں، ان میں پاکستان کی معیشت کو ہونے والے نقصانات کو بھی شامل کر لیا جائے تو ہر سال سیکڑوں ارب روپے حکمرانوں اور بیوروکریسی کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔ متاثرہ غریب لوگوں پر اس میں سے زیادہ سے زیادہ 10 سے 20 فیصد خرچ ہوتا ہو گا ۔ اگر باقی 80 فیصد رقم واٹر مینجمنٹ کے منصوبوں پر خرچ کی جائے تو پاکستان صدیوں تک نہ صرف تباہ کاریوں سے محفوظ ہو جائے گا بلکہ اسے پانی کی قلت کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔ ووڈرو ولسن سینٹر فار ساؤتھ ایشیاء کے اسکالر ’’ اناتول لیون ‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ مستقبل میں پاکستان کے استحکام کے لئے سب سے بڑا خطرہ ’’ واٹر سکیورٹی ‘‘ ہے۔ 1950ء کے عشرے کے مقابلے میں آج فی کس پانی کی دستیابی ایک تہائی سے بھی کم ہو گئی ہے۔ اکثر لوگوں کے پاس پینے کا صاف پانی بھی نہیں ہے ۔ پانی پر عالمی بینک کے سابق ایڈوائزر جان برسکوئی اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات کرتے ہیں ۔ وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ پانی کے معاہدے کے بغیر کشمیر اور پاکستان میں دہشت گردی کا مسئلہ حل کرنا بھی مشکل ہو گا اور بھی بےشمار رپورٹیں مرتب ہوئی ہیں ، جن میں نہ صرف پاکستان میں پانی کے بحران کی وجہ سے معیشت کی تباہی کے اشاریے دیئے گئے ہیں بلکہ پاکستان کے داخلی اور سیاسی استحکام کو بھی ان سے منسلک کیا گیا ہے ۔ دنیا میں پانی کی سیاست کو ہم اپنے ہاں بھی سمجھ سکتے ہیں ۔ جب سیلاب آتا ہے تو بند توڑ کر پانی کا رخ ادھر موڑ دیا جاتا ہے ، جہاں سیاسی مخالفین یا سماجی طور پر کمزور لوگ رہتے ہوں اور پانی کی قلت کے دور میں بھی بااثر لوگ ، علاقے اور صوبے اپنی مرضی چلاتے ہیں۔مستقبل کے خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے اب پاکستان میں کسی تاخیر کے بغیر پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم تعمیر کیے جائیں تاکہ سیلابی پانی ضائع نہ ہو اور وہ خشک سالی کے زمانے میں کام آ سکے۔یہ ضروری نہیں ہے کہ ’’ کالا باغ ‘‘ ڈیم بنایا جائے ۔ دوسرے ’’ کیری اوور ‘‘ ڈیمز بنائے جا سکتے ہیں ۔ پاکستان میں کل ڈیمز 68 ہیں جبکہ بھارت میں ان کی تعداد 4192 ہے ۔
یعنی بھارت میں 62 گنا زیادہ ڈیم ہیں ۔ پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش صرف 18 ملین ایکڑ فٹ ہے جبکہ بھارت میں یہ گنجائش 205 ملین ایکڑ فٹ ہے ۔ ہم نے ڈیموں کی تعمیر کو سیاست کی نذر کر دیا ہے اور گزشتہ 30 سال سے کوئی ڈیم ، بند اور ریزروائرز تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی نہیں کی ۔ اگر ڈیم بنا لیے جاتے اور ضائع ہونے والا آدھا پانی بھی ذخیرہ کر لیا جاتا تو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی بچا جا سکتا تھا اور ہم اپنی زرعی ضروریات بھی پوری کر سکتے تھے ۔ چین نے واٹر مینجمنٹ کے ذریعہ اپنی زراعت کو ناقابل یقین حد تک وسعت دی ہے ۔ وہاں اس قدر پانی ہےکہ شہروں میں لوگ اپنے گھروں میں بھی سبزیاں اگاتے ہیں ۔ پاکستان میں نئے ڈیموں کی تعمیر کے لئے فوری طور پر بین الصوبائی معاہدوں کی ضرورت ہے تاکہ کسی کو اعتراض نہ رہے ۔
یہ بات بھی حیران کن ہے کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ لاہور سے راجن پور تک سفر کرتا ہے اور وہاں متاثرین کی امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیتا ہے ۔ اسی طرح سندھ کا وزیر اعلیٰ کراچی سے سفر کرتا ہے اور کشمور اور گھوٹکی کے متاثرین کی حالت زار کا جائزہ لیتا ہے ۔ اب یہ مرکزیت والا نظام نہیں چلے گا ۔ عدم مرکزیت والے نظام اور خصوصاً زیادہ خود مختار مقامی حکومتوں والے نظام کو رائج کرنا انتہائی ناگزیر ہو گیا ہے تاکہ لوگ مقامی سطح پر ایسی صورت حال سے خود نمٹ سکیں ۔ مضمون کی طوالت کے پیش نظر واٹر مینجمنٹ کے بہت سےمسائل پر مزید باتوں کی گنجائش نہیں ہے لیکن حکمرانوں سے یہ درخواست ہے کہ وہ لوگوں کے ذہن میں پیدا ہونے والے ایک سوال کا جواب ضرور دیں ۔ وہ سوال یہ ہے کہ کیا بھارت نے اچانک پانی چھوڑا ہے ۔ اگر چھوڑا ہے تو کیوں اور کس کے کہنے پر ... اور حکومت پاکستان کا اس پر ردعمل کیا ہے؟
تازہ ترین