• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دریا اپنے طویل سفر میں طرح طرح کے مقامات سے گزرتا ہے۔ تنگ وادیوں سے گزرتے ہوئے دریا کی شوریدہ موجوں کو سنگلاخ پہاڑوں سے سر ٹکرانا پڑتا ہے۔ میدانی علاقے سے گزرتے ہوئے دریا کا پاٹ چوڑا ہو جاتا ہے۔ موجوں میں ٹھہرائو آجاتا ہے اور وہ سہج سبھائو سے کھیتوں کھلیانوں کو سیراب کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ دریا سے بہت سے ذیلی دھارے اور آبی شاخیں بھی پھوٹتی ہیں۔ تاریخ کے دریا پر کشتی چلانے کی بنیادی مہارت یہی جاننا ہے کہ اس وقت دریا کہاں سے گزر رہا ہے۔ سیاست میں اسے لمحۂ موجود کا بنیادی تضاد کہا جاتا ہے۔ انسانی معاشرہ تو دریا سے کہیں زیادہ پیچیدہ مظہر ہے۔ سطح زمین پرکچھ اور منظر ہوتا ہے ، زیر زمین کچھ اور ہنگامے ہوتے ہیں۔ معاشرے میں بیک وقت ان گنت معاشی، معاشرتی اور تہذیبی دھارے موجود ہوتے ہیں اور اجتماعی کشتی کا کوئی ایک کپتان نہیں ہوتا۔ سیاسی بصیرت کا تقاضا ہے کہ ان دھاروں کو ممکنہ حد تک مدنظر رکھتے ہوئے منزل کا تعین کیا جائے اور اس کی طرف بڑھنے کی حکمت عملی مرتب کی جائے۔
ان دنوں ہم اپنی تاریخ کے ایک پیچیدہ مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ یہ ایک پھیلی ہوئی تمثیل ہے جس میں انسانی کردار کی روشنی بھی جھلک رہی ہے، گروہی تحفظات کی عکاسی بھی ہو رہی ہے۔ کرداروں کی ذاتی خواہشات بھی واقعات کو مہمیز کر رہی ہیں۔ کھیل کے کچھ مناظر المیہ ہیں تو کچھ کردار مضحک کا نمونہ ہیں۔ کچھ باتیں اسٹیج کی ضرورت کے مطابق کہی جا رہی ہیں تو کچھ زاوئیے ایسے بھی ہیں جنہیں صرف کرداروں کی بدن بولی سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ انہیں بیان کرنے کی نوبت شایدکبھی نہ آئے۔ اسلام آباد میں چالیس روز سے جاری دھرنے کے بارے میں سامنے کی بات یہ ہے کہ ہنگامی دبائو ختم ہو چکا۔ یہ زور آزمائی اپنے منطقی نقطہ عروج سے گزر چکی۔ اب ڈی چوک میں بیٹھا ہجوم حکومت کی طرف سے کسی ایسی ممکنہ غلطی کے انتظار میں ہے جس کی بنیاد پر مردہ گھوڑے میں جان ڈالی جا سکے۔ بظاہر اس کا امکان کم نظر آتا ہے۔ ملکی معیشت کی روزمرہ سرگرمیو ں اور ساکھ پر کاری ضرب لگی ہے۔ تاہم ہمیں اس کی پروا نہیں۔ معاملہ ہی کیا ہو اگر زیاں کے لئے… حکومت کے وقار میں کمی آئی ہے ۔ لیکن ہم اس بارے میں بھی تردد نہیں کریں گے۔ اتفاق سے ان دنوں اسلام آباد میں منتخب حکومت قائم ہے اور ہم نے سیاسی قیادت اور پارلیمنٹ کو کبھی احترام کے قابل نہیں سمجھا۔ کراچی شہر کے عمائدین کا جو وفد گورنر جنرل غلام محمد کو محسن ملت کا خطاب دینے پہنچا تھا اس کے سپاس نامے میں مفلوج گورنر جنرل کے اس کارنامے کا ذکر نمایاں تھا کہ اس نے ملک کو ’’خود ساختہ ، نااہل اور بدعنوان دستور ساز اسمبلی‘‘ سے نجات دلائی۔ یہ القابات قائداعظم محمد علی جناح کی سربراہی میں قائم ہونے والی اسمبلی کو بخشے جا رہے تھے۔ قیام پاکستان کے موقع پر جو بھی واقعات پیش آئے ان کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ سیاسی قیادت میں دو دھارے واضح ہو گئے۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان سمیت مسلم لیگ کی آزمودہ قیادت کا تعلق ان علاقوں سے تھا جو ہندوستان میں رہ گئے۔ پاکستان کا حصہ بننے والے علاقوں سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی رہنمائوں کی اکثریت 1945ء کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہوئی۔ ان کی ایسے دیہاتی زمینداروں کی بڑی تعداد تھی جو خاندانی اثرورسوخ، ذات پات اور قبائلی اثرورسوخ کی بنیاد پر سیاست کے عادی تھے۔ ان کی سیاست ریاستی اداروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کی مرہون منت تھی۔ ڈپٹی کمشنر تو بہت بڑا عہدیدار تھا۔ ان اکابرین کے لئے تو مقامی تھانیدار اور پٹواری کا اشارہ بھی کافی تھا۔ یہ لوگ سیاست کے فکری پہلوئوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے اور جمہوریت کے ساتھ ان کا تعلق یہی تھا کہ اپنے اپنے علاقوں میں ان کی معاشی برتری اور سماجی دبدبہ قائم رہے۔ اس بیان کا اطلاق سب رہنمائوں پر نہیںہوتا، یہ اکثریت کا ذکر ہو رہا ہے۔ قائداعظم پنجاب میں نواب ممدوٹ اور ممتاز دولتانہ کا اختلاف ختم کرنے میں ناکام رہے تو لیاقت علی خان بھی سہروردی ، ایوب کھوڑو اور قیوم خان کے ساتھ ہم آہنگی پیدا نہیں کر سکے۔ اکتوبر 1951 ء میں لیاقت علی خان کی شہادت مسلم لیگ کی سکہ بند فکری روایت کے خاتمے کا اعلان تھا۔اب غلام محمد ،چوہدری محمد علی اور سکندر مرزا کا عہد تھا۔ سیاسی رہنما ریاستی مشینری کے جونیئر پارٹنر تھے۔ ایوب خان سرکاری اہلکاروں کا بازوئے شمشیر زن تھے۔ایوب اور ان کے رفقا کی پیشہ ورانہ تربیت غیر ملکی حکمرانی میں ہوئی تھی جہاں فوج کو مقامی باشندوں کی سیاسی امنگوں سے سروکار نہیں تھا۔ ہندوستان میں پنڈت نہرو اپنے رفقا کی سیاسی قامت کے بل پر فوج پر بالادستی قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہماری سیاسی پسماندگی ہمارے آڑے آئی۔ جمہوریت کی شاہراہ سے پائو ں رپٹ جائیں تو قافلے دلدلی پگڈنڈیوں میں پھنس جاتے ہیں۔ ہم نے قوم کے نامیاتی ارتقا کی بجائے ریاست کے توشہ خانے میں رکھے مصنوعی ہتھکنڈے اختیار کیے۔ ہماری معیشت مفلوج ہو گئی۔ ہماری معاشرت پسماندہ رہ گئی۔ ہماری سیاست دلیل کی بجائے باہم دست و گریبان ہونے کی مشق بن گئی۔
مختلف حلقوں سے ہمارے مسائل کی درست نشان دہی کی جا رہی ہے۔ مالی بدعنوانی کو ہمارے ہاں قبولیت حاصل ہے ۔ دوسروں کی بدعنوانی پر انگلی اٹھانے میں البتہ ہم تاخیر نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں کبھی خبر نہیں آئی کہ کسی نے رشوت لینے یا مالی خردبرد میں ملوث ہونے پر اپنے ماں باپ ٗ اولاد یا بہن بھائیوں سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہو۔ ہمارے ہاں شہری اور ریاست میں دستاویز کا رشتہ ہی قائم نہیں ہوا۔ ہم غبار آلود تعلقات کی فضا میں زندہ ہیں اور ہماری دھندلائی ہوئی آنکھیں دریا کے دھارے کو واضح طور پر دیکھنے سے قاصر ہیں۔نئے پاکستان کا چرچا تو بہت ہے لیکن سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ہمارے نئے میں کتنا پرانا شامل ہے اور ہم نیا کہتے کسے ہیں۔ ہم نے کہنہ خواہشات کی بے آب و گیاہ دلہن کو نیا لباس تو نہیں پہنا دیا۔
معیشت کے جملہ پہلوئوں سے صرف نظر کر کے صرف بدعنوانی پر توجہ مرکوز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم معاشی سرگرمیوں کا حجم بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ہم پہلے سے موجود اثاثوں اور وسائل کو رابن ہڈ کے انداز میں چھین کر دوسروں کو دینا چاہتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے یہ تجربہ کیا تھا۔ اس سے معیشت کا پہیہ رکتا ہے۔ معیشت کی گاڑی کو تین طریقوں سے آگے بڑھایا جاتا ہے۔ ہم ایسی اشیا ء پیدا کریں جن کی دنیا کو ضرورت ہے۔ہماری مصنوعات کا معیار دوسروں سے بہتر ہو اور ہم تجارت میں قدرتی حلیف منڈیوں کی نشان دہی کریں۔ منڈی سے رابطے کا مطلب خارجہ پالیسی ہے۔ خارجہ پالیسی کا یہ مطلب نہیں کہ ملک الف کو اپنا دوست قرار دے کر ملک ب سے لڑا جائے اور ب سے مل کر ملک ج کا بازو مروڑا جائے۔ خارجہ پالیسی اپنے ملک کے معاشی مفاد کے تابع ہونی چاہئے۔ خارجہ پالیسی کا مقصد اپنے شہریوں کا معیار زندگی بلند کرنا ہے۔ ہمیں ایسے قضیوں میں الجھنے سے ہر ممکن گریز کرنا چاہیے جس سے ہماری قوم میں عقیدے یا ثقافت کی بنیاد پر تفرقہ پیدا ہو۔ معیشت اور خارجہ پالیسی سے جڑا ہوا تیسرا نکتہ سماجی ڈھانچوں سے تعلق رکھتا ہے۔ ہم تحکمانہ ، امتیازی اور استخراجی سماجی ڈھانچوں کی موجودگی میں معاشرتی ہم آہنگی اور ترقی کی ضمانت نہیں دے سکتے ۔
عورتوں کے لئے معاشی ، معاشرتی اور سیاسی مساوات کی ضمانت دیے بغیر ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا نہیں کیا جاسکتا۔ مذہبی اور ثقافتی اقلیتوں کی تعداد کم ہے یا زیادہ، اقلیتوں کے ساتھ قانونی اور سیاسی رویوں سے قوم کا تشخص متعین ہوتا ہے۔ دنیا کے ہر معاشرے کی طرح ہمارے ہاں بھی مذہب ، زبان اور ثقافت کا تنوع پایا جاتا ہے۔ اس رنگا رنگی کو طاقت کے بل پر یکسانیت میں ڈھالنے کی ہر کوشش انتشار اور بدامنی پر ختم ہوتی ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہئے کہ ہم عقیدے ، زبان اور ثقافت کے اختلاف سے قطع نظر پاکستان کے سب شہریوں کو مساوی حقوق دینا چاہتے ہیں اور ان کی شناخت کا احترام کرتے ہیں۔ ایک متحرک اور ترقی پسند قوم کے شہری خیرات کی بجائے استحقاق کی بنیاد پر اپنے تحفظ اور ترقی کی خواہش رکھتے ہیں۔ ہم نے اپنی تمنائوں کو اداروں کی بجائے افراد سے وابستہ کر رکھا ہے۔ اداروں سے انکار کا نتیجہ یہ ہے کہ خود ریاستی اداروں میں تال میل بگڑ جاتا ہے۔ نیا پاکستان بنانے کے لئے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کی بجائے سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ پاکستان کے حالات کو کیسے بہتر بنایا جائے۔
تازہ ترین